مغربی بنگال میں جمہوریت کشی !

0

اس میں کوئی کلام نہیں کہ ممتابنرجی مغربی بنگال میں مقبول قیادت کا دوسرا نام ہیں۔ لیکن ان کی اس مقبولیت کو ان دنوں گہن لگنا شرو ع ہوگیا ہے۔ وزیراعلیٰ ممتابنرجی اور ترنمول کانگریس کی طرز حکمرانی کے خلاف عوام کی سرگوشیاں اب بلندہورہی ہیں۔بدعنوانیوں کے بدترین داغ چھپانے کیلئے لکھی بھنڈار کے نام سے عوامی خزانہ لٹائے جانے کے باوجود حکومت کی بدانتظامی پر سنجیدہ طبقہ میں بحث شروع ہوگئی ہے۔ ترنمول لیڈروں کے سنگین اور بدترین گھوٹالے، ٹیچروں کی تقرری میں اربوں روپے کے لین دین،پی ایم آواس یوجنا میں گھوٹالہ، وزرا کی گرفتاری، کوئلہ اسمگلنگ، بالو اسمگلنگ، مویشی اسمگلنگ، قتل و غارت گری اور تشدد کے مسلسل واقعات، سی بی آئی اور ای ڈی پر زبانی حملے ایسے نہیں ہیں کہ ممتاکی محبت میں عوام ان سے صرف نظر کرلیں۔اگلے دو تین مہینوں کے درمیان پنچایت انتخابات پر ان واقعات کا سایہ ضرور پڑے گا۔یہی وجہ ہے کہ عوام کو اپنے ساتھ لگائے رکھنے کیلئے ممتابنرجی نے پارٹی کی جانب سے ’دیدی کا سرکشاکوچ‘پروگرام شروع کیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت ترنمول کانگریس کے ارکان اسمبلی اور دیگر لیڈران ’دیدی کا دوت‘ بن کر گائوں گائوں جارہے ہیں اور یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ترنمول کانگریس ان کیلئے ایک حفاظتی خول کی طرح ہے اورعوام پر آنے والی ہر مصیبت اور پریشانی اس خول سے ٹکرا کر واپس چلی جائے گی۔لیکن عوام ہیں کہ ترنمول لیڈروں کی باتوں پر یقین کرنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ گائوں گائوں جانے والے ترنمول لیڈروں کوعوا م کے احتجاج اور مزاحمت کا سامنا کرناپڑرہاہے۔کئی ایم ایل اے کو تو الٹے پائوں واپس بھی لوٹنا پڑاہے۔
دوسری طرف وزیرا علیٰ ممتابنرجی تکبر کے ہمالیہ سے ایک قدم بھی نیچے اترنا نہیں چاہتی ہیں۔ احتجاج اور عوامی مزاحمت کو وہ اپنے اور اپنی حکومت کے خلاف سازش بتاکر اسے پوری طاقت کے ساتھ کچل ڈالنا چاہتی ہیں۔جمہوریت اورا ظہار رائے کا بلند بانگ دعویٰ کرنے والی ممتابنرجی کویہ قطعی گوارا نہیںہے کہ کوئی ان کی حکومت کے خلاف احتجاج، مظاہرہ کرے یا جلوس نکالے حتیٰ کہ وہ حکومت یا ارباب حکومت پر بنائے جانے والے کارٹون، مزاحیہ خاکوں کو بھی برداشت کرنے کی روادار نہیں ہیں۔اسی ہفتہ وقوع پذیر ہونے والے دو واقعات نے یہ پھر ثابت کردیا ہے کہ ممتابنرجی کی قیادت والی ترنمول کانگریس مغربی بنگال میں قانون کی حکمرانی کے بجائے حکمرانوں کاقانون چلارہی ہے۔پہلا واقعہ ممتابنرجی کا کارٹون شیئرکرنے والے مشہور عالم جادب پور یونیورسٹی کے پروفیسر امبی کیش مہا پاترا کا عدالت سے باعزت بری ہوجانا ہے۔اس معمر پروفیسر کے خلاف ترنمول حکومت نے 2012میں آئی ٹی ایکٹ کے سیکشن 66 اے کے علاوہ مختلف دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ان 10برسوں میں انہوں نے عدالتوں کے72چکر لگائے اورآئی ٹی ایکٹ کا سیکشن 66 اے منسوخ ہوجانے کے باوجود بھی ان کا کیس جاری رہا۔ بالآخر 20 جنوری 2023کو راحت ملی اور ان کے خلاف مقدمہ ختم کر دیا گیا۔ باعزت بری ہونے پر پروفیسر مہاپاترا نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس دن کا انتظار کر رہے ہیں جب لوگ جاگیں گے اور جعلی مقدمات کا یہ دور ختم ہو جائے گا۔یہ ان کے خلاف پولیس انتظامیہ اور ریاستی حکومت کی انتقامی کارروائی تھی اور یہ مقدمہ ثابت کرتا ہے کہ بنگال میں اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی حق کو سلب کیا جا رہا ہے۔
دوسرا واقعہ مغربی بنگال میں انڈین سیکولر فرنٹ(آئی ایس ایف) کے اکلوتے ایم ایل اے نوشاد صدیقی اور ان کے جلوس پر پولیس ظلم اور گرفتاری کا ہے۔نوشاد صدیقی اپنی پارٹی کے یوم تاسیس کے موقع پر جلسہ کے دوران ترنمول کانگریس کے مبینہ مظالم کا ذکرکرتے ہوئے خاطیوں کی گرفتاری کا مطالبہ کررہے تھے۔ جلسہ کے بعد آئی ایس ایف کارکنان دھرنے پر بیٹھ گئے، تھوڑی دیر بعد اچانک پولیس نے دھرنے میں شامل پارٹی ورکرو ں پر لاٹھی چارج اور دھواں چھوڑنا شروع کردیا۔ ایم ایل اے نوشاد صدیقی کاکہنا ہے کہ انہیں پولیس گھسیٹتے ہوئے وین میں لے گئی اورا ن کے خلاف ناقابل ضمانت دفعات کے تحت مقدمہ درج کرکے داخل زنداں کردیا۔ایم ایل اے نوشاد صدیقی تقریباًایک ہفتہ سے قید ہیں اور اس دوران پولیس دھرنا میں شامل آئی ایس ایف کے کارکنوں کو ان کے گھروں سے پکڑ پکڑ کر لارہی ہے اور جیل میںٹھونس رہی ہے۔
حکمران کی ناانصافی و مظالم کے خلاف مضبوط عوامی تحریک اور حزب اختلاف کا سرگرم کردار جمہوریت کا لازمہ ہے۔ آئی ایس ایف کا دھرنا بھی جمہوریت میں اپنا مطلوبہ کردار ادا کررہا تھا لیکن ممتا حکومت بنگال کو ’اپوزیشن مکت‘ دیکھنا چاہتی ہے۔ منتخب نمائندہ کے ساتھ پولیس کا زدو کوب، گرفتاری، دھرنا میں شامل کارکنوں کو اضلاع سے ڈھونڈڈھونڈکر گرفتار کرنا یہی بتارہا ہے۔بات بات میں جمہوریت کی دہائی دینے والی ممتا حکومت کا یہ عمل کھلی جمہوریت کشی اور ناقدین پر طاقت کا ناجائزاستعمال ہے۔اس سے پہلے بھی کئی ایسے واقعات ہوچکے ہیںجنہیں سامنے رکھتے ہوئے پروفیسر مہاپاتراکے اس الزام کی تردید مشکل ہے کہ بنگال میں جمہوریت پامال اور اظہار رائے کا بنیادی حق سلب ہوگیا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS