پروفیسر اخترالواسع
ہندوستان کی پیشانی جن اولیاء، صلحاء، صوفیہ اور انسانیت کا درس دینے والے عظیم بزرگوں سے منور ہے، ان میں سب سے روشن نام حضرت خواجہ غریب نوازؒ کا ہے۔ حضرت خواجہ غریب نواز جن کا اصلی نام حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ ہے، آٹھ صدیوں سے بھی پہلے اجمیر کی سرزمین پر وارد ہوئے۔ ان کے قدوم میمنت لزوم سے یہ بستی ایسی پاک ہوئی کہ اجمیر شہر اجمیر شریف بن گیا اور برصغیر کے لاکھو ںعقیدت مندوں کی زیارت کا مرکز بن گیا۔
حضرت خواجہ اجمیری کوئی بادشاہ یا کوئی عظیم سپہ سالار یا کوئی امیر کبیر نہیں تھے۔ وہ اپنی ذات سے فقر و استغناء کا پیکر اور اپنے عمل سے ایثار و قربانی کی علامت تھے۔ وہ اپنے چالیس ہمراہیوں کے ساتھ اجمیر تشریف لائے اور نہایت خاموشی کے ساتھ ایک کنارے فروکش ہوکر خدمت خلق اور غریب پروری کی روش کو عام کرنے لگے۔ وہ خود تو فقیر تھے لیکن سلطان الہند کا خطاب ان کا منتظر تھا۔ وہ خود تو غریب تھے لیکن ان کی غریب پروری ایسی تھی کہ ان کو غریب نواز بنا دیا۔
حضرت خواجہ اجمیری ہندوستان کی سرزمین سے سیکڑوں میل دور سجستان میں پیدا ہوئے۔ ابھی حضرت خواجہ کم عمر ہی تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ترکہ میں ایک پن چکی اور ایک باغ ملا جو کفالت کے لیے کافی تھا لیکن دست قدرت نے اس یتیم کو دریتیم بنانا مقدر کر رکھا تھا۔ منگولوں کے حملوں سے وہ پہلے ہی دل برداشتہ تھے، ادھر کسی صاحب نظر نے ان پر نظرکیمیا اثر ڈالی اور دل رغبت دنیا سے مستغنی ہوگیا۔ باغ اور چکی فروخت کر کے غرباء میں تقسیم کی اور خود اپنی منزل مقصود کی تلاش میں چل پڑے۔ حصول منزل کی پہلی شرط علم ہے۔ صوفیہ کرام اس کو مشخص کرنے کے لیے علم ظاہر کا بھی نام دیتے ہیں کئی سال علوم ظاہری کی تکمیل کی۔ اس کے بعد علوم باطنی کی تحصیل کی طرف متوجہ ہوئے۔
دست قدرت کی کاریگری ان کو حضرت خواجہ عثمان ہرونیؒ کی خدمت میں لے گئی۔ حضرت خواجہ نے اس آفتاب عالمتاب کی باطنی صلاحیت کو پہچانا اور اپنے ساتھ لے کر بلاد اسلامیہ کے سفر پر نکل پڑے۔ ایک طویل عرصہ کی سیاحت کے بعد خود مرشد نے آگے کا سفر تنہا جاری رکھنے کی اجازت دی۔ حضرت خواجہؒ نے تنہا بھی بہت سے اسلامی ممالک کا سفرکیا۔
حضرت خواجہ اجمیریؒ نے مدینہ سے ہندوستان کی طرف سفر کیا۔ لاہور آئے تو معلوم ہوا کہ لاہور سے آگے فارسی زبان کافی نہیں، بلکہ مقامی زبان سیکھنی ہوگی۔ خواجہ صاحب کی زندگی میں یہ ایک زبردست سبق اور نمونہ ہے کہ ان کی زندگی کے گرد مریدین نے کرامات کے چاہے کتنے ہی ہالے بُن دیے ہوں لیکن ان کی زندگی صرف کرامت سے نہیں بلکہ عمل سے عبارت تھی۔ تحصیل علم کے لیے انہوں نے تقریباً 20 سال بلاد اسلامیہ کا سفر کیا، اس کے بعد جب ان کو ہندوستان کی مقامی زبان سیکھنے کی ضرورت پیش آئی تو انہوں نے اپنی کرامت سے یہ زبان نہیں سیکھی بلکہ اس کو سیکھنے کے لیے ملتان گئے اور وہاں ہندوستانی زبان سیکھی۔ اس کے بعد آپ لاہور اور دہلی ہوتے ہوئے اجمیر میں فروکش ہوئے اور تقریباً چالیس سال اسی سرزمین کو اور یہاں کے ذریعہ پورے ہندوستان کو فیض یاب کرتے رہے۔
حضرت خواجہ بزرگؒ بڑے غریب نواز تھے۔ یہ لقب ان کی ذات کے ساتھ ایسا وابستہ ہوا کہ نام کا مترادف بن گیا۔ ان کو اس خطاب کا اہل کسی بادشاہ نے قرار نہیں دیا تھا بلکہ غریب نوازی ان کے مقدر میں خود احکم الحاکمین نے لکھی تھی اور ان کی زندگی اسی غریب نوازی سے عبارت تھی۔ حضرت خواجہ کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوںنے دین و دنیا کی تفریق ختم کردی۔ ان کی نظر میں دین اور دنیا دو الگ الگ دنیا نہیں ہیں بلکہ دنیا کو خدا کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق گزارنا ہی دین ہے۔ انہوں نے خالق کی عبادت اور مخلوق کی خدمت دونوں کے درمیان کوئی تفریق روا نہیں رکھی۔ انہوں نے فرمایا کہ انسان پر دو فرائض ہیں۔ ایک عبادت اور دوسرا اطاعت۔ عبادت کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اپنی جبین نیاز کو پورے ادب و احترام کے ساتھ بارگاہ ایزدی میں خم کردے اور اطاعت کا مفہوم یہ ہے کہ خدا نے مخلوقات کے لیے اس کے اوپر جو فرائض عائد کیے ہیں، ان کو بجا لائے۔ اس کی شب، آہِ سحرگاہی سے زندہ ہو اور دن کی روشنی بندگان خدا کی خیر گیری کے لیے وقف ہو۔
حضرت خواجہ غریب نوازؒ ایک مثالی کردار اور نمونہ تھے۔ ان کی زندگی ان کے متوسلین کے لیے ایک اسوہ تھی۔ انہوں نے اپنی سادہ زندگی اور فقیر منشی کے ذریعہ لوگوں کو سادگی کا درس دیا۔ وہ اکثر پیوند لگے کپڑے زیب تن کرتے، بکثرت روزے رکھتے، کھانا بہت تھوڑا سا تناول فرماتے، ان کا پیغام تھا کہ لباس سترپوشی کے لیے ہے اور غذا انسانی زندگی کی بقاء کے لیے، کھانا اور کپڑا زندگی کا مقصد نہیںہے بلکہ زندگی کی ضروریات ہیں۔ انسان کو زندگی ایک بڑے مقصد کے لیے دی گئی ہے۔ زندگی کو اسی مقصد میں صَرف کرنا چاہیے اور وہ بڑا مقصد عبادتِ الٰہی اور اطاعتِ الٰہی ہے۔ عبادت کا مطلب خدا کے حقوق کی ادائیگی ہے اور اطاعت کا مطلب مخلوقات کے حقوق کی ادائیگی ہے۔ زندگی کا مقصد محض حیوانی جذبات کی تسکین اور لہو و لعب دنیا میں مشغولیت نہیں ہے۔
حضرت خواجہؒ کا ایک بڑا کارنامہ ہندوستان کی سرزمین پر چراغِ چشت کی روشنی پھیلانا ہے۔ اگر ہندوستانی معاشرہ کو غور سے دیکھا جائے تو اس سرزمین پر حضرات چشتیہ کی خدمات سب سے زیادہ نظر آتی ہیں۔ ہندوستانی معاشرہ کی سماجی تنظیم سے لے کر ادب، ثقافت اور تمدن اور علم و د ین ہر میدان میں حضرات چشتیہ کی خدمات بے مثال ہیں۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ، حضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ، حضرت محبوب الٰہی نظام الدین اولیاءؒ، حضرت امیر خسروؒ، حضرت نصیر الدین چراغ دہلیؒ، حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ، حضرت شیخ کلیم جہان آبادیؒ، علماء بریلی ہوں یا علماء دیوبند سب کے یہاں چراغ چشت کی ضوفشانی نظر آتی ہے اور ہر پہلو میں اس آفتابِ ہدایت کا نور جگمگا رہا ہے۔
حضرت خواجہ اجمیری کو سلطان الہند کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ لفظ ان کی کلاہِ افتخار کا زرّیں نگینہ بن کر معزز ہوگیا۔ ہندوستان کی سرزمین نے سیکڑوں بادشاہوں کو دیکھا، ہزاروں علماء نے اس سرزمین کوزینت بخشی اور بے شمار صوفیہ اور صلحاء نے اس دیس کی فضائوں کو اپنے لاہوتی نغمات سے مزین کیا لیکن اس سرزمین کو جو تابانی، جو افتخار اور جو عظمت حضرت خواجہ سے ملی اور مسلسل قائم ہے، اس کی کوئی دوسری نظیر نہیں۔ حضرت خواجہ بلاشبہ ہندوستانی تہذیب، ہندوستانی معاشرہ اور ہندوستانی تاریخ کے سب سے منور نگین اور سب سے زیادہ تابندہ ستارے ہیں۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے
پروفیسر ایمریٹس ]اسلامک اسٹڈیز[ ہیں۔)
[email protected]