زین شمسی
جمیل جالبی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ وہ شخص جسے اپنے ملک ، اپنی سرزمین سے محبت نہ ہو وہ کوئی تحقیقی یا فکری کام کر ہی نہیں سکتا۔ ادیب کے مزاج میں تو ہمیشہ اس کا ملک، اس کے لوگ اور ان کی اتھاہ محبت کا جذبہ غیر شعوری طور پر موجود رہتا ہے۔وہیں ایک جگہ رابندر ناتھ ٹیگور نے کبھی کہا تھا کہ ادیبوں کو انسانوں سے مل کر انہیں پہچاننا چاہیے۔ میری طرح گوشہ نشیں رہ کر ان کا کام نہیں چل سکتا۔ میں نے ایک مدت سے سماج سے الگ رہ کر اپنی ریاضت میں غلطی کی۔اب میں اسے سمجھ گیا ہوں اور یہی وجہ ہے کہ آج یہ نصیحت کر رہا ہوں۔ اگر ادب انسانیت سے آہنگ نہ ہوا تو وہ ناکام و نامراد رہے گا۔
پریم چند سے لے کر انتظار حسین تک اور خسرو سے لے کر مجاز تک اردو ادب نے اسی انسانی روابط و رشتوں کی پاسداری کی ہے۔ دراصل اردو کے تمام ادبا و شعرا بھارت میں جمہوریت آنے سے قبل ہی جمہوریت کے قائل تھے۔ چونکہ جمہوریت اور ادب دونوں اصول امید پر قائم ہیں۔ امید ہے تو جدوجہد ہے ، جدوجہد ہے تو زندگی ہے اور زندگی ہے تو کبھی نہ کبھی مسرت کا امکان باقی ہے۔سوچنے کی بات صرف یہ ہے کہ ہم نے اردو ادب کے ذخیرے میں سب کچھ تلاش کیا، کسی کہانی میں ہم نے اشتراکیت کی تلاش کی تو کسی میں نفسیاتی پہلوئوں کوڈھونڈا ، کسی میں انسانیت ، لیکن ہم نے ادب میں جمہوریت کی تلاش کبھی نہیں کی۔ تنقید کو بھی سیاسی نظریہ سے کبھی سروکار نہیں رہا۔ اس لیے سیاسی تنقید بھی ادب میں فروغ نہیں پا سکی، ہاں سماجی تنقید کے حوالہ سے باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ جب تک ادب لوگوں کے نظریوں کے ساتھ نہیں جڑے گا، ادب کا اپنانظریہ قائم نہیں ہوگا۔
اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آخر بھارت میں نظام حکومت کے لیے جمہوری نظریہ کو ہی کیوں منتخب کیا گیا۔ کیا یہ یکایک ہوا ، یا اس کا خمیر بہت پہلے سے تیار تھا۔ اس کے لیے ہمیں دو چیزوں کو دیکھنا ہوگا۔ سب سے پہلے جمہوری حکومت کے قیام کے بعد آئین کا نفاذ اور سب سے ضروری اس کی تمہید، جس میں صاف کہہ دیا گیا کہ باہمی بھائی چارگی، جس میں ہر فرد کی عظمت اور قوم کے اتحاد کا تیقن ہو، وہی بھارت کی روح ہے۔باقی یہ سب کو پتہ ہے کہ ہمارا آئین دنیا کا سب سے طویل آئین ہے جس میں مذہبی آزادی اورحقوق انسانی کوخاصی اہمیت دی گئی ہے۔
گویا اس سر پیش لفظ نے یہ واضح کر دیا کہ ہندوستان کو سب سے زیادہ ضرورت کس چیز کی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ اچانک نہیں ہوا ہوگا۔اگر اچانک ہوا ہوتا تو تقسیم ہند کے بعد جس طرح پاکستان مملکت خداداد بنا تو بھارت ہندو راشٹر بن گیا ہوتا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اگر اس کے پس منظر میں جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ بھارت میں جمہوری حکومت ہی وہ منزل تھی، برسہا برس سے یہاں کا مشترکہ سماج جس کی داغ بیل ڈال چکا تھا۔
خواجہ معین الدین چشتی، بابا فرید شکر گنج ،گرونانک ، سنت تکا رام، میرا بائی، خسرو اور کبیر نے بھائی چارگی ، محبت ، اخوت ، رحم دلی اور امن و آشتی کا ایسا پیغام دے دیا تھا کہ بھارت کو بعد میں اسی راہ پر چلناہی تھا۔ان کے نظریہ کا ہی نتیجہ ہے کہ آج بھارت کثرت میں وحدت کا نظریہ لے کر پھل پھول رہا ہے۔
اسی لیے یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ جب ہم جمہوری نظریہ اور ادب کی بات کرتے ہیں تو یہ واضح طور پر ایسا ہی ہے کہ جیسے بھارت نے ادب کے جمہوری نظریہ کو معاشرہ پر حکومتی فعل سے مسلط کر لیا ہے۔ یعنی ادب نے جو راستہ دکھایا، اسی راستہ پر عوامی حکومت کی بنیاد کھڑی ہوئی۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں، ادب ہی سماج کا آئینہ نہیں ہوتا بلکہ سماج بھی ادب کا آئینہ ہوتا ہے۔
ملک کی تہذیبی و ثقافتی عظمت ، سیاسی و سماجی پس منظر ، قدرتی ، جغرافیائی اور تعمیراتی حسن، مذہبی رسومات ، قومی و ملی رہنمائوں کا ایثار و قربانیاں اور ان کے جذبہ عشق کا نتیجہ ہے بھارت کی جمہوریت۔
یہی جمہور ہے جس نے وطن کو صدیوں کی غلامی سے نجات دلائی اور یہی وہ جمہوریت ہے جس کے ہاتھوں میں وطن کی سالمیت اور بقا ہے۔
ڈکٹیٹر شپ یا آمریت پسندی میں سنسر ہے۔ جہاں تخلیق پائیدار نہیں ہوسکتی۔ جمہوریت اظہار آزادی دیتی ہے، اس لیے تخلیق کاروں کے لیے یہ جنت نشاںہے۔
جمہوریت کی آسان لفظوں میں تعریف تویہی ہوگی کہ انسان خود بھی زندہ رہے اوردوسروں کو بھی زندہ رہنے کا تمام تر موقع فراہم کرے۔ زندگی تمام بندشوں سے آزاد ہو اور ساتھ ہی انسان کو فکری و عملی سطح پر آزادی حاصل ہو۔ سماج میں اخوت ، محبت ، بھائی چارہ اور مساوات کو فروغ دیا جائے اور ایک ایسے سماج کی تعمیر و تشکیل ہو جو مذہبیت ، نسل اور ذات پات کی تفریق سے آزاد ہو۔جمہوریت جس بات کا تقاضہ کرتی ہے وہ راستہ اردو ادب نے اپنے وجودکے ساتھ ہی اختیار کرلیا تھا۔ اردو کو یہ کمال حاصل ہے کہ اس کی بنیاد میں ہی جمہوریت ہے۔دنیا کے تمام مذاہب کے لوگوں نے اس میں اپنی تصنیفات درج کی ہیں۔ ایسی شاید ہی کوئی زبان ہوگی جسے بلاتفریق مذہب و نسل نے اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔ ایسا اس لیے ممکن ہوا کہ اردوہندواور مسلمان دونوں کے لیے اپنے آباو اجدا د سے ایک مشترک و مقدس ترکہ کی حیثیت میں ملی ہے جو قطعاً ناقابل تقسیم ہے یعنی اردو زبان و ادب تہذیبی وحدت کی علامت ہے۔یہ جدید ہندوستانی زبانوں میں تقریباً تنہا زبان ہے جو شروع سے ہی سیکولر لہجہ کو اپناتی رہی ہے ،اس کا آغاز ٹھیٹھ مذہبی ادب سے نہیں ہوتا۔ اس کے رشتے کسی مخصوص علاقے کے دائرہ میں محدود ہونے کے بجائے کل ہند سطح پر بکھرے اور پھیلے نظر آتے ہیں۔ دراصل اردو ادب سیکولرازم کے ادبی و لسانی روپ کا ہی دوسرا نام ہے۔ جیو اور جینے دو کی تحریری شکل ہے۔گویابھارت میں جمہوریت اس لیے بھی پروان چڑھ پائی کہ اردو زبان و ادب نے اس کے لیے بہت پہلے سے ذہن سازی کی تھی۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]