فرقت کاکوروی :داغ مفارقت کوکہاں تک نہ روئیے

0
فرقت کاکوروی :داغ مفارقت کوکہاں تک نہ روئیے

رانا ثریا ؔ

ظرافت نگاری ایک مشکل فن ہے ذرا سی لغزش سے ظرافت ابتذال تک پہنچ جاتی ہے ۔ فرقت کاکوروی ظرافت اور متانت میں توازن رکھنے کا خاصی سلیقہ تھا ۔ وہ نہ صرف شوخ طبع تھے بلکہ نکتہ فہم اور نکتہ سخن بھی تھے ان کی شہرت ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں تھی ۔ غرضِ فرقت صاحب بلاشبہ طنز ومزاح کے دریا کے عظیم شناور تھے ۔ وہ تحریر میںسادگی اور لوچ سے کام لیتے تھے۔
ایک بیٹی کے لیے اپنے والد کے بارے میں لکھنا۔ بہت مشکل کام ہے۔ بیان کے لیے ایک زبان ہوتی ۔ ہر بیان کے لیے ایک زبان ہوتی ہے ۔ اور ہر زبان کے لیے ایک جدا گانہ قوت گویائی کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے میری زبان ہر اس حقیقت کے بیان سے عاجز اور قاصر ہے جس کا اظہار اس وقت ضروری ہے ۔
مجھ سے مرے ماضی کا پتہ پوچھنے والو
پگھلا ہوا شیشہ مرے کانوں میںنہ ڈالو
بہر حال کوشش کررہی ہوں کہ ماضی کی راکھ سے کچھ چنگاریاں چن کر ماضی کے اوراق کو الٹ پلٹ کر یہ تحریر نامہ مرتب کرسکوں ۔
آدیکھ مجھ سے روٹھنے والے ترے بغیر
دن بھی گزرگیا مری شب بھی گزرگئی
مرے والد غلام احمد فرقت جن کو میں ہمیشہ سے بھائی صاحب کہتی تھی اور وہ مجھے مرحوم اپنا کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ لکھتے ہوئے انہیںآج قلم کانپ رہا ہے ۔
۱۲؍ جنوری کی وہ منحوس گھڑی میں کا لج سے واپس لوٹ آئی تو ڈاکیہ کی آواز آئی ہم۔ اس نے کہا کہ تار ہے ۔ دل نے سوچا کے شاید کسی مشاعرہ کی اطلاع کا تار ہوگا۔ لیکن وہ تو بھائی صاحب کے موت کی خبر لے کر آیا تھا ۔
بہرحال ایک یاد ہے جس کا تصور کر کے روح کانپ جاتی ہے۔ بھائی صاحب کا جیسے تخلص تھا نہیں معلوم تھا کہ بھائی صاحب کی موت ان کی شہر ت کے مفہوم میںڈھل جائے گی اور اجل سے اس سوال کا جواب بھی لینے خود ہی چل دیں گے ۔ موت نے بھی ا ن کے اس سوال کا جواب کس انداز سے دیا کہ عالم ادب خون کے آنسو رو دیا ۔
ملی جو موت تو اتنا میں اسے پوچھوں گا
کہ کیوں یہ ظلم ہو ایک نیک نام کے ساتھ
زندگی کے سفر میں بہت سے ایسے حالات رونما ہوتے ہیں دل جن کی سچائی کو قبول کرنے سے قاصر ہے ۔
فرقت کا کوروی کی ایک باغ وبہا ر شخصیت تھی خاموشی سے ہمارے درمیان سے اٹھ جائے گی بھائی صاحب نے اپنی زندگی اسی انداز سے گزاری جس کی مثالیں دی جاتی ہے ۔
زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں
بھائی صاحب کو ہمیشہ لوگوں کی خاطر مدارت کرنے کا شوق تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کوئی بھی میرے گھر آتا وہ بغیر کھانے یا ناشتہ کیے بغیر نہیں جاسکتا تھا گرمیوں کی چھٹیوں میں ہر سال لکھنؤ ہمارے گھر پر آم اور آئس کریم کی دعوت ہوتی تھی ۔ جس میں ان کے دوست اور احباب اور شعرا حضرات مدعو ہوتے تھے محفلیں قہقہوں اور لطیفوں سے گلزار ہوتی تھی ۔
پیار کے کچے دھاگے میں اب کون پروئے دل
بچھڑ گئے سب سنگی ساتھی ڈوب گئی منزل
اب میرا یہ حال ہے کہ :
بہاروں سے پتہ پوچھا، کبھی ڈھونڈھا ستاروں میں
بتادے اے صبا تو ہی وہ کتنی دور جانکلا
زندگی میں بہت سے واقعات ایسے ہوتے ہیں جو سچ کے بعد بھی سچ نہیں معلوم ہوتے اور دل ان کو جلد قبول نہیں کرپاتا ۔ موت کے انداز بھی ایسے معلوم ہوتے ہیں جن کو سن کر انسان انشگت بدنداں رہ جاتا ہے۔ بھائی صاحب نے بھی موت سے کس جگہ اور انداز میں ملاقات کی ہوگی ۔ ان کے بے چین روح نے بھی اس نارواسلوک کو بھی ایک قہقہ لگاکر معاف کردیا ہوگا۔
بھائی صاحب کو ہمیشہ پڑھنے پڑھانے کا شوق تھا اور اکثر ہم لوگوں سے کہتے تھے کہ میری خواہش ہے کہ میرے بچے علم حاصل کریں۔بھائی صاحب ہمیشہ سے ہی علم اور ادب کے شیدا اور متوالے رہے ۔ ان کی رگ رگ میں علم وادب کی جوت جل رہی تھی اور یہی وجہ تھی کہ ان کی تحریر اور تقریر میںخاص طورپر طنزو مزاح کا رنگ چھلکتا۔ ذہن کی بے کلی بے چینی کے کچھ اسباب ہوتے ہیں شاید یہی چیز بھائی صاحب کی تحریر میںنمایاں طور پر ملتی ہے ۔ بھائی صاحب کی طنزومزاحیہ تحریر اور تقریر کے اندر چھپا ہوا کرب اور غم بہت کم لوگوں کو محسوس ہوتا تھا۔ وہ آنسوں پی کر مسکراتے اور اپنی زبان وقلم سے لوگوں کو ہنساتے اور خلوص اور محبت کے پھول نچھاور کرتے رہے۔ رات اور دن دل کا خون قلم سے صفحوں میں بکھیرتے گئے ،اور ایک مرد مجاہد کی طرح تاحیات علم وادب کی خدمت کرتے رہے۔ آخر میں جام ِ شہادت نوش کرلیا اور شہیدوں کی صف میں شامل ہوگئے ۔
اگر یہ کہوں تو بے جانہ ہوگا کہ :
نہ پوچھ بزم محبت کی داستان مجھ سے
چراغِ زیست کی لو تھر تھرائی جائی ہے
فرقت کاکوروی کی ایک مشہور نظم جو علی گڑھ پر ہے وہ پیش خدمت ہے :
کچھ سبز ہے کچھ لال ہے
اِک سبزۂ پامال ہے
اوربلیوں کی ٹال ہے
کُتوں کا بیت المال ہے
شاید یہ وی ایم ہال
٭٭
مچھر یہاں صاحبقرَاں
مینڈک یہاں فیاض خاں
کیچڑ یہاں اشک تپاں
کُتا یہاں قوال ہے
شاید یہ وی ایم ہال ہے
٭٭
نالی یہاں نالے یہاں
گورے یہاں کالے یہاں
ہر شے کے متوالے یہاں
سچ مچ کا نینی تال ہے
شاید یہ وی ایم ہال ہے
٭٭
پھاٹک میں بھی اک آن ہے
امرود کی سی شان ہے
اوپر سے سبز عنوان ہے
اندر جو توڑو لال ہے
شاید یہ وی ایم ہال ہے
٭٭
اک مطبخ کون ومکاں
نازِ زمیں فخر جہاں
جُمن کا ہوٹل ہے یہاں
جو بے سُروبے تال ہے
شاید یہ وی ایم ہال ہے
٭٭
جی اور جو کالج ہے یاں
حوریں یہاں غلماں یہاں
ان سب کا میکا ہے یہاں
ان سب کی یہ سسرال ہے
شاید یہ وی ایم ہال ہے
٭٭
ہر چیز میں یاں شاعری
دھوبی یہاںکا فلسفی
مہتر یہاں حرف روی
ہر دوسرا اقبال ہے
شاید یہ وی ایم ہال ہے
٭٭
مہتر یہاں پر آئے کیوں
تکلیف بھی فرمائے کیوں
کُوڑا یہاں اٹھوائے کیوں
وہ مہتر چِترال ہے
شاید یہ وی ایم ہال ہے

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS