فتنۂ ارتداد سے اپنے ایمان کی حفاظت کیجئے

0

ڈاکٹرمفتی تنظیم عالم قاسمی

ایک مسلمان کے لئے ایمان و اسلام سب سے عظیم نعمت اور دنیا کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ اسی پر دنیا و آخرت میں کامیابی کا مدار ہے۔ دنیا میں عزت و افتخار ، عروج و بلندی ، شان و شوکت اسی ایمان سے وابستہ ہے اور موت کے بعد کی دائمی زندگی میں راحت اور سکون اور وہاں کے ناقابل تصور عذاب سے نجات بھی اسی سے متعلق ہے ،جس نے دنیا سے جاتے ہوئے اپنے ایمان کو بچا لیا اور کلمہ ٔ شہادت پر یقین رکھا اس کے بارے میں قرآن و حدیث میں صاف لفظوں میں بتا دیا گیا ہے کہ وہ کامیاب ہے۔ اگر بعض گناہ کے سبب جہنم میں جانا بھی پڑا تو ایک متعین وقت کے بعد وہاں سے نکال لیا جائے گا اور جنت میں داخل کیا جائے گا جہاں وہ ہمیشہ ہمیش رہے گاجو ایک انسان کے لئے سب سے بڑی نعمت ہے۔ اس لئے ایک شخص کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ اپنے ایمان پر قائم رہے۔ حالات جیسے بھی ہوں ، موافق ہوں یا مخالف ، تنگ دستی ہو یا خوش حالی ، بیماری ہو یاتندرستی ،اپنے ایمان کی فکر کرے اور ہر حال میں اس پر استقامت اختیار کرے ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی اپنے بندوں کو اس کی ہدایت دی ہے اور ایمان کے ساتھ رہنے اور ایمان کی موت مرنے کی تعلیم دی ہے ۔ ارشاد باری ہے (ترجمہ) اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ، تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو‘‘ … زندگی اور موت، عز ت اور ذلت ،امیری اور غریبی سب کچھ اللہ کے اختیار میں ہے۔ اس یقین کے ساتھ ہماری تمام سرگرمیاں جاری رہنی چاہئیں کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہے۔ اس عقیدہ پر زندہ رہیں اور موت آئے تو اسی پر آئے، یہ ایمان کی موت ہے جس کی ایک مسلمان کو بہر حال کوشش کرنی چاہئے۔
ہمارے پاس جب کوئی ادنیٰ نعمت ہوتی ہے تو ہم اس کی بھی حفاظت کرتے ہیں اور صبح وشام اس کی دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں کہ کہیں ہمارے ہاتھ سے نہ چلی جائے۔ کہیں جاتے ہوئے اپنے گھر میں تالا لگاتے ہیں، گاڑی کو لاک کرتے ہیں اور مسجد یا کسی جگہ جاتے ہوئے اپنی معمولی چپل کی فکر رہتی ہے جب کہ اس کی کوئی حیثیت اور قیمت نہیں ہے۔ آپ اندازہ کیجئے کہ دنیا کی ایک معمولی چیز کی اتنی فکر ہے تو ایک مسلمان کو اپنے ایمان کی کس قدر فکر کرنے اور اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ؟
رسول اکرم ؐنے مختلف احادیث میں کچھ فتنوں کی خبر دی ہے اور مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ اپنے ایمان کو ان سے بچائے رکھو کہیں ایسا نہ ہو کہ ان فتنوں کے سبب تمہارا ایمان تمہارے سینے سے رخصت ہو جائے اور تمہیں اس کی خبر بھی نہ ہو ۔اس لئے کہ بعد میں ایسے فتنے پیدا ہوں گے اور ایمان سوز ایسا ماحول پیدا ہوگا کہ ایمان جاتے ہوئے دیر نہیں لگے گی، ایک شخص صبح مسلمان ہوگا اور شام کفر کے حال میں کرے گا اور شام مسلمان ہوگا اور صبح ہوگی تو کفر و شرک کا اس کے سینے میں بسیرا ہوگا اور توحید سے اس کا سینہ خالی ہوچکا ہوگا۔ مادیت کا غلبہ اور دنیا کا اس قدر حرص لوگوں میں بڑھ جائے گا کہ ایک مسلمان چند کوڑیوں کے بدلے اپنے ایمان کو بیچ ڈالے گا۔ حدیث کے الفاظ ہیں : (ترجمہ) ان فتنوں کے آنے سے قبل اعمال صالحہ کی طرف سبقت کرو جو تاریک راتوں کی طرح پیدا ہوں گے ۔ آدمی صبح مؤمن ہوگا اور شام کافر اور کبھی شام مؤمن ہوگا اور صبح کافر ، اپنے دین کو دنیا کے چند سامان اور پیسوں کے عوض بیچ ڈالے گا‘‘ ۔ یعنی کچھ ایمان سوز ایسے فتنے پیدا ہوں گے جن سے ایک مسلمان کے لئے اپنے ایمان کی حفاظت دشوار ہو جائے گی ،تاریک رات کی طرح وہ فتنے کفر کے اندھیرے پھیلائیں گے ، یہاں تک کہ ایک آدمی کا ایمان و عقیدہ بالکل صحیح ہوگا لیکن جب گھر سے باہر نکلے گا ، ایمان کے لٹیروں سے ملاقات ہوگی، وہ ایسی پاٹھ پڑھائیں گے کہ اس کا سوچ اور عقیدہ بدل جائے گا اور ایمان اس کے سینے سے رخصت ہو جائے گا۔ کچھ لوگ اپنی بیماریوں ، رزق کی پریشانیوں اور مختلف الجھنوں کے سبب خدا کی شان میں ایسی بات کہ بیٹھیں گے کہ اس کی وجہ سے ان کا ایمان ختم ہوجائے گا ، کچھ اپنے سلسلہ وار مصائب کے سبب اپنے رب اور ایمان سے بیزار ہوجائیں گے۔ لوگ اپنے ایمان کو اتنا ہلکا سمجھ لیں گے کہ اس کی اہمیت دل سے ختم ہوجائے گی اور چند پیسوں اور عزو جاہ کے لالچ میں اپنے ایمان کاسودا کرلیں گے۔ گویا آپ ؐ نے اپنی امت کو ایسے نازک موڑ پر چوکنا رہنے اور بیدار مغز رہنے کی ہدایت دی ہے اور ہر حال میں ایمان پر جمے رہنے کی تلقین فرمائی ہے کہ دنیا کی تھوڑی پریشانی برداشت کرلی جائے اور آخرت کو پیش نظر رکھا جائے ، یقینا یہ سستا سودا ہے کہ پوری دنیا لٹ جائے لیکن ایمان باقی رہے اور اگر دنیا کی دولت قارون کے خزانے کے برابر بھی مل گئی لیکن ایمان نہیں رہا تو یہ انتہائی خسارے کی بات ہے ،اس سے زیادہ ذلت اور محرومی کچھ بھی نہیں ہو سکتی۔
جن فتنوں اور حالات کی طرف رسول اکرم ؐ نے اشارہ فرمایا ہے وہ آج سے پہلے بھی ہوں گے اور ممکن ہے آئندہ بھی ہوں لیکن موجودہ ملکی اور بین اقوامی حالات کے پیش نظر یقین سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ دور بھی اس کا حقیقی مصداق ہے اور یہ حدیث آج کے حالات پر مکمل فٹ آتی ہے۔ اسلام اور مسلمان ساری باطل طاقتوں کی نظر میں کھٹک رہے ہیں۔ ان کو مٹانے، ان کو مغلوب کرنے، ان کو بدنام کرنے اور اسلامی تعلیمات سے دنیا کو متنفر کرنے کی منصوبہ بند کوششیں جاری ہیں۔ باطل نظریات کے پرستار چاہتے ہیں کہ مسلمان اپنے ایمان اور اپنی شناخت کے ساتھ دنیا میں زندہ نہ رہنے پائیں ، ان کو اور ان کی نسلوں کو ایمان سے محروم کردیا جائے۔
مسلمانوں کو ایمان سے برگشتہ کرنے کے لئے یہودی اور عیسائی مشنریاں دیہاتوں اور شہروں میں کام کررہی ہیں۔ خاص طور پر مسلمانوں کا جو طبقہ علم دین سے محروم ہے اور مالی اعتبار سے بھی کمزور ہے ان مسلمانوں کے علاقے میں جاکر پیسے کا لالچ دے کر، مفت علاج و معالجہ اور کہیں ان کے مسائل میں ہاتھ بٹانے کا لالچ دے کر کہیں قرض فراہم کرنے کے بہانے یہ لوگ انہیں بے دینی اور اسلام بیزاری کی دعوت دیتے ہیں۔ پریشان حال مسلمان ارتداد اور الحادو دہریت کی راہ اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور ان کی سادگی کا غلط فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ کچھ فتنے ختم نبوت پر حملہ آور ہیں اور اس راستے سے مسلمانوں کا ایمان سلب کیا جارہا ہے،قادیانیت کی تبلیغ اور اس کی ہرزہ سرائیاں اپنی جگہ پر جاری ہیں، ظاہر ہے کہ ایک شخص اگر رسول اکرم ؐکے آخری نبی ہونے کا یقین نہ رکھتا ہو اور کسی بھی طرح نبوت کا دروازہ کھلا رکھنے پر ایمان رکھتا ہو تو وہ توحید پر یقین رکھنے کے باجود مسلمان نہیں ہو سکتا۔ توحید اور رسالت کے مجموعے کا نام ایمان ہے ، اس میں سے کسی میں کمی آجائے تو ایمان ختم ہو جائے گا۔ قادیانیت کے مبلغین بھی دیہاتوں اور دور افتادہ گاؤں میں کفر پھیلانے پر کمر بستہ ہیں اور ان کی سرگرمیاں بھی تیزی جاری ہیں۔
مسلمانوں کو ایمان سے برگشتہ کرنے کے لئے یہی کیا کم تھا کہ اور بھی مختلف نئے نئے ایمان سوز فتنے آئے دن پیدا ہوتے جارہے ہیں۔ فتنۂ فیاضیت، فتنۂ شکیل بن حنیف ، فتنۂ گوہر شاہی اور نہ جانے کتنے فتنے ہیں جن کا سرا قادیانیت سے ملتا ہے اور وہ مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر ایسے عقائد کی تبلیغ میں مصروف ہیں جن کو اختیار کرنے کے بعد ایک شخص مسلمان باقی نہیں رہ سکتا۔ گویا اپنوں اور غیروں کی جانب سے اسلام اور مسلمانوں پر متواتر حملے کئے جارہے ہیں اور ان کے ایمان کو چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے ، ان کو ارباب اقتدار کی حمایت بھی حاصل ہے ، ایسے وقت میں ایمان کا تحفظ مسلمانوں کے لئے سب سے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ اپنی شہریت ، تجارت ، ملازمت، معیشت ، مال و دولت اور عزت و آبرو کا تحفظ بھی مسلمانوں کے لئے مسئلہ ہے اس میں کوئی شبہ نہیں اور اس کے لئے حکمت عملی کے ساتھ اقدام کرنا چاہئے لیکن حالات کا تیور بتا رہا ہے کہ اس ملک میں اہل ایمان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ اپنے اور اپنی نسلوں کے ایمان کے تحفظ کا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ایمان لے کر دنیا سے جائیں اور مرنے کے بعد کی زندگی بہتر اور خوش گوار ہو ، اپنے رب اور اپنے پیارے آقا ؐکو منہ دکھا سکیں تو طے کر لیجئے کہ ہر حال میں اپنے اور اپنی اولاد کے ایمان کی حفاظت کریں گے۔ جان و مال، عزت و آبرو اور دنیا کی ہزار نعمتیں ایمان کے لئے ہم قربان کردیں گے مگر ایمان کا سودا ہونے نہیں دیں گے۔جس طرح حضرات صحابۂ کرام نے اپنے ایمان کی حفاظت کی ،انہیں مکی زندگی میں ستا یا گیا ، اذیتیں دی گئیں اور رونگٹے کھڑے کردینے والے مصائب کا پہاڑ ان پر توڑا گیا ، کٹھن اور مخالف طوفان سے انہیں ٹکرانا پڑا یہاں تک کہ اپنے گھر بار کو چھوڑ کر ہجرت کرنے کا نازک موقع آیا تو اس میں بھی وہ کھرے اترے، سب کچھ قربان کردیا لیکن ایمان کی حفاظت کی اور مدینہ آئے تو یہاں بھی انہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیا گیا یہاں بھی باطل قوتوں کا خوب مقابلہ کیا ، زندگی کے آخری لمحے تک طاغوتی طاقتوں سے لڑتے رہے اور جب گئے تو دین و ایمان کے ساتھ اپنے رب کے حضور میں حاضر ہوئے ، کامیاب اور خوش نصیب ترین ہیں یہ لوگ جن کے لئے دنیا میں رہتے ہوئے ہی اللہ تعالی نے جنت کا اعلان فرمادیا اور انبیائے کرام کے بعد جن کو ساری دنیا پر فوقیت حاصل ہے۔ کروڑوں اولیاء اور صلحاء ان کے ایمان اور بلند درجات پر رشک کرتے ہیں جن کے ایمان کو دنیا کی بادشاہت یا یہاں کے کسی عہدہ اور منصب کا لالچ چھین سکا اور نہ کسی اذیت اور ناقابل برداشت تکلیف سے اس میں داغ آیا۔ کاش ! ہم اپنے ایمان کی حفاظت میں ان سے کچھ سبق سیکھتے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS