ذخیرہ اندوزی کا وبال

0

مولانا ابوبکر حنفی شیخوپوری

معیشت کا پہیہ رواں رکھنے اور اقتصادیات کے نظام کے تسلسل کیلئے کسب معاش کے دیگر ذرائع مثلاََملازمت، زراعت اور صنعت کاری کی طرح تجارت کو بھی غیر معمولی حیثیت حاصل ہے۔ رائج الوقت سکوں کے عوض اشیائے ضروریہ کا تبادلہ دنیا کی قدیم روایت اور نظامِ عالم کا حصہ رہاہے، یہ وہ مقدس پیشہ ہے جسے ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سمیت بہت سے جلیل القدر انبیاء نے اختیار کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاجروں کی بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے، ارشاد فرمایا: سچا اور امانتدار تاجر (قیامت کے دن) انبیاء ،صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہو گا۔ اسلام چونکہ ایک آفاقی مذہب اور قیامت تک کی انسانیت کے لئے نجات دہندہ ہے اس لئے اس نے دین کے دیگر شعبہ جا ت کی طرح تجارت سے متعلق بھی جامع ہدایات اور زریں اصول دئے ہیں۔
اسلامی تجارت کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اصول یہ ہے کہ لوگوں کی روز مرہ کی اشیائے ضروریہ جن کے بغیر نظامِ ِزندگی بری طرح متاثر ہوتا ہے وہ انہیں بہم پہنچانے میں تاجر برادری اپنا کردار ادا کرے اور یوں انسانیت کی خدمت کر کے اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دے۔ اگر خدانخواستہ تاجر طبقے کی طرف سے عام ضرورت کی اشیاء کو اسٹاک کر کے مصنوعی قلت پیدا کر دی گئی اور وہ ذخیرہ اندوزی کے اس قبیح عمل کے ذریعہ منافع خوری کا مکروہ دھندہ کرنے میں ملوث ہو گئے تو یہ عمل غضبِ الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے، احادیث طیبات میں اس کی سخت مذمت بیان کی گئی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:ذخیرہ اندوزی صرف گنہگار شخص ہی کرتا ہے(صحیح مسلم) ۔
ایک حدیث میں ہے :تاجر خوش بخت ہے اور ذخیرہ اندوز ملعون ہے (سنن ابنِ ماجہ) ایک موقع پرذخیرہ اندوزی کا دنیوی وبال بتاتے ہوئے فرمایا:جو شخص مسلمانوں پر ذخیرہ اندوزی کرے گا اللہ تعالی اس پر کوڑھ کے مرض اور فقر کو مسلط کر دے گا (سنن ابنِ ماجہ) ایک جگہ فرمانِ نبویؐ ہے: وہ شخص بہت برا ہے جسے قیمت کی کمی سن کر برا محسوس ہوتا ہے اور جب قیمت بڑھتی ہے تو اسے خوشی ہوتی ہے(مجمع الزوائد) حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اس ارادے سے ذخیرہ اندوزی کی تاکہ چیزیں مہنگی ہو جائیں تو وہ خطاکار ہے اور اللہ اس کے رسول پر اس کا کوئی ذمہ نہیں ہے۔
ذخیرہ اندوزی کرنے والے شخص کا حال سودخور کی طرح ہے ،جس طرح سود خور مال بڑھانے کے لئے سودی لین دین کرتا ہے لیکن اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں سود کو مٹاتا ہوں یعنی مال بڑھنے کی بجائے کم ہو جاتا ہے اسی طرح ذخیرہ اندوزی کرنے والے کو بھی اس کا مقصد حاصل نہیں ہوتا،اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ انسانی ضرورت بڑھنے کے ساتھ ساتھ اجناس کے دام بڑھتے جائیں اور میں دنوں میں امیر ترین شخص بن جاؤں ،لیکن اس ناجائز اور حرام طریقے سے حاصل شدہ نفع بے برکتی کے باعث اس کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر رہتا ہے، اللہ تعالی اسے ایسے امراض میں مبتلا کر دیتے ہیں کہ ساری جمع پونجی ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی بھاری فیسوں اور ادویات کی نذر ہو جاتی ہے، یا ایسے ناجائز مقدمات میں پھنس جاتا کہ کچہریوں کے چکروں اور وکیلوں کے معاوضوں میں وہ رقم پانی کی طرح بہ جاتی ہے، غرضیکہ کسی نہ کسی طریقہ سے اللہ تعالی اس سے فائدہ اٹھانے سے محروم کر دیتے ہیں۔
یہ ایک المیہ ہے کہ مال کی حرص ہمارے رگ و ریشہ میں اس قدر سرایت کر گئی ہے کہ ہمیں حلال وحرام ،صحیح غلط اور جائز و ناجائز کی پرواہ تک نہیں رہی، ایک مسلم معاشرے میں رہتے ہوئے ہمارا طرز ِعمل یہ بن چکا ہے کہ کسی لاچار کی مدد کرنے اور ضرورتمند کی ضرورت کو پورا کرنے کی بجائے ہم قیمتوں میں گرانی کر کے ان کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں،یہ انتہائی غیر اخلاقی،غیرفطری اور غیر شرعی عمل ہے، سلف صالحین کے حالات پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نظر میں لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنا اپنے ذاتی نفع کے حصول سے مقدم سمجھا جاتا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں ایک مرتبہ قحط کے آثار شروع ہو گئے جس کی وجہ سے لوگوں میں پریشانی کی لہر ڈوڑ گئی،حضرت عثمانِ غنیؓ کے غلے اور اناج سے لدے ہوئے ایک ہزار اونٹ شام سے مدینہ کی طرف آرہے تھے، تاجر یہ سنتے ہی صبح سویرے حضرتِ عثمان کے دولت کدہ پر پہنچ گئے اور انہیں دس کی خرید پر بارہ درہم کی پیش کش کی آپؓ نے بیچنے سے انکار کر دیا، انہوں نے تیرہ پھر چودہ اور آخر پندرہ درہم پر اپنا فیصلہ سنا دیا کہ ہم اس سے زیادہ نفع نہیں دے سکتے۔
آپؓ نے انہیں جواب دیا: میں نے ایک ایسے بیوپاری سے سودہ کیا ہے جو دس پر پندرہ نہیں بلکہ ایک پر دس گنا نفع عطاء کرتا ہے، انہوں نے حیران ہو کر پوچھا کہ وہ کون ہے ؟ آپؓ نے فرمایا :وہ اللہ ہے، پھر ان سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا: اے تاجرو! گواہ ہو جاؤ! میں یہ سارا غلہ بغیر کسی قیمت کے صرف اللہ کی رضا کے لئے لوگوں پر خیرات کرتا ہوں۔
معاشرے میں ان تابندہ روایات کو پھر سے زندہ کرنے ،انسانیت کو اپنے تابناک ماضی سے وابسطہ کرنے، ذخیرہ اندوزی جیسے مذموم اقدامات کی حوصلہ شکنی کرنے ، ایسے غلط عناصر کے خاتمے اور منافع خور مافیا کو قانون کے شکنجے میں لانے کے لئے تمام طبقات کو اپنا کلیدی کردار ادا کرنا چاہئے ،علماء کرام اپنے خطبات میں اس مکروہ عمل کی سنگینی سے عوام الناس کو مطلع کریں، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور متعلقہ شعبہ کے افسران قانونی چارہ جوئی کے ذریعہ اس کا سد ِ باب کریں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS