مغربی ایشیا میں قتل و غارت گری اورہنگامہ آرائی سے دور براعظم افریقہ کے ایک دلچسپ اور غیور لوگوں کے ملک برکینافاسو میں حالات اس قدر دلچسپ رنگ رہے ہیں جس سے یہ لگ رہا ہے کہ براعظم جوکہ ایک طویل عرصہ سے مغربی اقوام اورممالک کی بربریت کا شکاررہا ہے اب وہاں کے لوگ ان ممالک کے استحصالی نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہورہے ہیں۔ افریقہ جوکہ انقلابات، سیاسی الٹ پھیر اور جنگ وجدال کے لئے بدنام ہے اب سامراجی ملکوں کی منمانی کے خلاف کافی حد تک بیدار ہوگیا ہے۔ اس کا مظاہرہ وسطی افریقہ کے کئی ممالک مثلاً مالے اور اب برکینافاسو میں صاف دکھائی دے رہا ہے۔ برکینافاسو میں تقریباً 2سال قبل ایک فوجی تاناشاہ لیفٹیننٹ کرنل ڈامیبا نے منتخب حکومت کو برطرف کرکے اپنی حکومت قائم کرلی تھی۔ مگر چند ماہ بعد ہی اس تاناشاہ جس کو فرانس کی کھلم کھلا مدد حاصل تھی اقتدار سے بے دخل کردیا گیا۔ اس ڈکٹیٹر کو بے دخل کرنے والا فوجی سربراہ ابراہیم توراوڑے تھا۔ فرانس افریقہ کے معاملات میں اس قدر مداخلت کر رہا ہے کہ اس نے اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد معزول تاناشاہ کو اپنی سفارت خانے میں پناہ دی تھی۔ افریقہ کے کئی ملک فرانس اور دیگر یوروپی اورامریکہ کے استبدادی نظام سے اس قدر پریشان ہیں کہ وہاںکی فوجی حکومتیں اب سامراجی طاقتوں کے خلاف بغاوت کرنے سے بھی چوکتی نہیں ہیں۔ برکینافاسو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ خوددار اور عیور عوام کی سرزمین ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ برکینا فاسو کا مطلب بھی غیورعوام کے ہیں۔چند روز قبل فرانس کے وزیرخارجہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ برکینافاسو سے اپنے سفیر کو طلب کر رہے ہیں تاکہ اس سے مذاکرات کرکے برکینافاسو میں طویل مدت سے خیمہ زن فرانسیسی فوج کے قیام کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا جاسکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فرانس کی فوجی حکومت نے جنوری کے اوائل میں فرانس سے کہا تھا کہ وہ ان کے ملک سے اپنا سفیر واپس بلالے۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی افریقی ملک کا یہ کہنا اپنے آپ میں بہت بڑی بات ہے۔ کسی معمولی طاقت اور کمزور قوت ارادی کے فوجی حکمرانوں کے بس کی یہ بات نہیں کہ وہ فرانس جیسی طاقت کو اس طرح اپنا سفیر واپس لینے کی صلاح دے دے۔ ظاہر ہے کہ برکینافاسو کا یہ قدم فرانس سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ برکینافاسو کے نوعمر فوجی حکمراں ابراہیم توراوڑے (Ibrahim Traore)نے کھل کر فرانس سے کہہ دیا تھا کہ وہ ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے کیونکہ فرانسیسی حکومت معزول کئے گئے صدر اور سابق فوجی حکمراں کی حمایت کر رہا تھا۔ فرانس میں 2018سے اسپیشل فورسز تعینات ہیں۔ یہ فوجیں ساحل خطے میں دہشت گرد اور مسلم بنیادپرست لیڈروں کے خلاف مہم چلانے کے لئے تعینات کی گئی تھیں۔ فرانسیسی افواج پڑوسی ملک مالے میں تعینات تھیں۔ مالے میں تین ہزار اسپیشل فورسیز کے اہلکار تعینات تھے۔ اس کے علاوہ اسی خطے کے دیگرممالک چاڈ اور نائجر میں بھی فرانسیسی فوج موجود ہے۔ گزشتہ ایک سال میں کسی بھی افریقی ملک سے فرانسیسی فوج کے انخلا کا یہ دوسرا معاملہ ہے۔
اقوام متحدہ کی حمایت اور معربی و یوروپی ممالک کی تعاون اورتال میل کے ساتھ فرانس کی بڑی افواج ان علاقوںمیں اپنے مفادات کی نگرانی کر رہی ہیں۔ مالے سے بھی فرانس کی فوج کو منہ چھپاکر بھاگنا پڑا۔ فرانس نے برکینافاسو کے معزول حکمراںکے ساتھ 2018میں ایک سمجھوتہ کرکے خطے میں اپنی فوجی موجودگی کو یقینی بنایا تھا۔ مگر برکینافاسو نے اس معاہدے کو ختم کرکے فرانسیسی افواج سے نجات حاصل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ افریقہ کے امورپر گہری نظر رکھنے والے ماہرین اور سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس صورت حال کے پس پشت کوئی اور طاقت بلکہ روسی حمایت ہے۔ روس ان ممالک میں متبادل فوجی طاقتیں فراہم کرکے نہ صرف یہ کہ ان علاقوں میں مذہبی دہشت پسندوں کا قلعہ قمع کرنے میں تعاون کر رہا ہے بلکہ براعظم افریقہ میں مغربی ممالک کی اجارہ داری اور بالادستی کو بھی چیلنج دے رہا ہے۔ افریقی ممالک کے فوجی اور سیاسی حکام کا کہنا ہے کہ فرانس اور دیگر مغربی ممالک دہشت گردی کے نام پر ان کے علاقوں میں تعینات ہیں اور اپنی منمانی کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کو بہانہ بناکر اس خطے کے زیادہ تر ممالک پر اپنا کنٹرول چاہتے ہیں۔ روس کی طرف سے تعاون ملنے کے بعد حالات بدل رہے ہیں۔ پچھلے دنوں یہ بھی دیکھا گیا کہ ایتھوپیا کے کئی علاقوں میں مغربی افواج اور ان ممالک کے اثرات کو کافی حد تک کم کیا جاسکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایتھوپیا نے بھی ان ممالک پر بھروسہ کرنا ختم کردیا ہے۔ ایتھوپیا نے بڑی دوراندیشی کے ساتھ تگرے علاقے میں باغیوں کو کچلا اور فوجی طورپر انہیں کمزورکرنے کے بعد اب وہاں کے عام لوگوں کو راحت پہنچانے کے لئے کام کر رہا ہے۔ افریقی ممالک کی تنظیم نے تگرے میں افہام وتفہیم کا ماحول پیدا کرنے کے لئے ایتھوپیا سمیت دیگر ساحل خطے کے ممالک کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ افریقی ممالک کے کئی حلقوں میں مسلسل یہ بات محسوس کی جارہی ہے کہ خانہ جنگی قبائلی رقابتوں، لسانی کشمکش کا فائدہ اٹھاکر مغربی ممالک ان غریب ممالک کی معدنی اور انسانی وسائل کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ لیبیا کے سابق مرحوم حکمراں معمرقذافی نے بہت پہلے اہل افریقہ کو اس بات کے لئے تیار کیا تھا کہ وہ آپسی مسائل تصادم اور خانہ جنگی کوختم کرنے کے لئے خطے کے باہر کے ممالک پر بھروسہ کرنے کی بجائے آپس میں سفارت اور تال میل کرکے اپنے اپنے علاقوں میں امن وامان قائم کریں اور مغربی ممالک کو اپنے ملک میں داخل نہ ہونے دیں اور ضرورت پڑے تو افریقی یونین کی امن فوج کی برکینافاسو شاید اب ان کی بات سمجھ رہا ہے۔ ساحل خطے کے دیگرممالک جن کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے، مغربی ممالک کی شرپسندانہ اور خود غرضانہ پالیسیوںکو سمجھنے لگے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں برکینافاسوکی قیادت کس طریقے سے فرانسیسی فوج کے انخلاکے بعداپنے ملک میں امن قائم کرپائے گی۔ کیونکہ فرانس کو نظرانداز کرنا خاص طور سے ساحل خطے میں مشکل کام ہے کیونکہ افریقہ کے 15ممالک جس کو مغربی افریقہ کا بلاک کہتے ہیں اور یہ بلاک فرانس کے اقتصادی، سیاسی اور سفارتی جال میں اس قدر بری طرح پھنسا ہوا ہے کہ ان کا نکلنا آسان نہیں ہے۔ فرانس نے ای سی او ڈبلیو اے ایس نام کی ایک تنظیم بناکر پورے خطے کی معیشت کو اپنی مٹھی میں لے رکھا ہے وہ ان 15ممالک میں سے کئی ممالک پر زور ڈال کر فرانس سے منہ موڑنے والے ممالک پر دبائو ڈالتے ہیں کہ وہ مذکورہ بالا 15ممالک کی پالیسیوں سے کنارہ نہ کریں۔یہ پالیسیاں فرانس کی وضع کردہ ہیں اور اس کے خودکی مفادات کو ان پالیسیوں میں سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔
بہرحال برکینافاسو جیسے چھوٹے ،غریب اور چاروں طرف زمین سے گھرے ہوئے ملک کے لئے پڑوسی ممالک کے ساتھ عدم تعاون کی صورت میں ترقی کرنا مشکل کام ہے۔ نئے فوجی حکمراں اس خطے میں اپنے ملک کے عوام کے ساتھ اس حد تک انصاف کرپائیںگے یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔٭٭٭