ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ
اسلام سے پہلے بیوہ عورت سماج میں محرومی کا شکار تھی۔ اسے کوئی عزت ووقعت حاصل نہ تھی۔ وہ اپنے شوہر کی وفات کے بعد بقیہ زندگی نہایت تکلیف ومصیبت میں بسر کرتی۔ یہودیوں کے یہاں بیوہ عورت اپنے شوہر کے بھائی کی ملکیت ہوجاتی تھی، وہ جس طرح چاہتا اسے رکھتا اور جو چاہتا اس کے ساتھ سلوک کرتا۔ کوئی اس کی داد رسی نہیں کرسکتا تھا۔ عیسائی مذہب نے بھی بیوہ عورت کے لیے کوئی مثبت ہدایت نہیں دیں۔ ہندوسماج میں تو شوہر کی وفات کے بعد بیوہ کو جینے کا حق ہی نہیں تھا اور وہ شوہر کی چتا میں زندہ جل کرستی کی رسم پورا کرنا اپنا مذہبی فرض سمجھتی تھی۔ وہ اگر زندہ بھی رہتی تو پوری زندگی اپنے شوہر کے سوگ میں گزارتی ۔اسے زیب وزینت یادنیا کی لذتوں سے لطف اندوز ہونے کا کوئی حق نہ تھا۔ عربوں میں بھی بیوہ کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا تھا۔ شوہر کی وفات کے بعد بیوہ شوہر کے وارثوں کی ملکیت میں آجاتی اور وہ جیسا سلوک چاہتے اس کے ساتھ کرتے ۔ اس سے مہر معاف کراتے۔ طرح طرح اسے ستاتے۔ اسے اپنی مرضی سے دوسری شادی نہیں کرنے دیتے۔
حضرت محمد ؐ مبعوث ہوئے تو بیوہ کے برے دن اچھے دنوں میں بدل گئے۔ آپؐ نے نہ صرف بیوہ عورت کو سماج میں باعزت مقام دلایا۔ اس کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی بلکہ اپنے عمل سے بیوہ کو وہ شان وعظمت عطا کی جس کا تصور بھی عربوں میں نہیں کیا جاسکتا تھا۔ آپؐ نے پچیس سال کی عمر میں جبکہ آپ کے دلولے جوان تھے۔ خوبصورت سے خوبصورت عورت آپؐ کے پیغام کو قبول کرسکتی تھی۔آپؐ نے چالیس سالہ ادھیڑ عمر کی بیوہ سے شادی کرکے جاہلانہ رسموں کے خلاف عملی قدم اٹھایا حالانکہ اس عمر میں ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ کم سن عورت سے شادی کرے۔آپؐ کی دوسری ازواجِ مطہرات میں بھی بڑی تعداد بیوائوں کی ہے۔
کسی عورت کے لیے اس سے زیادہ آزمائش اور مصیبت کوئی نہیں ہوسکتی کہ اس کا شوہر اس سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوجائے۔ شوہر کی وفات سے بیوی کوصرف جذباتی صدمہ ہی نہیں پہنچتا بلکہ اس کے سامنے مسائل کا ایک ہجوم منڈلانے لگتاہے۔کل تک جو شخص اس کی اور اس کے بچوں کی تمام ضروریات پوری کرتا تھا ،اس کے دکھ درد میں شریک ہوتاتھا، ہرآڑے وقت میں اس کا سہارا بنتا تھا ، اس کی عزت وعفت کی حفاظت کرتاتھا، جس کے دیکھتے ہی اس کا دل خوشیوں سے بھر جاتاتھا، جو گھر کی رونق تھا، جو تمام اخراجات اور حادثات کے وقت اس کا تنہا سہارا تھا ، اس کے انتقال سے عورت پر جو گزرتی ہے اس کا اندازہ صرف بیوہ ہی لگا سکتی ہے۔
اس مظلوم اور مصیبت زدہ عورت کے ساتھ ہمیشہ حسنِ سلوک کیجئے۔ ایک یتیم بچہ جس طرح اپنے باپ کی وفات سے بے سہارا ہوجاتا ہے ، اسی طرح بیوہ اپنے شوہر کی وفات سے بے سہارا ہوجاتی ہے۔دونوں کی مصیبتوںاورپریشانیوں میں یکسانیت ہے۔ چنانچہ اسلام نے یتیم کی کفالت کرنے پر جس طرح جنت کی خوشخبری سنائی اور آنحضور ؐنے یتیم کی کفالت کرنے والے کے بارے میں فرمایا کہ میں اور وہ ان دونوں انگلیوں کی طرح جنت میں ہوں گے۔ اسی طرح بیوہ عورت کے مسائل حل کرنے والے کے سلسلے میں بھی ارشاد فرمایا کہ وہ اور میںجنت میں دوانگلیوں کی طرح قریب قریب ہوں گے۔
پیارے نبی ؐنے ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا:
’’بیوہ اورغریب کی خاطر دوڑ دھوپ کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جو راہِ خدا میں جہادکرتا ہے اور اس شخص کی طرح ہے جو دن کو روزہ رکھتا اور رات کو نماز پڑھتا ہے۔‘‘(بخاری)
بیوہ کاپہلا حق یہ ہے کہ اس کے شوہر کے ترکہ میں سے اسے مقررہ حق دلایا جائے۔ اگر شوہر نے اولاد چھوڑی ہو تو بیوہ کوترکہ کا آٹھواں حصہ دلایا جائے اور اگر اولاد نہ چھوڑی ہوتو کل ترکہ کا چوتھائی حصہ دلایا جائے۔ آج کل ہندوستان میں یہ رواج عام ہوگیا کہ مرد جو بھی ترکہ چھوڑتا ہے اس کو نرینہ اولاد آپس میں تقسیم کرلیتی ہے اورعورت کو وراثت کی تقسیم میں شریک نہیںسمجھا جاتا ہے حالانکہ ترکہ کو اسلامی تعلیمات کے مطابق تقسیم کیا جائے ورنہ تمام مال حرام ہوجاتاہے۔ لڑکی ،بیوی،ماں،بہن سب کے حصے پورے پورے دیے جائیں۔
اگر شوہرنے مرنے سے پہلے مہر ادا نہیں کیا ہے تو سب سے پہلے ترکہ میں سے بیوہ کو اس کا مہر دلایا جائے۔اسی طرح اگر شوہر اپنی بیوی کے لیے کوئی وصیت کرگیا ہے تو ترکہ کے ایک تہائی مال تک اس کی وصیت کو پورا کیا جائے۔
بیوہ کا دوسرا حق یہ ہے کہ اس کی کفالت کا فوراً نظم کیا جائے۔ اگر اسلامی حکومت ہے تو اس کے اخراجات اور کفالت کی ذمہ دار ہے۔اگر اسلامی حکومت موجود نہ ہو تو مسلم معاشرہ اس کے ساتھ حددرجہ ہمدردی کرے۔ اس کی ضروریات کا خیال رکھے۔ جب تک وہ دوسرا نکاح نہیں کرلیتی۔ اس وقت تک مسلم معاشرہ بہتر انداز سے اس کی کفالت کرے۔
حضرت زید بن اسلم ؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن خطابؓ کے ساتھ بازار کی طرف گیا۔ وہاں ایک عورت ملی اور حضرت عمرؓ سے مخاطب ہوکربولی:’’اے امیرالمومنین میرے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے ،وہ چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ گیا ہے۔خدا کی قسم ان کے پاس بکری کا ایک پایہ بھی نہیں ہے، جسے وہ پکاسکیں۔ نہ ان کے پاس کھیتی ہے نہ دودھ دینے والا جانور۔ میں ڈرتی ہوں کہ کہیں قحط انہیں ہلاک نہ کردے۔ میں خفاف بن ایماء کی بیٹی ہوں۔میراباپ حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ ؐکے ساتھ تھا۔ حضرت عمرؓ ان کے پاس ٹھہر گئے اور آگے نہ بڑھے اور فرمایا: ’’تیرا نسب تو میرے نسب سے ملتا جلتا ہے۔‘‘ پھر آپ ایک طاقتور اونٹ کی طرف آئے جو گھر میں بندھا ہوا تھا اس پر دو بوریاں رکھیں اور انہیں اناج سے بھر دیا۔ ان کے درمیان نقدی اور کپڑے رکھ دیے پھر اس کی رسّی عورت کے ہاتھ میں دے دی اورفرمایا:’’اسے لے جائو یہ ختم ہونے سے پہلے اللہ تمہیں اس سے بہتر عطاکردے گا۔ ایک آدمی نے(یہ دیکھ کر) کہا کہ اے امیرالمومنین آپ نے اس عورت کو بہت دے دیا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا:’’تیری ماں تجھے کھوئے خدا کی قسم میںنے اس کے باپ اوربھائی کو دیکھا کہ انہوںنے ایک مدت تک ایک قلعہ کامحاصرہ کیے رکھا یہاں تک کہ اسے فتح کرلیا۔‘‘ (بخاری)
بیوہ کا تیسرا حق یہ ہے کہ عدت پوری ہوجانے کے بعد اسے سوگ اور ماتم سے نجات دلائی جائے۔ اس کے رنج وغم کو بھلانے کے لیے بہتر سے بہتر طور طریقے اختیار کئے جائیں۔ جائز حدود میں اسے زیب وزینت اور آرائش وسنگھار کرنے کا حق دیا جائے۔
بیوہ کاچوتھا حق یہ ہے کہ عدت پوری ہوجانے کے بعد اس کے نکاح ثانی کا انتظام کیا جائے۔آج کل ہمارے معاشرہ میں بیوہ سے نکاح کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ بھی ایک اہم سنت ہے جس کی طرف مسلمانوں کو فوری توجہ کرنی چاہیے۔ دوراول میں اسلامی معاشرہ میں بیوائوں سے شادی کرنے کوبڑے اجر کا کام سمجھا جاتا تھا اور اس سے مسلم معاشرہ بہت سے مسائل سے دوچار ہونے سے بچ جاتا تھا۔ کسی بیوہ سے نکاح کرکے اس کی اور اس کے بچوں کی کفالت کرنا عظیم نیکی ہے جس کے حصول پر ہر مسلمان کو سعادت محسوس کرنا چاہیے۔ خود کسی بیوہ سے نکاح کرکے اس نیکی وسعادت کو حاصل کیجئے یا اس کا نکاح کسی مناسب شخص سے کراکر حکم خداوندی کی تعمیل کیجئے یا اس سلسلے میں جو بھی خدمت انجام دے سکتے ہوں اسے ضرور انجام دیجئے۔ قرآن پاک میں حکم دیاگیا ہے۔(ترجمہ) ’’اپنی بیوہ عورتوں اور رنڈوے مردوں کے نکاح کردو۔‘‘
بیوہ کاپانچواں حق یہ حاصل ہے کہ وہ اپنا نکاح کرنے کا پورا اختیار رکھتی ہے۔ اس کے میکے یا سسرال کے لوگ اسے نکاح کرنے یا نہ کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے۔ ہاں اسے مشورہ ضرور دے سکتے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں پوری طرح آزاد ہے کہ کس سے نکاح کرے اور کس سے نکاح نہ کرے۔ جن علماء کے نزدیک کنواری لڑکی کے لیے ولی کی اجازت ضروری ہے ان کے نزدیک بھی بیوہ کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں۔ بیوہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے نکاح کے سلسلے میں مکمل خود مختار ہے۔
اگر بیوہ عورت ننھے منے بچے رکھتی ہے اور وہ ان کی پرورش کی خاطر کوئی دوسرا نکاح نہیں کرتی اور یہ سمجھتی ہے کہ دوسرا نکاح کرنے سے ان بچوں کی پرورش متاثر ہوگی اور وہ ان بچوں کی پرورش کے لیے محنت کرتی ہے تو یہ بڑے اجر وثواب کا کام ہے۔ نبی کریم ؐنے ایسی بیوہ کی عظمت ایک واقعہ کی صورت میں یوں بیان فرمائی۔’’قیامت کے دن میں سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھولوں گا تو دیکھوں گا کہ ایک عورت مجھ سے پہلے جنت میں جانا چاہتی ہے۔میں پوچھوں گا تو کون ہے؟ تو وہ کہے گی کہ میں ایک بیوہ عورت ہوں جس کے چند ننھے یتیم بچے تھے۔‘‘
(مسند ابویعلی بحوالہ سیرت النبی، سید سلیمان ندویؒ)
آپؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:’’میں اور وہ عورت جو اپنے بچوں کے لیے محنت ومشقت کی وجہ سے کالی پڑجائے، جنت میں ان دوانگلیوں کی طرح قریب قریب ہوں گے ،وہ حسن وجمال اور عزت وجاہ والی عورت جو شوہر کے مرنے کے بعد بیوہ ہوجائے لیکن اپنے ننھے منے یتیم بچوں کی خاطر اپنے کو روکے رکھے یہاں تک کہ وہ اس سے الگ ہوجائیں یا وفات پاجائیں۔‘‘ ابودائود)
qqq