محمد توصیف عالم
عاشق رسولؐ، مؤذن رسول حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو صحابی رسول بعد میں مگر عاشق رسول پہلے کہا جاتا ہے۔ اس لئے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے آقائے کائنات محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ظاہری وصال کے بعد آذان پکارنا بند کردیا تھا۔ کیونکہ جب حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ آذان پکارتے ہوئے اشھد ان محمد رسول اللہ، تک پہنچتے تو حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی یاد میں ہچکیاں بندھ جاتی تھی اور آپ زارو قطار رونے لگتے تھے۔ ایثار و اخوت کا ایسا جذبہ اتنا طاقتور ہے کہ رہتی دنیا آپ کی محبت کا مثال دیتے رہے گی۔ آپ کا نام بلال ابن رباح ہے۔ آپ کی پیدائش580 عیسوی میں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام رباح اور والدہ کا نام حمامہ تھا۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ ظاہری صورت سے تو ایک فام حبشی تھے تاہم آپ کا آئینہ دل بالکل صاف و شفاف تھا۔
کہا جاتا ہے حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے اس وقت اسلام قبول کی جب مذہب اسلام کو صرف سات لوگوں نے قبول کیا تھا۔حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ سے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ بلال آپ نے رحمۃ للعالمین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو کیسے دیکھا حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ میں مکہ کے لوگوں کو بہت کم جانتا تھا۔ کیونکہ کہ غلام تھا اور عرب کے غلاموں کے ساتھ جانوروں سے زیادہ بدتر سلوک کیا جاتا تھا۔ تو مجھے کبھی اتنا وقت ہی نہیں ملتا تھا کہ باہر نکل کر لوگوں سے ملوں لہذا مجھے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یا اسلام یا اس طرح کی کسی چیز کا قطعی علم نہیں تھا۔ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ مجھے بخار آیا جاڑے کا موسم تھا اور انتہائی ٹھنڈ ، بخار کی شدت نے مجھے لاغر وکمزور کردیا تھا۔ لہذا میں لحاف اوڑھ کر لیٹ گیا ادھر میرا مالک یہ دیکھنے آیا کہ بلال جو پیس رہا ہے کہ نہیں اس نے مجھے لیٹا ہوا دیکھا تو آگ بگولہ ہوگیا اس وقت اس نے لحاف چھین کر سزا کے طور پر میری قمیض بھی اتروادی اور مجھے کھلے صحن کے دروازے کے پاس بٹھادیا۔
اور کہا اسی جگہ بیٹھ کر جو پیس اب سخت سردی اور اوپر سے بخار کی شدت اور اتنی مشقت والا کام کہ جو پیستا جاتا اور روتا جاتا کچھ ہی دیر میں دروازے پر دستک ہوئی تو میں نے اندر آنے کی اجازت دی تو میں نے کیا دیکھا ایک نہایت ہی خوبصورت اور پرنور شخص اندر داخل ہوا اور پوچھا کہ جوان کیوں روتے ہو حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ جا اپنا کام کرو تمہیں اس سے کیا میں جس وجہ سے بھی روؤں یہاں پوچھنے والے بہت ہیں لیکن مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یہ سن کر چلے گئے۔ حضرت بلال کہتے ہے کہ میرے دل میں جو ایک امید جگی تھی کہ یہ شخص کوئی مدد کرے گا مگر یہ بھی گئے حضرت بلال کو کیا معلوم تھا کہ اب اس کا واسطہ پڑا ہے تو رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت بلال کہتے ہے کہ کچھ ہی دیر میں وہ شخص واپس آگئے اور ان کے ہاتھ میں کھجور اور ایک ہاتھ میں گرم دودھ کا پیالہ تھا دونوں چیزیں مجھے دے کر کہا کہ کھاؤ پیئو اور جاکر سوجاؤ تو میں نے فورا کہا یہ جو کون پیسے گا اگر جو پیسا نہ گیا تو مالک صبح کو بہت مارے گا دونوں عالم کے مالک و مختار صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: تم آرام کرو یہ پسے ہوئے جو مجھ سے لے لینا حضرت بلال سوگئے اور رحمۃ للعالمین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ساری رات اس اجنبی حبشی غلام کیلئے چکی پیسی صبح حضرت بلال کو پسے ہوئے جو دیئے اور چلے گئے دوسری رات بھی ایسا ہی ہوا دودھ اور دوا بلال کو دی اور ساری رات چکی پیسی ایسا تین شب مسلسل ہوتا رہا یہ تھا احمد مختار رسول کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا اخلاق کریمانہ جہاں سے لا فانی عشق نے جنم لیا۔آپ دیکھئے ہر دور میں ایسا ہوا اور آج بھی ہورہا ہے جو کمزور ہوتا ہے وہ سب سے زیادہ ظلم و ستم کا شکار ہوتا ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ پر بھی مصائب کے پہاڑ توڑے گئے تپتی ہوئی ریت جلتے ہوئے سنگریزوں اور دہکتے ہوئے انگاروں پر آپ کو لٹایا گیا امیہ بن خلف کے آپ غلام تھے اور امیہ بن خلف جو اللہ کے پیارے حبیب سرکار دوعالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا سخت دشمن تھا۔
امیہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کے خون کا پیاسا تھا۔ جب امیہ کو معلوم ہوا کہ بلال مسلمان ہوچکے ہیں تو آپ پر مزید سختیاں کرنے لگا آپ کے جسم مبارک پر کوڑے برسائے گئے، جب آپ کی پیٹھ زخمی ہوجاتی تو وادئی مکہ کی گرم گرم ریت پر آپ کو لٹا کر گرم پتھر آپ کی چھاتی پر رکھ دی جاتی جس کی وجہ سے آپ کی زبان منہ سے باہر نکل آتی امیہ نے آپ کو ہر طرح سے تکلیفیں دی مکہ کے شریر بچے آپ کی گردن میں رسی ڈال کر مکہ کی پہاڑیوں میں لئے پھرتے گردن پر رسی کا نشان نمایاں ہوجاتا سوچو! ہمارے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے دین کی خاطر کتنی تکلیفیں برداشت کی، اور نہ جانے کتنی قربانیاں پیش کی مگر ان سب تکالیف کے باوجود حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ احد احد کا نعرہ لگاتے تھے اور زبان حال سے کہتے۔
ہم غلامان محمد جان دینے سے نہیں ڈرتے
یہ سر کٹ جائے یہ رہ جائے کچھ پرواہ نہیں کرتے
ایسے ہوتے تھے ہمارے اکابر و اسلاف کہ جان چلی جائے مگر دامنِ محمد ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائیں۔ایک دن افضل البشر بعد الانبیا بالتحقیق امیر المومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھا کہ ایک سچے عاشق رسول کو سزا دی جارہی ہے مگر آپ احد احد کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ ایک مرتبہ آقا کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے درمیان فرمایا: کیا کوئی ایسا نہیں جو بلال کو خرید کر آزاد کردے امیر المؤمنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ امیہ بن خلف کے پاس گئے اور پوچھا کہ بلال کو کتنے میں فروخت کروگے امیہ بن خلف نے سونے کے دس سکوں کا مطالبہ کیا امیر المومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ گھر آئے اور سونے کے دس سکے لے کر امیہ کے ہاتھ میں دے دیئے امیہ یہ دیکھ کر ہنس پڑا اور کہنے لگا خدا کی قسم آج اگر تم ضد کرتے تو میں بلال کو سونے کے ایک سکے کے بدلے فروخت کردیتا یہ سنکر عاشق رسول حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہے کہ سن اگر آج تم ضد کرتے اور بلال کے بدلے مجھ سے سونے کے سو سکے بھی مانگتے تو میں سونے کے سو سکے دے کر بلال کو آزاد کردیتا عاشق رسول حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ ہر مہم ہر جنگ میں آقا کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ایک مرتبہ آقا کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بارگاہ میں ایک قبیلہ سے کچھ لوگ آئے اور عرض کیا یارسول اللہ میری بیٹی کی شادی ہے کس سے کردیں۔ آقا کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: بلال کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے وہ لوگ پھر آئے اور وہی سوال دہرایا تو آقا کریم علیہ السلام نے فرمایا: بلال کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے پھر تیسری مرتبہ وہ لوگ آقا کریم علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور پھر وہی سوال دہرایا تو آقا کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ بھی یہی فرمایا: بلال کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جو کہ جنتی ہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ جنت حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کا انتظار کرتی ہے۔ ایک مرتبہ فجر کی نماز کے بعد اللہ کے پیارے حبیب سرکار دوعالم نور مجسم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا کہ بلال! تم ایسا کیا کرتے ہو رات جب میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے اپنے آگے تمہارے قدموں کی آواز سنی تو حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی میرا وضو ٹوٹتا ہے تو میں فورا وضو کرکے دو رکعت نماز ادا کرتا ہوں۔کون نہیں چاہتا تھا کہ مؤذن رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا منسب اسے نصیب ہو، لیکن یہ مقام حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کے حصے میں آیا۔ آپ فتح مکہ کو یاد کریں کہ ایک طرف بڑے بڑے مرتبے والے صحابہ کرام موجود تھے اور دوسری طرف خانہ کعبہ تھا جو ساری دنیا کیلئے محترم مگر اللہ کے پیارے حبیب سرکار دوعالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے آذان دینے کیلئے مکہ کے چھت پر بلایا تو کسی اور کو نہیں بلکہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو بلایا یہ مقام ومرتبہ اللہ تعالی نے حضرت بلال کے لئے ہی رکھا تھا۔حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ مدینہ منورہ کی گلیوں میں یہ کہتے پھرتے تھے کہ اے لوگو! کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو کہیں دیکھا ہے تو مجھے بھی دکھادو۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے کہ اب مدینہ منورہ میں میرا رہنا دشوار ہے۔ ایک دن آپ نے مدینہ منورہ کو چھوڑ کر ملک شام کے شہر دمشق کے حلب چلے گئے۔
تقریبا چھ ماہ کے بعد ایک شب اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم حضرت بلال کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا اے بلال! یہ کیسی بے رخی ہے کیسی بے وفائی ہے کیا مجھ سے ملاقات نہیں کروگے کیا ہماری ملاقات کا وقت نہیں آیا خواب سے بیدار ہوتے ہی اونٹنی پر سوار ہوکر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے جب مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے مسجد نبوی پہنچ کر حضرت بلال نے عالم وارفتگی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈنا شروع کیا حضرت بلال کبھی مسجد میں تلاش کرتے اور کبھی حجروں جب آپ کو کہیں نہیں پایا تو حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے آقا کریم علیہ السلام کے قبر انور پر سر رکھ کر رونا شروع کردیا روتے جاتے اور کہتے جاتے یارسول اللہ آپ نے فرمایا تھا کہ آکر مل جا یہ غلام حلب سے بہر ملاقات حاضر ہوا ہے یہ کہہ کر حضرت بلال بے ہوش ہوکر گر پڑے کافی دیر کے بعد ہوش آیا اتنے میں سارے مدینے میں یہ خبر پھیل گئی کہ مؤذن رسول حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ آگئے ہیں، مدینہ منورہ کے بوڑھے، بچے، نوجوان، مرد و عورت جمع ہوگئے اور کہنے لگے اے بلال! ایک مرتبہ پھر وہی آذان سنادو جو سید المرسلین خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے دور میں سنایا کرتے تھے۔ حضرت بلال نے کہا میں معذرت خواہ ہوں میں نے یہ عہد کیا کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آذان نہ پکاروں گا اس لیئے جب میں آذان دیتا تھا اور اشھد ان محمد رسول اللہ، پر پہنچتا تھا تو محبوب خدا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا تھا اب یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے کس کو دیکھوں گا۔
کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین نے کہا اگر نواسہ رسول کہیں گے تو حضرت بلال مان جائیں گے اس وقت دونوں شہزادہ رسول حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہما حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے دونوں شہزادوں کو گلے سے لگایا حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہما نے حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا اے بلال! آج ہم آپ سے وہی آذان سننا چاہتے ہیں جو آپ ہمارے نانا جان آقائے کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو سنایا کرتے تھے۔ اب حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ انکار نہ کرسکے لہذا اسی مقام پر کھڑے ہوکر آذان دی جہاں سے حضور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری زندگی میں دیا کرتے تھے۔جب حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے با آواز بلند اللہ اکبر اللہ اکبر، کہا مدینہ منورہ گونج اٹھا آپ جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے جذبات میں اضافہ ہوتا چلا گیا جب اشھد ان لا الہ الااللہ، پر پہنچے جذبات میں مزید اضافہ ہوگیا۔
لیکن جب حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ اشھد ان محمد رسول اللہ، پر پہنچے تو وہ جگہ جس جگہ محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم جلوہ افروز ہوتے تھے وہ جگہ خالی تھی۔ حضرت بلال زاروں قطار رونے لگے روتے ہوئے آپ بے ہوش ہوکر گرپڑے ادہر مدینہ منورہ میں کیا بوڑھے، بچے، نوجوان حتی کہ پردہ نشیں خواتین بھی گھروں سے نکل آئیں، تمام لوگوں کے آنکھوں سے آنسوں کے قطرات ٹپک رہے تھے رقت و گریہ و زاری کا عجیب منظر تھا۔ لوگ ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ بلال تو آگئے ہیں کیا محبوب خدا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بھی تشریف لائیں گے۔ رسول خدا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ظاہری وصال کے بعد مدینہ منورہ میں اس دن سے زیادہ رونے والا دن کوئی نہ تھا۔ پھر حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ ملک شام کے حلب تشریف لے گئے۔