ہندوستان میں بڑھتے عدم مساوات کے تعلق سے تازہ انکشافات نے اچھے دنوں کے تمام خواب چکناچور کردیے ہیں۔ آکسفیم انٹرنیشنل نے ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس کے پہلے دن ہندوستان کے حوالے سے اپنی سالانہ عدم مساوات کی رپورٹ جاری کی ہے۔اس رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ہندوستان کی سب سے امیر ترین 1 فیصد آبادی ملک کی کل دولت کے 40 فیصد سے زیادہ پرقابض ہے جب کہ آبادی کے نچلے حصہ کی دولت میں شراکت داری فقط3فیصد ہے ۔
آکسفیم انٹرنیشنل ایسی21 آزاد خیراتی تنظیموں کا وفاق ہے‘ جو 90 سے زیادہ ممالک میں شراکت داروں اور مقامی کمیونٹیز کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے ۔اس کا مقصد غربت پیدا کرنے والی ناانصافی کو ختم کرنا ہے۔اس کے اہداف میں لوگوں کو غربت سے نکالنے اور انہیں خوشحال بنانے کیلئے عملی اور اختراعی ذرائع سے کام کرتے ہوئے بحران کے وقت زندگیاں بچانے اور معاش کی تعمیر نو میں مدد کرنا شامل ہے ۔
’سروائیول آف دی ریچسٹ: دی انڈیا اسٹوری‘ کے دلچسپ عنوان سے آکسفیم انٹرنیشنل کی اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیاہے کہ ہندوستان میں معاشی عدم مساوات ایک بار پھر بری طرح بڑھ گئی ہے۔ دو سال قبل 2020 میں ملک میں 102 ارب پتی تھے جو 2022 میں بڑھ کر 166 ہو گئے۔ رپورٹ کے مطابق ملک کے ایک فیصد امیر ترین افراد کے پاس ملک کی کل دولت کا 40 فیصد سے زائد ہے جب کہ نچلے حصے کی آبادی کے پاس صرف 3 فیصد دولت ہے۔ہندوستان کے 100 امیر ترین افراد کی کل دولت 54 لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے ۔یہ رقم ہندوستان کے کل سالانہ بجٹ کا دیڑھ گنا سے بھی زیادہ ہے۔ 10 امیر ترین ہندوستانیوں کے کل اثاثے 27 لاکھ کروڑ روپے ہیں۔ یہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 33 فیصد زیادہ ہیں۔ یہ کل اثاثہ صحت اور آیوش کی وزارتوں کے 30 سال کے بجٹ‘ وزارت تعلیم کے 26 سال کے بجٹ اور منریگا کے 38 سال کے بجٹ کے برابر ہے۔اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ اگر ملک کے فقط10امیر افراد پرصرف 5فی صد ٹیکس عائد کردیا جائے تو ملک بھر کے بچوں کو دوبارہ اسکول میں داخل کرنے اوران کی تعلیم کا پورا خرچ حاصل کیاجاسکتا ہے۔ اگر ہندوستان کے ارب پتیوں پر ایک بار ان کی پوری دولت پر صرف 2 فیصد کی شرح سے ٹیکس لگایا جاتا ہے تو اس سے اگلے تین برسوں تک ملک میں غذائی قلت کے شکار لوگوں کی تعداد میں کمی آئے گی۔ غذائیت کیلئے 40,423 کروڑ روپے کی ضرورت کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ ملک کے 10 امیر ترین ارب پتیوں پر 5 فیصد (1.37 لاکھ کروڑ روپے) کا یک وقتی ٹیکس وزارت صحت اور خاندانی بہبود (86,200 کروڑ روپے) اور وزارت آیوش (3,050 کروڑروپے) کے تخمینہ بجٹ سے 1.5 گنا زیادہ ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کارپوریٹ ٹیکس کو 2019 میں کم کیا گیا تھا اور سال 2021 میں کارپوریٹ گھرانوں کو چھوٹ اور مراعات کی شکل میں 1,03,285 کروڑ روپے کا فائدہ ملا تھا اور ہندوستان میں ارب پتیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ۔
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں آئی ہے جب حکومت بجٹ بنانے کی تیاریوں کے آخری مرحلہ میں ہے اور صنعت کاروں و سرمایہ داروں سے مشورے ہورہے ہیں، تجاویز طلب کی جارہی ہیںتاکہ ان کے منافع کمانے کے امکانات کو مزید بڑھایا جائے۔ کیا ہی بہترہوتا تو کہ آکسفیم کے ان اعدادوشمار کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت کوئی ایسا بجٹ بناتی جسے ’سروائیول آف دی پوئریسٹ‘کے طور پر فخر سے پیش کیا جاتا۔ آکسفیم نے بھی مرکزی وزیر خزانہ سے اپیل کی ہے کہ وہ بجٹ میں پراپرٹی اور دیگر ٹیکسزکے معاملے میں مساویانہ قدم اٹھائیں تاکہ اس ہمالیائی تفاوت کو ختم کیا جاسکے۔ مگر ایسا ہونے کا امکان معدوم ہی ہے کیوں کہ حکومت آکسفیم کو پسند نہیں کرتی کیوں کہ یہ ادارہ ملک کی بہت سی این جی اوز کو فنڈ فراہم کرتا ہے اور یہ این جی اوزہندوستان کے دلتوں، قبائلیوں اور خواتین کی بہتری کیلئے کام کررہے ہیں۔اپنی ناپسندیدگی کا برملا اعلان کرتے ہوئے حکومت ان پر ماضی میں ایف سی آر اے کے تحت بہت سی پابندیاں بھی لگاچکی ہے۔ویسے بھی حکومت ملک میں غربت‘ مہنگائی اور بے روزگاری کے ہر دعویٰ کو اب تک مسترد کرتی رہی ہے ۔نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور لاک ڈاؤن جیسے مہلک فیصلوں کو طرح طرح کے اعداد و شمار کے ذریعہ جائز قرار دیا جاتا ہے جنہوں نے عام آدمی کی کمر توڑ رکھی ہے ۔
اب یہ نئی حقیقت بھی کھل کرسامنے آگئی ہے کہ حکومت کی ناقص پالیسی کی وجہ سے ہی ملک میں امیروں کی دولت اور غریبوں کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے۔
[email protected]
ہمالیائی تفاوت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS