کیا ہندوستانی فلم انڈسٹری کے اچھے دن آگئے ہیں؟ بالکل۔ چند برس سے فلم انڈسٹری کے لوگ بائیکاٹ ٹرینڈ سے کافی پریشان تھے لیکن بائیکاٹ کے باوجود چار دن میں ’پٹھان‘ بجٹ کی رقم 250 کروڑ روپے نکالنے میں کامیاب رہی ہے، وہ اب تک 313.01 کروڑ روپے کی کمائی کر چکی ہے، ایسا لگتا ہے کہ بائیکاٹ نے اس پر الٹا اثر ڈالا ہے یا ممکن ہے، بار بار کے بائیکاٹ سے لوگ پریشان آگئے ہوں اور اسی لیے یہ ٹرینڈ ختم کر دینا چاہتے ہوں یا فلم ہی لوگوں کو اتنی اچھی لگ رہی ہو کہ بائیکاٹ اثر نہ دکھا پا رہا ہو۔ بات کچھ بھی ہو، فلم والوں کے لیے یہ نیک فال ہے۔ ایک بڑی ہٹ کی ضرورت کافی دنوں سے بالی ووڈ کو تھی۔ اسی بالی ووڈ کو جہاں کے مختلف شعبوں میں ہزاروں لوگوں کو روزگار ملتا ہے، کورونا کی لہر آئی تھی تو وہاں کے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر مدد کی تھی اور ان میں شاہ رخ خان کا نام اہم تھا۔ ہندوستانی فلم انڈسٹری بلکہ ہندوستانیوں کے لیے ایک اچھی خبر اور یہ ہے کہ ’آر آر آر‘ جاپان میں 100 دنوں سے دکھائی جا رہی ہے اور اس نے جاپان میں سب سے زیادہ کمائی کرنے والی ہندوستانی فلم کا ریکارڈ بنایا ہے۔
یہ بات سمجھنی ہوگی کہ فلمیں وہی دکھاتی ہیں جو سماج تھا، جو سماج ہے اور سماج کو جو ہونا چاہیے۔ فلموں میں کہانی کرداروں اور چلتے پھرتے مناظر کے توسط سے کہی جاتی ہے۔ اس میں یہ گنجائش ہوتی ہے، جہاں مؤثر انداز میں کچھ کہنے سے مکالمے قاصر ہوں وہاں کیمرہ اپنا کام کرے، اس لیے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ ادب و صحافت سے زیادہ موـثر انداز میں کہنے کی گنجائش فلموں میں ہوتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا فلمیں اپنا رول ادا کر رہی ہیں؟ کیا فلمیں لوگوں کو جوڑنے، مستقل امن کے لیے اتحاد کی اہمیت سمجھانے، تہذیب کی اہمیت بتانے کے لیے بنائی جا رہی ہیں؟ اس کا جواب ایک لفظ یا ایک جملے میں دینا مشکل ہے، البتہ آج کی فلموں کو دیکھنے پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ زیادہ تر فلمیں زیادہ کمانے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ پہلے بھی فلمیں پیسے کمانے کے لیے ہی فلم ساز بناتے تھے مگر وہ اپنی سماجی ذمہ داریوں کو فراموش نہیں کرتے تھے، یہ بات نظرانداز نہیں کرتے تھے کہ بہتر سماج، بہتر ملک بنانے کی ذمہ داری ان پر بھی ہے۔ نتن بوس، عبدالرشید کاردار، محبوب خان، بی آر چوپڑا، بمل رائے، رشی کیش مکھرجی، گرودت، ایچ ایس رویل، رامانند ساگر، اے بھیم سنگھ، یش چوپڑا، ایم ایس ستھیو، گلزار، رمیش سپی اور ان کے بعد اور پہلے کے بھی کئی ہدایت کار اور فلم ساز کی فلموں کو دیکھ لیجیے، عش عش کرتے رہ جائیں گے کہ کیا بامقصد فلمیں بنائی ہیں۔ اسی طرح اشوک کمار، دلیپ کمار، راج کپور، دیوآنند، راج کمار، سنیل دت، راجندر کمار، منوج کمار، دھرمیندر، امیتابھ بچن اور ان کے بعد اور پہلے کے بھی کئی اداکاروں کو دیکھ لیجیے، یہ اندازہ ہوجائے گا کہ ان کی فلموں کا ایک مثبت مقصد تھا، ایک مثبت پیغام تھا۔ رائٹروں نے بھی اسی طرح کی کہانی لکھی۔ ہدایت کار یش چوپڑا کی فلم ’دھول کا پھول‘ میں عبدالرشید کا کردار یوں ہی نہیں تھا، اس کردار پر ساحر لدھیانوی کا یہ نغمہ یوں ہی فلم بند نہیں کیا گیا تھا، ’تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا؍ انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا‘، ہدایت کار رامانند ساگر کی فلم ’آنکھیں‘ کا کردار اشفاق غداری پر بیٹے کو گولی مار دیتا ہے، اس کا دوست میجر دیوان چند پوچھتا ہے، ’یہ کیا کیا تم نے؟‘ تو آزاد ہند فوج کا سابق جوان اشفاق کہتا ہے، ’میجر صاحب میں اب بھی نشانہ لگا سکتاہوں۔‘ ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔ ان کرداروں کو دیکھنے والا اپنے اندر ایک بڑے کردار کو محسوس کرتا ہے، اپنے وطن کی محبت، فرض،ایثار و قربانی محسوس کرتا ہے۔ فلم ساز و اداکار راج کپور کی فلم ’جس دیش میں گنگا بہتی ہے‘ کے ایک گانے میں تو ملک کا تعارف بڑی اچھی طرح پیش کیا گیا ہے۔ شیلندر کا لکھا یہ گانا ہے، ’ہونٹوں پہ سچائی رہتی ہے؍ جہاں دل میں صفائی رہتی ہے؍ہم اس دیش کے واسی ہیں؍ جس دیش میں گنگا بہتی ہے‘ ۔ اسی گانے میں آگے کی لائن ہے، ’کچھ لوگ جو زیادہ جانتے ہیں؍ انسان کو کم پہچانتے ہیں‘ اور ایسے لوگ ہمارے ملک کی بھی فلم انڈسٹریوں میں ہیں لیکن کم ہیں۔ زیادہ تر لوگ وہ لوگ ہیں جو جانتے ہیں، فلم سازی صرف پیسہ کمانے کا میڈیم نہیں، یہ مثبت باتوں کو اس طرح پیش کرنے کا فن ہے کہ دیکھنے والا بور نہ ہو اور اس کی منفی سوچ پر مثبت سوچ حاوی ہو جائے، وہ دوسروں کے دکھ سے درد محسوس کرے اور ان کی خوشی سے خوشی، وہ یہ سمجھے کہ ملک کی مستحکم ترقی کے لیے اتحاد، بھائی چارے،محبت، عزت و احترام کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت ہے، کیونکہ ان چیزوں سے مستقل طور پر امن قائم رہتا ہے اور امن کے بغیر مستحکم ترقی کی بات سوچی بھی نہیں جا سکتی۔
[email protected]
ہندوستانی فلم انڈسٹری کے اچھے دن
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS