پروفیسر عتیق احمد فاروقی: غیر ملکی تعلیمی اداروں کو مراعات کیوں؟

0

پروفیسرعتیق احمدفاروقی
مرکزی حکومت نے بیرونی ممالک کی یونیورسٹیوں کے کیمپس کھلنے کی اجازت تو دے دی ہے لیکن حکومت کے اس قدم نے سبھی خیموں میں کھلبلی مچادی ہے۔ عموماً بائیں بازوکی جماعتیں اس طرح کے اقدامات کی مخالفت کرتی رہی ہیں لیکن اس بار ’سودیشی جاگرن منچ ‘ اور’آتم نربھر بھارت‘کے حمایتی بھی پریشان نظرآرہے ہیں۔بیرونی یونیورسٹیوں کو اجازت دینے کی چرچاگزشتہ بیس سالوں سے ہوتی آرہی ہے۔ منموہن سنگھ حکومت میں بھی اس سے متعلق بل پیش ہوتے رہے لیکن پاس نہیں ہوپائے۔ بی جے پی حزب مخالف کی حیثیت سے اس کی مخالفت میں تھی لیکن اب اسی کی حکومت مزید سہولتوں اوررعایتوںکے ساتھ بیرونی یونیورسٹیوں کے کیمپس کھولنے کی اجازت دے رہی ہے۔ اس میں سب سے بڑی رعایت یہی ہے کہ یہ یونیورسٹیاں منافع کو اپنے وطن بھیج سکتی ہیں۔ علاوہ ازیں داخلہ ،فیس،نصاب اوراساتذہ کی تقرری جیسے سبھی شعبوں میں بھی انہیں پوری خود مختاری دی جائے گی۔
ان حالات میں یہ سوال فطری ہے کہ بیرونی ممالک کیلئے یکایک اتنی رعایتیں کیوں دی جارہی ہیں ؟موجودہ حکومت تعلیم کے کئی پہلوؤں کے تئیں سنجیدہ اورسرگرم رہی ہے ۔ پانچ سال قبل دہلی یونیورسٹی سمیت اُس کے کالجوں کو خود مختاری دینے کی چرچا زوروں پر تھی۔ اُس کا بھی یہی مقصدتھا کہ ہماری یونیورسٹیوں میں نصا ب کی پابندی دور ہو اوروہ عالمی علم کو آسان اورتیزرفتاری سے اپنے اندر گھول کر پلاتے ہوئے ایسی نسل تیار کریں جو ترقی یافتہ ممالک کو ٹکر دے سکے۔ یونیورسٹی کا ہی ایک بڑا طبقہ اُس کی مخالفت میں کھڑا ہوچکاہے ، مخالفین کے طرح طرح کے الزام ہیں: جیسے ریزرویشن کا فائدہ نہیں ملے گا ، اس سے اساتذہ کی تقرری پر اثر پڑے گا، فیس بڑھائی جائے گی وغیرہ۔ مجبوراً حکومت نے قدم پیچھے کھینچ لئے حالانکہ اس طبقہ نے انہیں دنوں شروع ہوئی کچھ نجی یونیورسٹیوں کی فیس اورخودمختاری پر کبھی انگلی نہیں اٹھائی ۔ حکومت نے ایک اورپہل کی تھی۔ اس نے انسٹی ٹیوٹ آف ایکسیلنس کھولا۔ اس کے تحت ایسی یونیورسٹیاں کھولی جانی تھیں جو دنیا کے پانچ سو سب سے باوقار تعلیمی اداروں میں شامل کئے جاسکیں۔ اس میں کچھ آئی آئی ٹی اورآئی آئی ایم جیسے ادارے بھی منتخب کئے گئے لیکن چار سال گزرجانے کے بعد اس محاذ پر کوئی قابل اطمینان پیش رفت سامنے نہیں آئی۔
بیرونی یونیورسٹیوں کے مجوزہ ملکی کیمپسوں کو لیکر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اگروہ تعلیم سے ہوئے منافع کو اپنے ملک بھیجیں گے تو عدالت عظمیٰ کے اس نظریے کا کیاہوگا جس میں وہ تعلیم کو کوئی پیشہ نہیں مانتی۔ ایک سوال یہ بھی کھڑا ہوتاہے کہ کیااس سے ملک کے ادارے مضبوط ہوں گے؟کیا بناکسی کنٹرول کے فیس کی آزادی غریبوں کے مفاد میں ہوگی؟امیر لوگ تو ضرب تقسیم کررہے ہیں کہ بیرونی ممالک میں بھیجنے پر اگرایک کروڑ خرچ ہوتاہے تو اُن کا یہاں اس کے آدھے میں کام ہوجائے گا۔ نصاب پر بھی شک کا اظہار کیاجارہاہے۔بلاشبہ ہمیں علم کی کھڑکیاں کھلی رکھنی چاہئیں لیکن جس ملک میں امبیڈکر اورگاندھی کے کارٹونوں کے تنازعہ پر پارلیمان ٹھپ رہی ہو، پریم چند کی کہانی کے ایک لفظ پر لوگ سڑکوں پر اترآئے ہوں، وہاں بیرونی یونیورسٹیوں کیلئے ہرطرح کی آزادی کیلئے کیسے گنجائش بنے گی؟ کیا ملک میں تعلیم کے الگ الگ گوشے بنیں گے ؟ اورہندوستانی زبانوں اورتعلیم کو ہندوستانی رنگ دینے کاکام کیسے ہوگا؟ یہ بھی سبھی جانتے ہیں کہ پرنسٹن ،ییل ،اسٹنسفورڈ اورآکسفورڈ جیسی عالمی شہرت یافتہ یونیورسٹیاں اپنے ملک کے علاوہ باہر شاید ہی کوئی کیمپس کھولتے ہوںاوراس لئے سیکڑوں سالوں سے وہ عظمت کی بلندیوں پر بنے ہوئے ہیں۔ اپنی خود مختاری کے ساتھ وہ تعلیم میں نئے نئے مشاہدات اورتجربات کو اورآگے بڑھارہے ہیں۔ ہمارے یہاں جو یونیورسٹیاں آنے کی کوشش کررہی ہیں وہ دوسرے یا تیسرے درجہ سے بھی نیچے والی ہیں ۔ان کی نظر دنیا کے دوسرے سب سے بڑے تعلیم کے بازار پر ٹکی ہوئی ہے ۔ یونیسکو کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ہندوستان طلباء کو برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے ۔ ہرسال پانچ لاکھ بچوں کا باہر پڑھنے کیلئے جانا کیا خودکفیل ہندوستان اور سودیشی بھارت کے کھوکھلے پن کو نہیں دکھاتاہے؟ ۔
دراصل عالمگیریت سے توہمیں یہی سبق ملتاہے کہ جب عالمی شہرت یافتہ یونیورسٹیوں کے نصاب کے مواد آسانی سے دستیاب ہیں تو ان سے سیکھتے ہوئے ہم اپنی یونیورسٹیوں کو ہی کیوں نہیں بہتر بناسکتے ہیں ؟ ہم انہیں تھوڑی خود مختاری کیوں نہیں دے سکتے؟تعلیم میں اصلاح کے خواہش مند ، نیک خواہشات رکھنے والے مہم جو کی اس میں خدمات کیلئے موافق ماحول کیوں نہیں بنایاجاتا؟ تعلیم میں لال قالین صرف غیرملکیوں کیلئے ہی کیوں؟اگرحکومت خودمختاری اوربے حساب سہولتیں بیرونی یونیورسٹیوں کو دینا چاہتی ہے تو اس سے پہلے اسے اپنے ملک کے اداروں کو بھی یہی دینی ہوگی۔ بہترہوتاکہ ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو اتنا اہل بنادیاجائے کہ وہ ملک کے مختلف حصوں میں اپنی توسیع کرسکے۔ ایک حساس جمہوری حکومت سے ایسی توقع سبھی کرتے ہیں۔ سوچیں، مجاہدین آزادی کی روح پر کیاگزرے گی،جو ہندوستانی دولت کو بیرون ملک جاتادیکھ کر دکھی ہوتے تھے۔ اس لئے حکومت کی نیت بھلے ہی کتنی نیک کیوں نہ ہو اسے اس ایشو کو گہرائی سے ہی سمجھ کر کوئی قدم اٹھانا چاہیے۔ ریاستوں کی یونیورسٹیوں کو بھی سخت قوانین کے ذریعے اوربہتر بناناہوگاجس سے طلباء کو صرف تعلیم کیلئے ہی بڑے شہروں کا رخ نہ کرنا پڑے۔ لامرکزیت کی بات تو آزادی کے بعد سے ہی ہورہی ہے ۔ امرت مہوتسو میں اسے پھرسے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS