مہاراشٹر ہندوستان کی معیشت کی ریڈھ کی ہڈی کہی جاسکتی ہے۔ اس ریاست کے سیاسی حالات کافی حد تک ملک کی معیشت کے ساتھ ساتھ مجموعی منظرنامہ کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ مہاراشٹر گزشتہ دوتین سالوں میں سیاسی مباحثے میں اولین سطح پر رہا ہے۔ بی جے پی نے اپنی سب سے پرانی نظریاتی حلیف پارٹی شیوسینا کو دوحصوںمیں تقسیم کرکے اپنی حکومت بنانے کا جو تجربہ کیا تھا اس سے اس کو اسمبلی کے آئندہ انتخابات اور 2024کے لوک سبھا انتخابات میں کتنا فائدہ پہنچائے گا اس پر غور وخوض ہورہا ہے۔ مہاراشٹر میں روایتی نظریات کی سیاست ختم ہوگئی ہے ۔ وقتی مفاہمت اور سمجھوتوں نے نظریاتی حدود اورپابندیوںکو مسمارکردیا ہے۔ ورنہ شیوسینا جیسی سخت گیر عناصراور بال ٹھاکرے کی بنائی ہوئی پارٹی کا ہندوتوادی بی جے پی سے نہ صرف علاحدہ ہونا بلکہ مہاراشٹرکی سڑکوںپر ان ونوںپارٹیوں کے آپسی سرپھٹول نے ہندوستان کی سیاست میں ایک نئے آہنگ متعارف کرایا ہے۔ اودھو ٹھاکرے کی قیادت والی شیوسینا نے بی جے پی کے ساتھ نہ جانے کی قسم کھارکھی ہے اور ان تمام سیاسی پارٹیوں کو نہ صرف اپنا حلیف بنا لیا ہے جو اس کی کلیدی حریف تھیں بلکہ عوامی مظاہروں اور اجتماعات میں شیروشکرکی طرح شریک ہونا مبصرین کا منہ بند کرنے والا سمجھوتہ ہے۔ مہاراشٹرکی سیاست میںذات پات اورمذہب کافی اہمیت کے حامل ہیں مگر 2019کے تجربے کے بعد جب مہاراشٹرمیں ایک نئی سیاسی مفاہمت بن کر سامنے آئی ہے تو اب یہ لگ رہا ہے کہ اس میں سیاسی پوزیشن میں تبدیلی کے امکانات نہیں ہیں۔ 2014کے بعد ہندوستان کی سیاست میں گورنروں نے کھل کر بی جے پی کی اپوزیشن والی پارٹیوںکے لئے چیلنج پیدا کیا ہے۔ اس میں سب سے اہم مہاراشٹر کی سیاسی صورت حال ہے جہاں موجودہ گورنر بی ایس کوشیاری سیاسی تصادم کا شکارہوگئے ہیں۔ اگرچہ وہ غیردانستہ طورپر شکار نہیں ہوئے ہیں اورانہوں نے مرکزی سرکار کے ایجنٹ کے طورپر اور بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے آلہ کار کے طورپر کام کرکے نہ صرف یہ کہ اپنی اہمیت کم کرائی ہے بلکہ گورنر کے وقارکو بھی ٹھیس پہنچائی ہے۔
خیال رہے کہ گورنرکوشیاری نے مہاراشٹر اور ملک کی عظیم تاریخی شخص شیواجی کے بارے میں قابل اعتراض جملے ادا کئے تھے اوران کو عہد رفتہ کی شخصیت قرار دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ مہاراشٹر کے گورنر کے ذریعہ اس طرح کے الفاظ قرار دینا نہ صرف ان کے لئے نقصان دہ تھا بلکہ بی جے پی کے سیاسی امکانات کومعدوم کرنے والا تھا۔ کوشیاری کے اس بیان پر مہاراشٹر میں زبردست سیاسی طوفان برپا ہوا۔
مہاراشٹر میں اسمبلی الیکشن زیادہ دورنہیں ہیں۔ بی جے پی کے لیڈر دیوندر فڑنویس نے مہاراشٹر میں حکومت بنانے کے لئے شیوسینا سے ٹوٹ کر آنے والے ایکناتھ شنڈے کے ساتھ حکومت بنائی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فڑنویس نائب وزیراعلیٰ کے طورپر کام کرنے کے لئے راضی ہوگئے ہیں۔ سیاست میں یہ شہ و مات کا کھیل کیوںکھیلا گیا اس کی وجہ اب سمجھ میں آنے لگی ہے۔ ایکناتھ شنڈے اگرچہ وزیراعلیٰ بننے میں کامیاب ہوگئے ہیں مگر زمینی حالات ایسے نہیں ہیں کہ کوئی بھی یہ کہہ سکے کہ ایکناتھ شنڈے شیوسینا کے سربراہ اودھوٹھاکرے کا کسی بھی طریقے سے مقابلہ کرسکیںگے۔ ممبران اسمبلی کی اگرچہ ان کوحمایت حاصل ہے مگر آئندہ اسمبلی انتخابات میں عوام شیوسینا سے منحرف ہونے والے ممبران اسمبلی کو دوبارہ اسمبلی میں بھیج پائیںگے یا نہیں اس کے بارے میں یقین کے ساتھ کہنا ممکن نہیں ہے۔ یہی خوف ہے کہ ایکناتھ شنڈے کو بے چین کئے ہوئے ہے۔ ایکناتھ شنڈے اپنی اوقات کے مطابق بار بار یہ باورکرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ شیوسینا ممبران اسمبلی کی بڑی تعداد کی حمایت کے ساتھ وہ شیوسینا کے بابا صاحب ٹھاکرے کے وارث ہیں۔ مگر یہ بات حلق سے اترنے والی نہیں ہے کہ وہ ایسے لیڈر ہیں جنہوںنے بابا صاحب ٹھاکرے کے وارث اودھوٹھاکرے کو دغا دے کر اقتدارکے لئے بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملایا۔
اس وقت پورے ہندوستان میں یہ شورہے کہ وزیراعظم نریندرمودی عام انتخابات کے لئے کمرکس چکے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی ان کو لگاتار تیسری مرتبہ وزیراعظم کے طورپر پیش کرنا چاہ رہی ہے۔ خیال رہے کہ مہاراشٹر میں لوک سبھا کی 48سیٹیں ہیں۔ بی جے پی اور ایکناتھ شنڈے کی مخالفت والا محاذ کانگریس، این سی پی اور شیوسینا پر مشتمل ہے۔ یہ تینوںپارٹیاں اپنی جگہ کیڈربیس پارٹیاں ہیں۔ حکومت بنانے کے اپنے فائدے ہیں خاص طورپر مہاراشٹر جیسی صنعتی اور تجارتی ریاست میں اگر کوئی حکومت معرض وجودمیں آتی ہے تو اس کا فائدہ ملک گیر سطح پر اورپارٹی کی اپنی معیشت کے لئے سودمند ثابت ہوسکتا ہے مگر مہاراشٹر وکاس اگھاڑی کا اقتدار سے بے دخل ہونا وہ بے دخل ہونا نہیں ہے جو اس کو چوطرفہ نقصان پہنچانے والا ہو۔ ایم ڈبلیو اے حکومت کے اقتدار سے بے دخل ہونے کا نقصان موجودہ حکومت کی معتبریت کو بھی جھیلنا پڑے گا اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔ مہاراشٹر وکاس اگھاڑی کی پارٹیوں کو اس وقت زبردست حمایت ملنے کا امکان پیدا ہوا جب دلتوںکی پارٹی اور بھیم رائو امبیڈکر کے وارث پرکاش امبیڈکر نے شیوسینا کے ساتھ مفاہمت کا ارادہ ظاہرکیا ہے۔ ظاہر ہے مہاراشٹر جیسی ریاست میں پرکاش امبیڈکر جیسے دوراندیش دلت لیڈر کا کسی گروپ یا اتحادکو حمایت دینا دیگر حریفوںکی نیند خراب کرنے کے لئے کافی ہے۔ مہاراشٹر میں این سی پی کے سربراہ شردپوار جیسی دوراندیش شخصیت کا ہونا فڑنویس جیسے دوراندیش اور نوجوان لیڈروںکے لئے چیلنجز سے بھرا ہوا ہوسکتا ہے۔ ایک طبقے کی تویہ رائے ہے کہ این سی پی کے لیڈر شرد پوار نے پرکاش امبیڈکرکی پارٹی کے ساتھ معاہدہ کرانے میں شیوسینا کے ساتھ کافی تعاون کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ سمجھوتوں اورمعاہدوں کی سیاست میں مہاراشٹر کا موجودہ حکمراں اتحاد کہیں نہ کہیں الگ تھلگ پڑ گیا ہے۔ دوسری طرف مبصرین کا کہنا ہے کہ مہاراشٹر میں بی جے پی چاہتی ہے کہ ایکناتھ شنڈے کی پارٹی ان کے ساتھ ضم ہوجائے۔ مگر ایکناتھ شنڈے اس میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔ ان دونوںمعاملات میں فڑنویس اور ایکناتھ شنڈے کی آپس کی کھینچ تان اور مفادات کا ٹکرائو بھی کافی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ کئی ایسے امور سامنے آنے لگے ہیں کہ ایکناتھ شنڈے اور فڑنویس پولیس اہلکاروںکی تقرریوں اور ٹرانسفر میں بھی ایک دوسرے پر بازی مارنے کے چکر میں ہیں۔ دونوں لیڈروں میں سرکاری ملازمین کی پنشن اسکیم کولے کر بھی کافی اختلافات ہیں۔ فڑنویس چاہتے ہیں کہ اس اعلان کے ذریعہ وہ سرکار ی ملازمین کے ووٹ بینکوںکی حمایت حاصل کرلیں۔ پچھلے دنوں فوکسکون ویدانتا معاملہ کو لے کر بھی بی جے پی اور ایکناتھ شنڈے کی پارٹی کے درمیان اختلافات کی خبریں گشت کر رہی تھیں۔ یہ سمجھوتہ مہاراشٹر کے بجائے گجرات کوچلا گیا جس کی وجہ سے ایکناتھ شنڈے کی پوزیشن مہاراشٹر میں خراب ہوئی اوریہ تاثر دیا گیا کہ ایکناتھ شنڈے ایک اہم پروجیکٹ کو مہاراشٹر میں لانے میں ناکام رہے۔ ایک بار پھر مراٹھی مانس پردعویداری ایکناتھ شنڈے کے ہاتھ سے گئی جو اپنے آپ کو بالا صاحب ٹھاکرے کا وارث ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام چیزیں ایکناتھ شنڈے کو فکرمیں ڈالنے والی ہیں۔ آئندہ انتخابات کس کروٹ بیٹھے گا یہ تووقت ہی بتائے گا۔٭٭