عبیداللّٰہ ناصر
قدرت اپنی طاقت کسی نہ کسی شکل میں دکھاتی ہی رہتی ہے نمرود کا خاتمہ ایک مچھر سے کرانے سے لے کر آج اڈانی کو عرش سے فرش پر لانے تک کا واقعہ قدرت کی طاقت کا احساس نہیں تو اور کیا ہے۔وہ اڈانی جو ملک کا سب سے بڑا اور دنیا کا تیسرا سب سے امیر شخص تھا، جس کے قدموں میں ہندوستان کے تقریباً تمام وسائل تھے جس کے تجارتی مفاد کی حفاظت ملک کی سب سے طاقت ور شخصیت کرتی تھی جس کے تجارتی مفاد پر عوام کے خون پسینہ کی کمائی سے کھڑی کی گئی عوامی زمرہ کی کمپنیوں(پی ایس یو) کے مفاد قربان کر دیے جاتے ہیں اور ان میں کام کر رہے لاکھوں ملازمین کو سڑک پر کھڑا کر دیا جاتا تھا، اس کو ایک امریکی ڈرائیور کے جواں سال بیٹے نے چشم زدن میں زمین پر لا کر پٹخ دیا اور دنیا کے تیسرے سب سے امیر شخص کو ساتویں نمبر پر لا کر کھڑا کر دیا۔نیٹ انڈرسن نامی اس نوجوان کی ہنڈن برگ ریسرچ جو دنیا بھر میں سرمایہ کاری کے معاملات کی جانچ پڑتال کرتی ہے، اس نے اپنی ر پورٹ میں اڈانی کی کمپنیوں کے غلط کاموں کا کچا چٹھا سامنے رکھ دیا تو شیئربازار میں تہلکہ مچ گیا، ان کی کمپنیوں کے شیئرز کی قیمت جو آسمان چھو رہی تھی دھڑام سے زمین پر آگئی اور محض دو دنوں میں ان کو تقریباً چار لاکھ کروڑ روپے کا گھاٹا اٹھانا پڑا۔ لیکن حقیقی معنوں میں یہ گھاٹا ان کا نہیں، ان لاکھوں کروڑوں عوام کا ہے جنہوں نے اپنی گاڑھے پسینہ کی کمائی سے ان کے شیئر خریدے تھے۔ لائف انشورنس کارپوریشن اور اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے کھربوں روپے ڈوبے کیونکہ ان عوامی زمرہ کے اداروں نے ان کی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی تھی۔اب بینک کہہ رہا ہے کہ وہ مستقبل میں بہت سوچ سمجھ کے قرض دے گا۔ سوال یہ ہے کہ ابھی جو قرض دیا گیا تھا، وہ بنا سوچے سمجھے کیوں دیا گیا۔ یہ نہ بینک کے افسروں کا پیسہ تھا اور نہ ہی حکمرانوں کا، یہ ہمارا آپ کا پیسہ تھا جو بینک میں بطور امانت رکھا گیا تھا۔ بینک نے اس امانت میں خیانت کس کے اشارہ پر کی ؟
لائف انشورنس کارپوریشن ہو یا بینک یا کوئی اور ادارہ جو عوام کے پیسوں کا امین ہوتا ہے، اسے یہ حق کس نے دیا کہ وہ عوام کا پیسہ اس اناپ شناپ طریقہ سے برباد کرائے۔ ان اداروں میں لگایا گیا یا جمع کیا گیا پیسہ حکومت کے اعتبار پر ہی عوام لگاتے یا جمع کرتے ہیں اور جب حکومت ہی عوام کے پیسوں کو بے دردی سے خرچ کرے اور غیر ذمہ دارانہ طریقہ سے قرض دے یا سرمایہ کاری کروائے تو عوام مجبور تماشائی سے زیادہ کچھ نہیں رہ جاتے۔ ان کے ہاتھ میں ووٹ کی طاقت ہوتی ہے جس سے وہ حکومت کو ان غیر ذمہ دارانہ حرکتوں کی سزا دے سکتے ہیں لیکن کمال ہوشیاری سے انہیں مذہب کی افیم اور مسلمانوں سے نفرت کا ایسا نشہ پلا دیا گیا ہے کہ وہ اپنی بربادی پر بھی خوش ہوتے ہیں اور جھولی بھر بھر کر ووٹ اسے دے دیتے ہیں جس نے انہیں تباہ کر دیا۔ طبی زبان میں اس مرض کو اسٹاک ہوم سنڈروم کہا جاتا ہے۔ جب عوام کی بھکتی میں نوٹ بندی سے معیشت کی تباہی، جی ایس ٹی سے چھوٹے کاروباریوں کی تباہی، کورونا میں اپنے لاکھوں عزیزوں کی موت جیسے تباہ کن فیصلوں پر ناراضگی نہیں ہوئی تو اڈانی گروپ کی اس تباہی اور اپنے کھربوں روپے ڈوب جانے پر بھی کوئی منفی رد عمل نہیں ہوگا، اس لیے حکومت بے فکر ہے، یوگی جی ہندوراشٹر کا جھنجھنا پکڑا رہے ہیں اور مغل گارڈن کو امر ت ادیان کر کے عوام کو مطمئن کر دیا گیا ہے۔لیکن جو ہوا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔جو بھکت ہیں ان کی اپنی سوچ ہے، اسے تو خود بھگوان رام بھی شاید نہیں بدل سکتے۔
اسٹاک مارکیٹ میں ہنڈن برگ کی رپورٹ کے بعد جو تباہی آئی ہے، اس میں لائف انشورنس کارپوریشن کے اڈانی کی کمپنیوں میں لگائے گئے23ہزار کروڑ روپے ڈوب گئے۔ واضح رہے کہ2020تک اڈانی کی کمپنیوں میں اس کارپوریشن کی سرمایہ کاری تقریباً سات ہزار کروڑ روپے تھی لیکن2023آتے آتے یہ سرمایہ کاری تقریباً دس گنا بڑھا دی گئی او ر اس سال جنوری کے آخری ہفتہ تک یہ سرمایہ کاری بڑھ کر تقریباً اکیاسی ہزار کروڑ روپے ہو گئی تھی۔ اس کا ذمہ دار کون ہے، اس تباہی کے لیے کس سے جواب طلب کیا جائے؟ پارلیمنٹ اس جواب طلبی کا پلیٹ فارم ہے مگر اس کی حالت کیا ہے، یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔بینکوں کی بھی یہی حالت ہے۔ اڈانی کی پانچ بڑی کمپنیوں پر تقریباً 20کھرب روپے کا قرض ہے جس میں سب سے بڑا یعنی تقریباً 40فیصد قرض سرکاری بینکوں سے لیا گیا ہے، ان میں بھی اسٹیٹ بینک آف انڈیا سر فہرست ہے۔اب یہ بینک کہہ رہا ہے کہ وہ آئندہ سوچ سمجھ کر قرض دے گا،ابھی تک کیا بغیر سوچے سمجھے پیسہ لٹا رہے تھے؟
سوال یہ ہے کہ اڈانی کا جرم کیا ہرشد مہتہ اور تیلگی سے کم ہے؟ وہ دونوں لمبے عرصہ تک جیل میں سڑے تھے، اڈانی سے ابھی تک جواب بھی نہیں طلب کیا گیا، الٹے اس بات کا قوی امکان ہے کہ حکومت اڈانی کو ابھارنے اور ان کے نقصان کی بھرپائی کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گی جس میں نئے ٹیکس، قیمتوں میں اضافہ اور ان کی کمپنی کو مزید ٹھیکے دینا اور ان کے ہاتھوں مزید اثاثوں کی فروخت وغیرہ شامل ہے۔سوچئے اگر ہنڈن برگ ہندوستانی کمپنی ہوتی اور انڈرسن ہندوستان میں ہوتا تو اس کی کیا دوردشا کی گئی ہوتی۔ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ، انکم ٹیکس، سی بی آئی، ریاستی پولیس، ہندوستانی میڈیا اسے کتوں کی طرح بھنبھوڑ رہے ہوتے اور وہ راشٹر دروہی قرار دے کر جیل میں سڑا دیا جاتا۔ اڈانی گروپ کی جانب سے اس کو قانونی کارروائی کی آگاہی دی گئی تو اس نے کھلے عام چیلنج کیا ہے کہ اس پر امریکی عدالت میں مقدمہ چلا یا جائے چونکہ کمپنی امریکی ہے اس لیے صرف امریکی عدالتوں میں ہی اس پر مقدمہ چل سکتا ہے۔ ہنڈن برگ نے کہا ہے کہ اس نے جو88سوالات اٹھائے ہیں، اڈانی گروپ کی جانب سے ان میں سے ایک کا بھی جواب نہیں دیا گیا ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ کچھ ہندوستانی اخباروں کی چاندی ہوگئی ہے اور انہیں پورے پورے صفحہ کے اشتہارات مل رہے ہیں اور چینلوں میں اس پر کوئی مباحثہ نہیں دکھایا جا رہا ہے، یہی اگر کانگریس کے دور حکومت میں ہوا ہوتا تو یہ چینل آسمان سر پر اٹھا لیتے۔
شیئر مارکیٹ کے ماہرین کا خیال ہے کہ ہنڈن برگ نے اڈانی گروپ پر جو الزامات لگائے ہیں، اگر وہ درست ہیں تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس گروپ کے حصص کی قیمت ابھی اور گرے گی۔ ایسے میں دو ہی راستے سمجھ میں آتے ہیں، اڈانی کو ابھارنے کے لیے اسے مزید قرض دیا جائے، حکومت کی یہ منشا ہو بھی سکتی ہے، ظاہر ہے اگر حکومت چا ہے گی تو کوئی بینک، کوئی ادارہ اس سے انکار نہیں کر سکے گا۔ دوسرا راستہ ہوگا اڈانی خود کو دیوالیہ قرار دے دیں، اس طرح وہ تمام ادائیگیوں سے بچ جائیں گے۔ ہو سکتا ہے منہ بچانے کے لیے ان کے خلاف کوئی کارروائی ہو لیکن جلد ہی گلوخلاصی مل جائے گی اور کسی بھی بیرونی ملک میں چین سے زندگی گزاریں۔رہ گیا ہندوستانی عوام کا پیسہ تو وہ ہندو راشٹر کے نشے اور پانچ کلو مفت اناج میں مست ہیں سب بھول جائیں گے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]