عبدالماجد نظامی: کیا ہندوستان میں پھر سے محبت و رواداری کی فضا قائم ہوگی؟

0

عبدالماجد نظامی

میں اپنا یہ ہفتہ وار کالم اس دفعہ ایسے وقت میں لکھ رہا ہوں جب گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران ملک گیر سطح پر ایسے بیشمار واقعات رونما ہوئے ہیں جو اس بات کے مستحق ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کا تجزیہ گہرائی کے ساتھ کیا جائے اور ان کے منفی و مثبت نتائج پر اس حیثیت سے غور کیا جائے کہ کیا ہندوستان میں عدم رواداری، نفرت و فرقہ پرستی اور قتل و خون کے بجائے رواداری و محبت اور بقاء باہم کے اصولوں کو گلے لگانے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش عام ہندوستانیوں کے ذریعہ پھر سے کی جانے لگی ہے یا یہ سمجھا جائے کہ ہندوستانی میڈیا میں نفرت اور آپسی عداوت کے جو مناظر شب و روز دکھائے اور چھاپے جاتے تھے، وہ دراصل ہندوستان کی حقیقی تصویر نہیں تھی بلکہ ایک خاص سیاسی فضا کی وجہ سے اس کو پروان چڑھایا جا رہا تھا جیسا کہ کانگریس پارٹی کے سرکردہ لیڈر راہل گاندھی نے دلی کے لال قلعہ سے خطاب کے دوران بتایا تھا؟ میں اس کالم میں آج جن واقعات کی طرف اشارہ کر رہا ہوں، ان سے ہمارے قارئین بخوبی واقف ہیں اور ان پر اپنی فہم اور تجربہ کے مطابق ایک رائے بھی رکھتے ہیں۔ وہ تمام آراء لائق احترام اور قابل غور و فکر ہیں۔ وہ تمام آراء اس اعتبار سے بھی بڑی اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ ہم ایک جمہوری ملک ہیں جہاں ہر ووٹ کی قیمت، اہمیت و معنویت یکساں ہوتی ہے اور اسی لیے ہر رائے خواہ وہ ایک دانشور کی ہو یا کم علم یا ناخواندہ شخص کی ہو، یکساں طور پر اہمیت رکھتی ہے۔ اگر ہم اس حقیقت کو واقعی قبول کرتے ہیں تو ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہندوستان کا مستقبل روشن و تابناک ہوگا کیونکہ یہاں کی خاموش اکثریت کو یہ قبول نہیں ہے کہ ملک کو مذہب و ملت اور زبان و رنگ کی بنیاد پر بانٹا جائے اور اس کی روح پر چند اوباش یلغار کرکے دنیا کے نقشہ پر یہ پیغام ثبت کردیں کہ ہندوستان ایک غیر جمہوری مزاج کا ملک بن گیا ہے جہاں صرف ایک خاص مذہب و فکر اور ایک خاص قسم کی سیاست و ذہنیت کو ہی فروغ کا حق حاصل ہوگا اور باقی تمام متبادل سیاسی افکار و نظریات، سماجی تعلقات اور تکثیریت کے تمام اصولوں کو تاریخ کے مزبلہ میں ڈال کر ہمیشہ کے لیے ان سے پلہ جھاڑ لیا جائے گا۔ سچائی یہ ہے کہ سماج کے تانے بانے برسوں نہیں بلکہ صدیوں کی محنت اور روز مرہ کے تجربات کی روشنی میں تیار ہوتے ہیں اور مرور ایام کے ساتھ ان میں مزید قوت و صلابت پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے چشم زدن میں یا چند برسوں کے پروپیگنڈوں سے انہیں ختم کر پانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اگر قارئین گزشتہ ہفتہ کے واقعات کو ذرا غور سے دیکھیں تو انہیں اندازہ ہوگا کہ اس بات میں کتنی سچائی ہے جس کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔ آپ دو حصوں پر مبنی بی بی سی کی دستاویزی فلموں کو دیکھئے اور سوچئے کہ ہم جس دنیا میں جی رہے ہیں وہ کس قدر مربوط ہے اور حقائق پر پردہ ڈالنا کس قدر ناممکن امر ہے۔ یہ گلوبلائزیشن کا عہد ہے اور اس گلوبلائزیشن میں بہت سی خامیاں بھی ہیں جن پر پھر کبھی گفتگو ہوگی لیکن اس کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے پوری انسانی دنیا کو اس قدر قریب کر دیا ہے کہ یہ کرۂ ارضی اور اس پر بسنے والے اتنے قریب آگئے ہیں کہ گویا ایک چھوٹی سی بستی کے باشندے ہوں۔ ایسے گلوبل ولّیج میں اب یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی چیز کسی کی نظر سے اوجھل رہ جائے یا کوئی جرم عالمی برادری کی نظر سے چھپ جائے۔ یہ اس گلوبلائزیشن کا ہی اثر ہے کہ فسطائیت پر مبنی جس نفرت انگیز سیاست اور سماجی نظریہ کو چمکانے اور اس کو قوت کے زور پر نافذ کرنے کی کوشش مسلسل دو دہائیوں سے زیادہ مدت سے جاری تھی، اس کا نقاب ایک لمحہ میں الٹ گیا اور فسطائیت کی پول پوری دنیا میں کھل گئی۔ اس دستاویزی فلم نے وہ کام کر دیا جو کئی دانشوران کی ضخیم کتابیں نہیں کرسکیں۔ صرف اتنا ہی نہیں ہوا بلکہ انٹرنیٹ کے عہد میں جب ایمرجنسی صلاحیتوں کا بیجا استعمال کرکے ان پر پابندیاں عائد کی گئیں تو عام و خاص ہندوستانی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ آخر اس کو بند کرنے کی کوششیں کیوں ہو رہی ہیں؟ کیا سچ مچ کچھ ایسی کارستانیاں ہیں جن پر پردہ ڈالنے کی سعی ہورہی ہے؟ ہندوستان کا انصاف پسند اور بقاء باہم کے اصولوں پر صدیوں سے زندگی گزارنے والا انسان بھلا یہ کیسے گوارا کر سکتا تھا کہ دستور ہند کے ذریعہ ملی اس کی اس آزادی پر قدغن لگایا جائے جس کا وہ ہمیشہ سے عادی رہا ہے۔ نوبل انعام یافتہ عالمی دانشور امرتیہ سین نے اپنی کتاب The Argumentative Indian کے توسط سے ہمیں بتایا ہے کہ ہندوستانی قدیم زمانہ سے ہی فطری طور پر جمہوری واقع ہوئے ہیں اور ہر مسئلہ کو تفصیلی بحث و مباحثہ کے ذریعہ سمجھنے اور سمجھانے میں یقین رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہندوستانیوں کو یہ بات بھی متضاد معلوم ہوئی کہ ایسے وقت میں جب کہ ایک طرف یوم جمہوریہ کا جشن منایا جا رہا ہے جس میں بات کہنے اور سننے کی آزادی کو یقینی بنایا گیا ہے وہیں دوسری جانب دستاویز کو دیکھنے، سمجھنے اور اس پر بات چیت کے حق سے ہندوستان کے شہریوں کو محروم کیا جا رہا ہے۔ اس لیے اس کے خلاف ایک عوامی رجحان پیدا ہوا اور سب سے پہلے ان علمی مراکز میں اس دستاویز پر بحث شروع ہوئی جنہیں ہم یونیورسٹی کہتے ہیں۔ وہاں کے اسٹوڈنٹس نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ وہ نوجوانوں کا ایسا باشعور طبقہ ہیں جو انصاف پسند واقع ہوئے ہیں اور ملک کے مستقبل کو دستوری اصولوں کے مطابق چلانے کا پختہ عزم رکھتے ہیں۔ لہٰذا بڑے پیمانہ پر بی بی سی کی دستاویزی فلم دیکھی بھی گئی اور اقلیت کے حقوق کی پامالی کے تئیں جن خدشات کا اظہار کیا گیا ہے ان پر بحث بھی ہوئی۔ ایک مضبوط جمہوریت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ کسی بات پر پردہ نہ ڈالا جائے بلکہ کھلی فضا میں اس پر بحث کی جائے اور ماضی کی غلطیوں سے سبق لے کر ایک بہتر مستقبل کی بنیاد رکھی جائے تاکہ ملک ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی قدروں کا بھی محافظ بنا رہے۔ تقریباً یہی پیغام ’بھارت جوڑو‘ کی ملک گیر تحریک سے بھی دیا گیا ہے۔ راہل گاندھی کی یہ کوشش اس ملک کی سیاسی اور سماجی تاریخ میں ہمیشہ جلی حروف سے لکھی جائے گی کہ ایسے وقت میں جب کہ ہر طرف نفرت کا طوفان فسطائی طاقتوں کی حمایت میں اٹھا ہوا تھا، اس ماحول میں نہرو کی نسل میں ایک ایسا قائد پیدا ہوا جس نے مہاتما گاندھی کے اصولوں کے تئیں اسی قسم کا گہرا لگاؤ ثابت کیا جیسا گہرا لگاؤ خود جواہر لعل نہرو کو تھا۔ ’بھارت جوڑو‘تحریک نفرت کی ان گولیوں کے خلاف چلائی گئی تھی جن سے مہاتما گاندھی کا قتل ہوا تھا اور جن گولیوں کے مسموم دھوئیں سے آج بھی ہندوستان کی فضا متعفن ہے۔ یہ تحریک کنیا کماری سے شروع ہو کر کشمیر میں اس دن انجام کو پہنچی جس دن گاندھی جی کو گوڈسے نے قتل کیا تھا۔ یہ دراصل ملک کے باشندوں کے نام کھلا پیغام تھا کہ محبت و رواداری کی علامتیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں اور نفرت و خون کی سیاست کو کبھی دوام حاصل نہیں ہوتا۔ راہل گاندھی نے اسی لیے ہمیشہ اپنی تقریروں میں بھی کہا ہے کہ میڈیا چوبیس گھنٹہ چاہے ہندو مسلم منافرت پھیلاتا رہے لیکن انہیں ملک بھر میں کہیں بھی نفرت کا ماحول دیکھنے کو نہیں ملا۔ نفرتی گینگ نے فلم اور آرٹ کو بھی فرقہ واریت کی آگ میں جھونکنا چاہا تھا لیکن اس ملک کے عوام نے ’پٹھان‘ فلم کو کامیاب بناکر بھی یہی پیغام دیا ہے کہ ہمیں گھٹن کی وہ فضا قبول نہیں جو فسطائی نظریہ کی وجہ سے اس ملک میں پروان چڑھ رہی ہے۔ یہ سارے واقعات بتاتے ہیں کہ اڈانی کے ذریعہ بنائے گئے ترقی کے کمزور ماڈل کی طرح فسطائیت کے نظریہ پر مبنی نفرت، فرقہ واریت اور سماجی تقسیم کی سیاست بھی ایک دن دھڑام سے زمین پر آ گرے گی اور ہندوستان اپنی پوری قوت کے ساتھ تمام ہندوستانیوں کو ساتھ لے کر ترقی و انسانیت نوازی کی علامت بن کر اپنا وہ سفر جاری رکھے گا جس کا آغاز گاندھی جی نے کیا تھا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

 

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS