نیلم مہاجن سنگھ
یہ توواضح ہے کہ پاکستانی نژاد لیبر پارٹی کے رکن پارلیمنٹ عمران حسین نے برطانوی ایوان نمائندگان میں بی بی سی کی دستاویزی فلم ‘انڈیا: دی مودی کوشچن’ (India: The Modi Question) پر سوال اٹھایا تھا۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ میں ہندوستان مخالف طاقتوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ اطلاعات و نشریات کے مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے واضح کیا ہے کہ کوئی بھی ملک مخالف تصویر نشر نہیں کی جائے گی۔ اس فلم کو یوٹیوب سے بلاک کر دیا گیا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ مختصر فلم مختلف مقامات پر دکھائی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ سے مسلم طبقہ کا اپنا ہی نقصان ہے اور ہندو وادی تنظیموں کو ان کو حقیر سمجھنے کا موقع ملے گا۔ ہندوستانی تناظر میں کون اعلیٰ ہے؟ آئین، پارلیمنٹ، سپریم کورٹ یا بی بی سی؟ اس مضمون کو سبجکٹیویا انفرادی طور پر نہ لے کرہندوستان کے وزیر اعظم کی شبیہ کو داغدار کرکے اور ملک مخالفین کی سازش کے طور پر لیا جانا چاہئے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی، این ڈی اے حکومت کو عوام کی اکثریت حاصل ہے۔ یوںہی کود کر پارلیمنٹ میں سیٹیں حاصل نہیں کی گئیں؟ پی ایم نریندر مودی پر بنی دستاویزی فلم کو ‘سازش’ کیوں بتایا جا رہا ہے؟
اس سیریز میں سب سے زیادہ چرچا ،’نریندر مودی کے وزیراعلیٰ رہتے گجرات میں ہوئے فسادات‘ کی ہے ۔ مصنف کا مشاہدہ یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو گجرات میں 2002 کے گودھرا فسادات کے لئے وزیراعظم نریندر مودی کو بھاری سیاسی قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ پی ایم اٹل بہاری واجپئی نے گجرات کے وزیر اعلیٰ سے ’’راج دھرم کی پیروی کرنے‘‘کی اپیل کی تھی، جس پر انہوں نے جواب دیا، ’’نبھا رہے ہیں، و ہی تو کر رہے ہیں‘‘۔ نریندر مودی کو ’’موت کا سوداگر‘‘ قرار دینے والا سونیا گاندھی کا گستاخانہ تبصرہ آج بھی کانوں میں گونجتا ہے۔ ایک جلی ہوئی ریل کی بوگی، جس میں کئی کار سیوک مارے گئے، ابھی بھی ایک خوفناک ویڈیو کی طرح سامنے ہے۔ امریکہ نے نریندر مودی کو دورہ امریکہ کی اجازت نہیں دی تھی۔ ممتا بنرجی جیسے ان کے مخالفین نے انہیں ‘گجرات کا قصائی’ کہا اور یہ کہانی چلتی رہی … گودھرا فسادات پر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر برسوں سے چرچا چل رہی ہے۔ انڈیا ٹوڈے کنکلیو میں، جہاں P.M. نریندر مودی مہمان خصوصی تھے ،یہ پہلے سے طے تھا کہ گودھرا فسادات پر کوئی سوال نہیں کیا جائے گا۔ بلاشبہ اس کیس کی وجہ سے نریندر مودی کو کافی دشمنی کا سامنا کرنا پڑاتھا۔ یہاں تک کہ اقلیتی برادریوں نے نریندر مودی سیکولر اصولوں کے خلاف کیچڑ اچھالاتھا۔حالانکہ ہندوستان کے سپریم کورٹ کے فیصلوں سے الگ کچھ بھی نہیں ہے ۔ نریندر مودی پر گزشتہ 20 سالوں سے سیاسی حملے،ہندوستان کے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے ختم ہوگئے ہیں ۔ وزیراعظم کو پھنسانے کی خصوصی اجازت کی درخواست خارج کر دی گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں واضح کیاہے، “پچھلے 20 سالوں میں، این جی او بریگیڈ نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے عدالت کے ہر فورم کا غلط استعمال کرنے کی کوشش کی۔” پھر بی بی سی کو کیا ہوا؟ کیوں اسی گھیسے پیٹے عناصرکو جوڑ توڑکر ڈاکومنٹری بنانے کی نوبت آئی؟ بی بی سی نے بھی وزیر اعظم نریندر مودی پر یہ ڈاکومنٹری کیوں بنائی؟ حکومت ہند کا ردعمل کیا رہا؟ آئیے سمجھتے ہیں۔
اس دستاویزی فلم پر کئی طرح کے سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور ایک بار پھر نریندر مودی کی شبیہ بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ ویسے اس ہفتے رشی سنک نے پارلیمنٹ میں کہا ہے کہ برطانوی حکومت کسی بھی بین الاقوامی رہنما، وزیراعظم یا سربراہ مملکت پر متنازعہ ریمارکس کی حمایت نہیں کرتی۔ ویسے برطانوی حکومت بی بی سی کو کنٹرول کرتی ہے۔ کیا برطانیہ میں رہنے والے ہندوستانی نژاد لوگوں نے اس دستاویزی فلم پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے؟ لوگ اسے بھارت کے خلاف ایک بڑی سازش کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ بی بی سی نے وزیر اعظم نریندر مودی پر یہ دستاویزی فلم کیوں بنائی؟ برطانوی حکومت نے اس پورے معاملے پر کیا کہا؟ حکومت ہند کا ردعمل کیا رہا؟ ‘انڈیا: دی مودی کوشچن’ (India:The Modi Question) کے عنوان سے دو حصوں میں ایک نئی سیریز بنائی گئی ہے۔ اس کا پہلا حصہ دنیا بھر میں ریلیز کیاگیا ہے۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ابتدائی مرحلے کے سیاسی سفر کی باتیں کی گئی ہیں۔ ساتھ ہی، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ساتھ ان کی وابستگی، بی جے پی میں ان کے بڑھتے قد اور گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر ان کی تقرری پر بھی اس میں بات کی گئی ہے۔ اسے بھارت میں نشر نہیں کیا گیا لیکن بی بی سی اسے لندن سمیت دنیا کے کئی ممالک میں نشر کر رہی ہے۔ اس کا دوسرا حصہ بھی نشر کیا جا رہا ہے۔ ہندوستانی اور برطانوی اداروں کی ایک بڑی تعداد نے بی بی سی کی انتظامیہ اور ایڈیٹر کو خط لکھ کر اپنے اعتراضات کا اظہار کیا ہے۔ لوگوںکاکہناہے کہ بی بی سی جان بوجھ کر ایسا کررہی ہے۔ بی بی سی کی سوچ ہمیشہ متعصب رہی ہے۔ بی بی سی کی دستاویزی فلم ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پہلی بار ہندوستانی نژاد شخص کو برطانیہ میں وزیر اعظم منتخب کیا گیا ہے۔ رشی جب وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے تو برطانیہ کئی مسائل میں گھرا ہوا تھا۔ ایک طرف روس یوکرین جنگ تو دوسری طرف ملک میں معاشی بحران کا دور دورہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو اور بھارت مخالف طاقتیں رشی سنک کی حکومت کو کسی نہ کسی طریقے سے غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ برطانوی پارلیمنٹ میں بی بی سی کی دستاویزی فلم کا معاملہ اٹھانے والے پاکستانی نژاد رکن پارلیمنٹ عمران حسین کا تعلق لیبر پارٹی سے ہے۔
ایسے میں یہ واضح ہے کہ لیبر پارٹی اور بی بی سی کی اس دستاویزی فلم کا ہدف صرف بھارتی وزیراعظم ہی نہیں بلکہ برطانوی وزیراعظم رشی سنک ہیں۔ ہندوستان اور برطانیہ کے درمیان ایک بڑا تجارتی معاہدہ ہونے والا ہے۔ ممکن ہے کہ بی بی سی نے اس دستاویزی فلم کے ذریعہ اس تجارتی معاہدے کو روکنے کی کوشش کی ہو۔داعش دہشت گردوںکو ہیرو بنایا جا رہا ہے اور وزیر اعظم کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ بی بی سی کی سوچ پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کیونکہ کچھ عرصہ قبل اس نے دہشت گرد تنظیم داعش کی ایک دہشت گرد کی اہلیہ شمیمہ بیگم کا انٹرویو کیا تھا۔ اس انٹرویو میں بی بی سی نے دہشت گرد تنظیم داعش کے بارے میں بہت سی مثبت باتیں دکھائی ہیں۔ اس میں شمیمہ بیگم کو بے سہارا کے طور پردکھایا گیا ۔
دوسری جانب ایک دستاویزی فلم کے ذریعہ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک بھارت کے وزیر اعظم کو برا بھلاکہنے کی کوشش کی گئی۔ بھارتی وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس۔ جے شنکر کو برطانوی سفیر کو ‘ڈی مارش آرڈر’ جاری کرنا چاہیے۔ بی بی سی کی دستاویزی فلم کے بارے میں ارندم باغچی نے کہا کہ “ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک پروپیگنڈے کا حصہ ہے۔ اس میں کوئی معروضیت نہیں ہے۔ یہ جانبدارانہ ہے”۔ نوٹ کریں کہ اسے ہندوستان میں نہیں دکھایا گیا ہے۔ وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ہمارے خیال میں یہ ایک پروپیگنڈہ مواد ہے، جسے کسی خاص کہانی کو آگے بڑھانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس میں استعماری ذہنیت واضح طور پر نظر آتی ہے۔ دستاویزی سیریز میں برطانیہ کے سابق سکریٹری جیک اسٹرا کے تبصروں کا حوالہ دیتے ہوئے، باغچی نے کہا کہ ایسالگتا ہے کہ وہ (جیک اسٹرا) برطانیہ کی کسی اندرونی رپورٹ کا حوالہ دے رہے ہیں۔ یہ 20 سال پرانی رپورٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس پر یوکے حکومت کا موقف واضح اور دیرینہ رہا ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ مزید، سنک نے کہا، ‘یقینا ہم ہراسانی کو برداشت نہیں کرتے، چاہے وہ کہیں بھی ہو، لیکن میں نریندر مودی کے بارے میں جو کردار کشی کی گئی ہے اس سے بالکل متفق نہیں ہوں۔’ دوسری جانب بی بی سی نے اپنی متنازع دستاویزی فلم کا دفاع کیا۔ بی بی سی کے ترجمان نے کہا کہ یہ ایک ‘گہری تحقیق شدہ’ دستاویزی فلم ہے جس میں اہم مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ترجمان نے ایک بیان میں کہا، ‘دستاویزی فلم کی اعلیٰ ترین ادارتی معیارات کے مطابق مکمل تحقیق کی گئی ہے۔ تنقیدی طور پر یہ کہنا درست ہے کہ برطانوی سامراج کے ذریعہ برطانیہ نے دنیا بھر کے ممالک کے وسائل کو لوٹا اور اپنی تجوریوں کو بھرا۔ ہیرا پھیری برطانیہ کی ذہنیت کا مرض ہے۔ انقلابیوں نے برطانوی سلطنت کو جمہوری نظام سے اکھاڑ پھینکا۔
ہندوستان دنیا کا سب سے اہم جمہوری ملک ہے۔ ہم اپنے ملک کی اندرونی سلامتی کو سنبھالنے اور اختلافات کو دور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ 2002 کے واقعے کو پیچھے رکھتے ہوئے ہمیں آگے دیکھنا ہوگا۔ تکلیف دہ زخم بھرے نہیں جا سکتے۔ لیکن بی بی سی کی جانب سے اس کا ناجائز فائدہ اٹھا کر بھارت کی شبیہ کو خراب کرنا شرمناک ہے۔ شیم آن یو بی بی سی!
(مضمون نگار سینئر صحافی، مفکر، مدبر، تجزیہ کار، دوردرشن سالیڈیٹری فار ہیومن رائٹس سے وابستہ ہیں)
[email protected]