گزشتہ 9 برسوں کے درمیان ملک کی معاشی کمرٹوٹ گئی ہے۔ درآمدات میں دیوہیکل اضافہ زرمبادلہ کے ذخائر پر ناقابل برداشت بوجھ بن رہا ہے۔ صنعتی پیداوار کا گراف تیزی سے نیچے کی جانب آرہا ہے۔ مہنگائی بے قابو عفریت کی طرح غریبوںکی زندگی کو نگلتی جارہی ہے۔ بے روزگاروں کی تعداد ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔یہ سب ایسے مسائل ہیں جو کسی بھی ملک اوراس کی قیادت کیلئے تشویش کا باعث ہونے چاہئیں تھے اور ان پر سر جوڑ کر غور و فکر کے بعدکوئی قابل عمل پالیسی بنائی جانی چاہیے تھی لیکن جب ترجیحات ہی بدل جائیں تو ترقی، معاشی خوشحالی اور استحکام کے معنی بھی بدل جاتے ہیں۔ نہ بے روزگاری کا عفریت نظرآتاہے نہ مہنگائی کے سیل رواں میں ہاتھ پائوں مارتے ہوئے غریب عوام نظر آتے ہیں نہ ناقص غذاکی وجہ سے دم توڑتے نومولود، نہ بلکتی ہوئی حاملہ خواتین نظر آتی ہیں نہ علاج سے محروم بیمار ہی دائرہ بصارت میں رہتے ہیں۔ شہریوں میںمذہبی شدت پسندی کاسلو پوائزن اتارنے اور نفرت بونے کا ایک مسلسل عمل شروع کردیا جاتا ہے تاکہ اس کی کاشت پر بالادستی اور اقتدار کی فصل اتاری جاسکی ہے۔
2024کے عام انتخابات سے قبل اقتدار کی اس فصل کو طرح طرح سے کھاد بھی دیا جانے لگا ہے،دو ماہ قبل یہ خبرآئی تھی کہ ملک کے سائنس دانوں کو اس کام پر لگایا گیاہے کہ وہ ایک ایسا آئینہ بنائیں جس سے منعکس ہوکر سورج کی روشنی کی پہلی کرن ایودھیا کے رام مندر میں نصب رام کی مورتی پر پڑے، پھر خبرآئی کہ بسنت پنچمی کے دن سے ملک میں نئی تاریخ پڑھائی جائے گی، اس سے قبل لوگ ویدک ریاضی اور دیومالائی قصے کہانیوں کو شامل نصاب بنانے کی کوشش بھی دیکھ چکے ہیںاور اب ہندو مذہب کی رسومات کواعلیٰ تعلیم میں شامل کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔چند یوم قبل ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم کے نگراںادارہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یوجی سی)نے ملک بھر کی یونیورسیٹیوں اور کالجوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ اپنے اپنے یہاں مکر سنکرانتی کا تہوار منائیںاور اس کے ثبوت و شواہد ’تصاویراور ویڈیو ز‘ کی شکل میں متعلقہ مرکزی پورٹل پر اپ لوڈ بھی کریں۔ مکر سنکرانتی ملک کی مختلف ریاستوں میں الگ الگ ناموں سے منائی جاتی ہے کہیں پونگل تو کہیں لوہری، کہیں بیہو، کہیں مکرات، کہیں پتنگ بازی تو کہیں شیشو سنکرانتی اور پوش سنکرانتی کے نام سے منائی جاتی ہے۔کئی ریاستوں میں یو جی سی کے اس حکم کی تعمیل بھی ہوئی۔ یونیورسٹی اور کالجوں میں یہ تہوار منایا گیا اور اس کی تصاویراور ویڈیو بھی یو جی سی کو بھیجی گئیں تاکہ سند رہے اوروہ بوقت ضرورت کام آئے۔چند ایک ریاستوںنے اس فیصلہ کو ماننے سے انکار بھی کردیا مگر مجموعی طور پرحکم کی تعمیل کا تناسب عدم تعمیل سے کئی گنا زیادہ اور یوجی سی کیلئے قابل اطمینان ہے۔
مگر یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ مکر سنکرانتی کے اس تہوار اور پتنگ بازی کا اعلیٰ تعلیم سے کیا تعلق ہے۔یو جی سی کا کہنا ہے کہ یہ ’ایک بھارت-سریشٹھ بھارت ‘(ای بی ایس بی) کی سمت ایک پہل ہے تاکہ کثیر النوع ثقافتی پس منظر رکھنے والے طلبا کو ایک مشترکہ تہوار کے سنگم پر لایا جاسکے اور وہ ایک دوسرے کے مزاج آشنا ہوکر ملک کی تعمیر و ترقی میں مثبت کردار داکریں۔ یوجی سی کی ایک بونگی دلیل اس اقدام کے مقصد کی پردہ پوشی سے قاصرہے اور یہ کھلاہوا محسوس ہورہاہے کہ اعلیٰ تعلیم میں ’مذہب ‘ کا افیون بلکہ زہر ملایاجارہاہے۔یہ ممکن نہیں کہ یوجی سی، حکومت اوراس کے وزرااپنے اس اقدام کے مضمرات سے ناواقف ہوں اور یہ نہ سمجھتے ہوں کہ اکیسویں صدی میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقی کے دوران اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مذہبی عقائد کے مطابق رسومات کی ادائیگی کاپابندکیاجانا تعلیم کاکھلواڑ اور ملک کو پیچھے کی جانب لے جانا ہے مگراس کے باوجود انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ اپنے اقدام کی تاویل بھی کررہے ہیں۔مرکزی وزیرمملکت برائے تعلیم سبھاش سرکار اسے میلہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میںیہ ایک میلہ کی طرح ہے جب دوسری جگہوں پر میلہ لگ سکتا ہے تو کالجوں اوریونیورسیٹیوںمیں کیوں نہیں ؟
یہ درحقیقت ’ ایک بھارت- سریشٹھ بھارت‘ کے پردہ کو ملک کے ثقافتی اور مذہبی تنوع کو ختم کرکے اسے بھگوایا ہندو راشٹر بنانے کی گہری سیاست کی حکمت عملی ہے اوراس کے خلاف ملک کے تمام سیکولر افرادخاص کر اقلیتوں کو سامنے آناچاہیے۔ مغربی بنگال میں وزیرتعلیم براتیہ باسو اور دیگر ماہرین تعلیم نے بجا طور پر کہا ہے کہ مکر سنکرانتی بنیادی طور پر ایک ہندو مذہبی تقریب ہے۔ ہندوستان جیسے کثیر لسانی اور ثقافتی طور پر متنوع ملک میں مکر سنکرانتی منانے سے ثقافتی بندھن کیسے بنے گا، سمجھ سے باہر ہے۔اگرایسا ہی ہے تو طلبا کو ہرسال 25دسمبر کو چرچ جانے اور ذی الحجہ میں حج پر جانے کیلئے بھی یو جی سی کو ہدایت جاری کرنی چاہیے۔
[email protected]
یوجی سی اور مکر سنکرانتی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS