ڈاکٹر مشتاق حسین
فرض کریں آپ کی دسترس میں ایک ایسی مشین آجاتی ہے، جس کے ذریعے آپ وقت کے سمندر میں کسی بھی جانب سفر کرسکتے ہیں۔ اب یہ بھی فرض کریں کہ آپ اس مشین کا استعمال کرتے ہوئے آج سے تقریباً 500 یا 1000 سال پہلے کا سفر اختیار کرتے ہیں۔ اس سفر کے دوران آپ اکیسویں صدی کی کوئی بھی معمولی سی دریافت جو کہ روزمرہ کے استعمال میں آتی ہے لے جاتی ہیں۔ مثال کے طور پہ آپ کے ہاتھ یا کسی قریبی میزپر پڑا آپ کا اسمارٹ فون۔ ماضی کے اس سفر میں آپ کی ملاقات اسی زمانے یعنی 500یا 1000سا ل قبل کے انسانوں اور مفکروں سے ہوتی ہے۔
وہ اپنے زمانے میں ہونے والی ترقی اور علم کی حدود کا بڑے فخر سے آپ سے ذکر کرتے ہیں۔ اب یہ جدید دور آپ کا ہے۔ آپ بغیر کچھ کہے اپنی جیب سے اسی اسمارٹ فون کو نکالتے ہیں اور اس کےکمالات کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ میرے خیال میں اس چھوٹے سے آلے سے ہونے والی فوٹو گرافی ہی انہیں ششدر کرنے کے لیے کافی ہوگی کہ مہینوں میں بننے والی تصاویر زیادہ قدرتی اور بہتر انداز میں سکینڈوں میں حاصل ہوجاتی ہے۔ مزید یہ کہ اب یہ تصاویر عام عوام کی دسترس میں بھی آسکتی ہے۔
یہ بات ترین قیاس ہے کہ یک دم ایسے آلے کا مشاہدہ اور اسی کی طاقت کا ادارک ان 500یا 1000 سال قبل کے انسانوں میں کئی خیالات کو جنم دے سکتا ہے۔ اب احاطہ کریں کہ اکیسویں صدی کی ایک روزمرہ کے استعمال میں آنے والی ایجاد یہ کرسکتی ہے تو قدرے بڑی ایجادات کیا نہیں کرسکتی۔ لہٰذا مجموعی طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ کسی بھی پرانے اور نئے زمانے میں جو بنیادی فرق ہے وہ سائنسی ایجادات اور دریافتوں کا ہے ،جن کی رفتار ہر گزرتے دن کے ساتھ تیز سے تیز ترین ہوتی جارہی ہے۔ لہٰذا یہ بہت ممکن ہے کہ جو فرق آپ میں اور500سال قبل رہنے والے انسانوں میں ہے وہی فرق ہم میں محض50سال بعد آنے والے انسانوں میں ہوگا۔ ہم بھی ان کی دریافتوں اور ایجادات کو دیکھ کر اتنے ہی حیرت زدہ ہوں گے جتنے ہماری ایجادات کو دیکھ 500 سال قبل کے لوگ ہوسکتے ہیں۔ حیرت کے اس سفر کا بنیادی ماخذ سائنسی علوم پر بڑھتی ہوئی انسانی دسترس اور اس سے حاصل کی گئی ایجادات اور دریافتیں ہیں۔ 2022بھی سائنسی ترقی کے لحاظ سے کافی اہم ثابت ہوا۔ علم اور وقت کی کمی کو خاطر میں لانے میں اس مضمون میں ہم مختلف سائنسی شعبوں میں 2022 میں ہونے والی چند اہم دریافتوں اور ایجادات کا ذکر کریں گے۔
ماحولیات:ماحولیاتی آلودگی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے پیچیدہ مضر اثرات بلاشبہ اس صدی اور شاید مستقبل کی آنے والی کئی صدیوں کا بنیادی مسئلہ ہوگا۔ 2022 میں ہونے والی کئی تحقیقات انتہائی فکر انگیز اشاروں کی نشاندہی کرتی ہے۔ انسان کی پیدا کردہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا اثر ناصرف زمین پر پڑ رہا ہے بلکہ زمین سے باہر خلا میں بھی اس کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر سائنسی جریدے Environmental science and technology کے جنوری کے شمارے میں شائع ہونے والی تحقیق میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ خلا میں زمین پر پیدا کیے گئے کئی مصنوعی کیمیائی اجزا پائے گئے ہیں جن میں پلاسٹک سر فہرست ہے۔ آلودگیوں کا اہم ذریعہ خلا میں بھیجی جانے والی لاتعداد سٹیلائٹیز ہیں جواب ناقابل استعمال ہوچکی ہیں۔ اسی سلسلے میں چائنا نے ایک سیٹلائٹ SJ.21کو خلا میں دوسری ناقابل استعمال سیٹلائٹ کو پکڑ کر مدار سے باہر بھیجنے کا کامیاب تجزبہ کیا۔ آپ سب نے ماحولیاتی آلودگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والےگرین ہائوس افیکٹ کا نام تو سنا ہوگا، جس کے نتیجے میں زمین کا درجۂ حرارت مستقل بڑھ رہا ہے۔
سائنسی جریدے نیچر میں فروری میں شائع ایک تحقیق کے مطابق زمین پر میتھین گیس کی مقدار تاریخ کی بلند ترین سطح1900ppbپر پہنچ چکی ہے ۔ اسی طرح تاریخ کا بلندترین ماہانہ کاربن ڈائی آکسائیڈکا اخراج بھی اسی سال اپریل اورمئی کے مہینے میں مشاہدے میں آیا۔ امریکی ادارےNOAAکی جون 2022 میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق کاربن ڈائی آکسائیڈکی مجوعی مقدار زمین پر صنعتی ترقی کے مقابلے میں50فی صد زیادہ ہوگئی ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہی دونوں گیسیں ہی گلوبل وارمنگ کی بنیادی وجہ ہیں، جس کے باعث زمین کا درجۂ حرارت مجموعی طور پر مستقلاً بڑھ رہا ہے۔ اسی بڑھتی ہوئی آلودگی کو مدنظر رکھتے ہوئے Global Carbon Project نے نومبر 2022میں اس بات کی پیش گوئی کی ہے کہ آئندہ آنے والے9سالوں میں زمین کا درجۂ حرارت1.5.Cبڑھ جائے گا،جس کے باعث سمندورں کی سطح آب میں خطرناک حد تک اضافہ ہوجائے گا۔اسی سلسلے میں امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کی ایک تحقیق جو فروری میں شائع ہوئی تھی ،اس کے مطابق اگلے30سالوں میں سمندروں کی سطح میں اضافہ گذشتہ 100سالوں میں بھی زیادہ ہوگا۔ فضائی آلودگی کے علاوہ بھی آبی اور زمینی آلودگی بھی اس مسئلے کو مزید پیچیدہ کررہی ہے۔ مثال کے طور پر سائنسی جریدے PNAS میں فروری2022 میں شائع ایک تحقیق کے مطابق دنیا کے کئی دریاؤں میں ادویات کی آلودگی پائی گئی ہے۔اسی طرح environmental science and technology نامی جریدے میں مئی 2022 میں شائع تحقیق کے مطابق کاغذ کے بنے چائے یا کافی کے کپ دوران استعمال پلاسٹک کے کھربوں چھوٹے ذرّات(nano particles) پانی میں شامل کردیتے ہیں۔ لیکن سائنس کی خوبصورتی مسائل کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ان کے حل کے تعین میں بھی ہے۔ لہٰذا سائنسی جریدے نیچر کے 2022ءکے شمارے میں سائنسدانوں نے کمپیوٹر کو استعمال کرتے ہوئے کئی ایسے کیمیائی تعملات کا تعین کیا ہے جو کہ ان آلودگیوں کو نہ صرف تلف کرسکتے ہیں بلکہ ان میں کئی تعملات انہیں ادویات میں بھی تبدیل کرسکیں گی۔
جنگلات کے مسلسل کٹاؤ یا جلاؤ آلودگی کے مسئلے کو مسلسل بڑھارہا ہے۔ مثلاً فروری2022 میں نیچر میں شائع ایک تحقیق کے مطابق گذشتہ 20سالوں میں جنگلات دوگنی رفتار سے کم ہورہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق جنگلات میں لگنے والی قدرتی آگ میں2100 تک31 فی صد سے 50 فی صد اضافہ دیکھا جاسکتا ہے۔ ان سب عوامل کے باعث قدرتی حیات بشمول انسان کی بقا ایک شدید خطرے کا شکار ہے، جس کی شدت میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ اپریل 2022 میں science advance نامی جریدے میں شائع تحقیق کے مطابق2018 میں تقریباً پچاس لاکھ افراد صرف آلودگی کے باعث موت کا شکار ہوئے۔
اپریل2022میںnature ecology and evolution میں شائع تحقیق کے مطابق تو انسانی پیدا کردہ آلودگی کے باعث ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے تمام بڑے جانور معدومیت کے خطرے سے دوچار ہو چکے ہیں۔ جولائی2022میں سائنسی جریدے Frontiers in Ecology of the environmentکے مطابق تو زمین پر پائی جانے والی 30 فی صدانواع معدومیت کے خطرے کا شکار ہے۔ان سارے حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ بات قرین قیاس ہے کہ اگر موثر اقدامات نہ لیے گئے تو مستقبل میں دنیا زندگی کی بقا کے لیے سازگار نہیں رہے گی۔
ٹیکنالوجی:سائنس بحیثیت مجموعی تو قدرتی عوامل اور قوانین کے حقائق کی جستجو ہے لیکن ان حقائق سے آگاہی کے بعد ان کے اطلاق سے ٹیکنالوجی وجود میں آتی ہے جوکہ ترقی کی علامت یا ضامن قرار دی جاسکتی ہے۔2022میں بھی اس میدان میں بھی کئی اہم جدتیں متعارف کروائی گئیں جن میں چند پیش نظر ہیں۔ فروری 2022میں نیو کلیائی تعامل فیوزن سے توانائی حاصل کرنے کا ریکارڈ بنایا گیا گویا پانچ سکینڈ میں گیارہ میگا واٹ ثابت ہوا جو کہ1997کے ریکارڈ کے مطابق دگنا ہے۔ نیو کلیائی فیوژن دراصل وہی تعامل ہے جو ہائیڈروجن بم کی طاقت کی بنیاد ہے۔
اسی تعامل کے ذریعے سورج اپنی حرارت پیدا کرتا ہے۔ مارچ 2022 میںCell Reports Physical science نامی سائنسی جریدے میں شائع ایک تحقیق میں ایک کمپیوٹر چپ کی جسامت کے الیکڑک جنریٹر کی ایجاد کا دعویٰ کیا گیا جو کہ سورج کی توانائی کو بجلی میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہوا کو جراثیم سے پاک رکھنے کے لیے ایک خاص قسم کا فیلٹر جسےHEPAکہاجاتا ہے استعمال کیا جاتا ہے لیکن اس طرح کے سسٹم کو بڑے پیمانے پر استعمال نہیں کیا جاسکتا یا اس کااستعمال انتہائی مہنگا ثابت ہوتا ہے۔ اس مسئلے کا حل مارچ 2022 میں شائع Scientific reports میں ایک تحقیق نے دیا، جس میں ایک ایسی ایجاد متعارف کروائی گئی ہے، جس میں UVروشنی کا استعمال کیا گیا ہے جو کہ ایک منٹ میں 98 فی صدجراثیم کو ہوا سے روک سکتی ہے، یہ فلٹر بڑی جگہوں پر لگائے جاسکتے ہیں۔ان کا استعمال مستقبل میں آنے والی وباؤں کے دوران لاک ڈاون کے خطرے کو روک سکتا ہے۔Hadron Collider جس نے کائنات کی ابتدا اور مادّے کی ہیت کے بارے میں کئی حیرت انگیز حقائق سے پردہ اٹھایا۔ گذشتہ تین سال سے مرمت کی غرض سے بند تھا، اس سال اپریل میں اسے دوبارہ شروع کردیاگیا ۔ مئی 2022میں science robotics میں شائع ایک تحقیق میں آدھےmmکے برابر ایک ریمورٹ کنٹرول سے چلنے والے ایک روبوٹ کو متعارف کروایا گیا۔ اس سائز کے روبوٹ جس میں بند ہونے والی شریانوں و کھولنے میں کار آمد ثابت ہوسکتے ہیں۔اسی سال مئی میں oak ridge national laboratory نے دنیا کے تیز ترین Super Computerکی ایجاد کا اعلان کیا ۔ ہم سب نے الٹرا ساونڈ کی مشین کا نام توسنا ہوگا جو کہ جسم کے اندر موجود اعضا کا بغیر کاٹے مشاہدہ کرلیتی ہے۔ جولائی2022 میں سائنس نامی جریدے میں کسی بھی زخم پر لگائی جانے والی پٹی کی طرح کے ایک Patch کی دریافت شائع کی گئی جوکہ الٹرا ساؤنڈ کی طرح کام کرتا ہے۔ اگست 2022میں سائنسدانوں نےVO2نامی مادّے کی ایک نئی خصوصیت کا پتہ چلایا کہ یہ اس پر لگنے والی پرانی ضرب یا تبدیلی کو یادرکھتا ہے۔ اس خصوصیت کو ڈیٹا کو جمع کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ تحقیق نیچر الیکٹرونکس نامی جریدے میں شائع ہوئی۔
فلکیات:فلکیات سے انسان کا تعلق کافی گہرا اور پرانا ہے۔ سیاروں اور ستاروں کی حرکات اور سکنات کو مختلف اشاروں سے تعبیر کرتے ہوئے ابتدائی طور پر تو اس علم نے علم نجوم کی حیثیت اختیار کی۔ لیکن گیلیٹو کی James Webb telescope نامی دوربین کے ذریعے اب یہ علم ایک مستحکم سائنس کا درجہ حاصل کرچکا ہے۔2022 میں بھی اس سلسلے میں خاصی تحقیقات منظر عام پر آئی جن میں سے چند کا مختصراً تذکرہ زیر نظر ہے۔جب انسان کو سیاروں کی حیثیت کا اندازہ ہوا تو قدرتی طور پر پہلا سوال یہ پیدا ہوا کہ کیا زمین اور ہمارے نظام شمسی جیسے اور سیارے اور نظام ہیں جہاں ممکنہ طور پر زندگی موجود ہوسکتی ہے۔ اگرچہ خلا میں سیاروں کی تعداد تو لامحدود ہے لیکن وقتاً فوقتاً ایسے سیارے بھی دریافت ہوتے ہیں جواپنے ستارے سے قریباً اتنے ہی فاصلے پر ہیں جتنا کہ زمین اپنے ستارے سورج سے جس کی وجہ سے زمین پر زندگی ممکن ہے۔
اسی سلسلے میں ستارے 226-WD1054 کے اطراف میں ایک exoplanet دریافت ہوا۔ اس دریافت کا انکشاف royal astronomical society نےفروری میں کیا۔ اسی طرح اگست 2022 میں Astronomical of Society japanنے ایک ستارےRoss508کے اطراف زمین سے قدرے سیارے کی دریافت کا اعلان کیا جہاں زندگی ممکن ہوسکتی ہے۔ قریباً اس دریافت کے ایک ماہ قبل سائنسی جریدےfrontiers in astronomy and space science میں خلا میں زندگی کی ابتدا کے لئے درکار مالیکیولز کو دریافت کیا گیا۔
اسی طرح اگست میںJames Webb Telescope کے ذریعے WASP-39نامی سیارے پرکاربن ڈائی آکسائیڈکی موجودگی کا انکشاف کیا۔ اکتوبر 2022 میں ناسانے اپنے ایک مخصوص مشن کے ذریعے ایک شہاب ثاقب کو اپنےDARTکے ذریعے متین رستے سے ہٹانے کے کامیاب تجربے کا اعلان کیا یہ بات یہاں قابل ذکر ہے کہ کسی بڑے شہاب ثاقب کے زمین سے ٹکرانے کے نتیجے میں زمین پر زندگی اپنے اختتام کو پہنچ سکتی ہے۔
(جاری )
زراعت:اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کی بقا زراعت کی مستقل تقری سے منسلک ہے ،اس بات کا ادراک شاید انسانوں کو بہت ہی ابتدا سے ہوگیا تھا۔ اسی لئے اناج اور پھلوں کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے کئی طریقے اپنائے جاتے رہے ہیں لیکن ان میں سے اکثر طریقوں سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں خاصا وقت درکار ہوتا ہے۔ جینیاتی سائنس کی ہوش ربا ترقی کے باعث ایک تیکنیک(CRISPR)وجود میں آئی ہے۔
گذشتہ سال طب کا نوبل انعام اسی تکنیک کے موجد دو سائنسدانوں کو دیاگیا ہے جہاں (CRISPR) طب میں کینسر اور دیگر جینیاتی بیماریوں کے علاج کے لیے موثر پائی گئی ہے۔ اب اس تکنیک کا استعمال زراعت میں بھی بڑھتا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر سائنس نامی جریدے میں 2022میں شائع ایک تحقیق کے مطابق مکئی اور چاولوں میں بالترتیب OSKRN2 اور KRN2 کو نکالنے سے ان کی میں بالترتیب 8 سے 10 فی صد اضافہ کیا جاسکتا ہے ۔جون میں Nature Plants کے جریدے میں شائع ایک تحقیق کے مطابق سائنسدانوں نے اسی تحقیق کااستعمال کرتے ہوئے ٹماٹروں میں VitaminD کی مقدار میں کافی اضافہ کیا ہے ۔ پودے اپنی خوراک اپنے خلیات میں ہونے والے ضیائی تالیف (Photosynthesis) کے عمل کے ذریعے تیار کرتےہیں۔ جون 2022 میں Nature food میں شائع ہوئی ایک تحقیق میں سائنسدانوں نے مصنوعی طریقے سے ناصرف Photosynthersis کے عمل کو ممکن کر دکھایا بلکہ ساتھ ہی ساتھ یہ ثابت کیا کہ اس طریقے کے ذریعے کی جانےوالی زراعت توانائی کی بچت بھی کر سکتی ہے۔
حیاتیات:فروری 2022 میں جریدے سائنس میں اب تک کی تاریخ کا انسانوں کا سب سے بڑا جینیاتی تعلق کا نقشہ شائع کیا گیا۔ یہ نقشہ (Genealogy tree) قریباً ایک کروڑ تیس لاکھ چھوٹے (Genealogytree) کے ملاپ کے ذریعے بنایا گیا۔ اس نقشہ کی بدولت انسانی نسل کے ارتقاء اوران کے آپس میں تعلق کو سمجھنے میں بڑی مدد ملی۔ مارچ 2020ء میں معروف سائنسی جریدے PNAS میں شائع تحقیق میں Parthenogenecis کے اس عمل کو مصنوعی طور پر چوہوںپر کر کے دکھایا گیا ۔ یہ تحقیق کئی معدومیت کے خطرے کا شکار جانداروں کے بقا کو محفوظ بنانے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔ حیاتیات کے علم کی کئی بڑی پہیلیوں میں سے ایک یہ ہے کہ زمین پرزندگی کی ابتدا کیسےہوئی۔زمین پرموجود کوئی بھی زندگی تین بنیادی اجزاء کے گرد گھومتی ہے جنہیں DNA، RNA اور پروٹین کہا جاتاہے ۔ DNA سے RNA بنتا ہے اور RNA سے پروٹین بنتی ہے۔ DNAاور RNAبنانے کے لئے پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا اب یہ سوال زمین پر DNA، RNA یا پروٹین میں سے پہلے کونسا مالیکیول وجود میں آیا ۔ بہرحال سائنسدانوں کی ایک بڑی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ RNA دراصل زمین پہ آنے والا یا بننے والا پہلا مالیکیول تھا۔ایسا اس لئے ہے کہ کچھ RNA کے پاس یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ پروٹین یا خامروں جیسے کام کر سکیں۔ اسی کے ساتھ کچھ جانداروں اور وائرسز میں RNA سے DNA بھی بنتا ہے۔ مارچ 2022 کے Nature Communication کے شمار میں سائنسدانوں نے ایسا RNA بنایا جو کہ خود سے اپنی کاپیز بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ اب دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ RNA کے مالیکیول بنانے کے اجزاء جنہیں نیو کلیوٹائڈز کہا جاتا ہے وہ کہاں سے آئے۔ اس سلسلے میں Nature Communication کے اپریل 2022ء کے شمار میں شائع تحقیق کے مطابق زمین پر گرنےوالے شہاب ثاقب میں Purine Pyrimidineکے مالیکیول ملے ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ Pyrimidine اور DNA Puerne اور RNA کے بنیادی اجزا nucleotideکے سب سے اہم جز ہیں ۔سائنس کی دنیا کے مضبوط ترین جرائد میں میں مئی 2022 میں شائع تحقیق نے تجربات کے ذریعے بغیر کسی جاندار کے اور chimeric moleculeپیدا کرنےکا دعویٰ کیا گیا۔ جو کہ RNA اور پروٹین کا مرکب ہے۔ اب چونکہ Protein بنیادی طور پر AminoAcid پر مشتمل ہوتی ہے۔ لہٰذا قدرتی سوال یہ ہے کہAminoAcid کہاں سے آئے۔Nature Chemistry میں جولائی 2022 ء تحقیق کے مطابق ابتدائی طور پر بغیر کسی جاندار کے صرف سادہ کیمیائی تعاملات سے AminoAcid کی تشکیل ہوئی ہو گی۔
یہ بات لیبارٹری میں کئے گئے تجربات سے بھی ثابت ہوتی ہے جن میں سائنسدانوں نے لیبارٹری میں ایسے ماحولیاتی عوامل پیدا کئے جوزمین کے ابتدا میں تھے۔ گرچہ انسانی جینیاتی مادّے (Gemone) کی ترتیب (Sequence) 2000-01ء میں ہو چکی تھی لیکن پھر بھی اس کا کچھ حصہ ترتیب ہونے سے باقی تھا۔ اپریل 2022ء کے سائنس کے شمارے میں پہلی مرتبہ انسانی جینیاتی مادّے کی مکمل ساخت یا ترتیب شائع ہوئی۔ اگست 2022 میں Cell reports نامی جریدے میں شائع ہونےوالی تحقیق سے یہ پتہ چلایا گیا کہ ایک جیسے دیکھنے والے انسانوں میں نہ صرف چہرے اورخدوحال کے genes ملتے جلتے ہوتے ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ ان کے اندر پائے جانے والے بیکٹیریا بھی کافی ملتے جلتے ہوتے ہیں اور ان کے رویوں میں بھی کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر 2022 کے سائنسی شمارے میں ایک ایسے بیکٹیریا کے دریافت کی تحقیق چھپی، جس کی جسامت 1 سینٹی میٹر کے برابر تھی۔ اسے Thio margarita magnifica کانام دیا گیا ۔ دراصل یہ بیکٹیریا 2010 ء میں دریافت ہواتھا لیکن اس وقت اس کے سائز اور دیگر خصوصیات کو دیکھتے ہوئے اسے فنجائی مانا گیا لیکن جینیاتی مادّہ کی بنیاد پر کی گئی حالیہ تحقیق نے یہ بات ثابت کی کہ دراصل یہ ایک بیکٹیریا ہی ہے ۔
طب:ہرسال کی طرح اس سال بھی طب کے میدان میں کئی حیرت انگیز تحقیقات معروف سائنسی جراید میں شائع ہوئیں۔ گزشتہ دو سالوں کی طرح 2022 میں بھی کئی تحقیقات کا تعلق SARS-COV2اور اس کی وبا COVID-19 سے تھا۔ جن میں سے چند کا ذکر پیش نظر ہے۔ مارچ 2022 ء میں نیچر نامی سائنسی جریدے میں شائع ایک تحقیق کے مطابق ایسے افراد جنہیں وباء کے دوران SARS-COV2 کے انفیکشن کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے دماغ کی جسامت میں کم ازکم عارضی طور پر کمی پائی گئی ہے۔
اسی طرح جون 2022میں بلیوں کو ایسے جانوروں میں شمار کیا گیا جنہیں SAPS-COV2 کا انفیکشن ہو سکتا ہے اور وہ یہ انفیکشن انسانوں میں منتقل کرسکتی ہیں۔SARS-COV2کے نئے Variants آنے کے باعث موجودہ ویکسین کی افادیت میں کمی دیکھی گئی جسے پورا کرنے کے لئے دنیا بھر میں ایسی ویکسین کی تیاری پر زور دیا گیا جو SARS-COV2 کے کئی یا ہر طرح کے Variants کے خلاف تحفظ فراہم کر سکے۔ اس سلسلے میں جولائی 2022ء میں نیچر نامی سائنسی جریدے میں چوہوں پر کی گئی ایک ایسی ویکسین کے نتائج شائع ہوئے جو کہ SARS-COV2کے کئی Variants کے خلاف موثر ہے۔ اسی طرح اگست 2022 میں ایک سائنسی جریدے Science Immurology میں شائع ایک تحقیق میں ایک ایسی اینٹی باڈی کے بنانے کا دعوی کیا گیا ہے جو کہ SARS-COV2 کے تمام Variants کے خلاف تحافظ فراہم کر سکتی ہے۔ اس اینٹی باڈی کو SP1-77 کا نام دیا گیا ہے۔
اینٹی بایوٹک کا غیر ضروری استعمال نا صرف انسانی صحت کو متاثر کرتا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ بیماری پیدا کرنے والے جراثیموں میں ان کے خلاف مزاحمت کا باعث بھی بن رہا ہے۔ فروری 2022ء میں شائع ایک تحقیق کے مطابق صرف 2019 میں پچاس لاکھ افراد ایسی بیماریوں سے موت کا شکار ہوئے جو کہ اینٹی بایوٹک سے مزاحم بیکٹیریا کے باعث ہوئی تھیں۔ جنوری 2022میں Nature Communication میں شائع ایک تحقیق میں انہی مزاحم بیکٹیریا کے خلاف ایک نئے طریقہ علاج کی کامیابی کو شائع کی گیا۔ اس طریقہ علاج میں اینٹی بایو ٹک کے ساتھ ساتھ ایسے وائرسز بھی استعمال کیے گئے جو کہ صرف بیکٹیریا پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔
سال 2022ء کے اوائل میں ایک نئے وائرس کی وباء کا خاصہ تذکرہ رہا جیسے اب ہم MonkeyPoxکے نام سے جانتےہیں ۔گرچہ یہ وائرس SARS-COV2 کی طرح تیزی سے تو نہیں پھیل سکتا تھا لیکن اقوام متحدہ نے مئی 2022 میں اس کے خلاف دنیا بھرمیں الرٹ جاری کر دیا ۔ بہرحال اب یہ وباء خاصی محدود ہو چکی ہے۔سال 2022کی ایک اہم دریافت خنزیر کے دل کاا نسانی جسم میں تبادلہ تھا۔ یہ تبادلہ امریکا میں ایک 57سالہ شخص میں کیا گیا۔ اور اس تبادلے میں قبل خنزیر کے دل میں کچھ جینیاتی تبدیلیاں کر لی گئی تھیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس تحقیق میں ایک امریکی نژاد ایک پاکستانی ڈاکٹر محمد محی الدین نے اہم کردار ادا کیا۔ کینسر طب کی دنیا کے بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔ CRISPR کے آنے سے گرچہ کینسر کے علاج میں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی ہے لیکن اس کینسر کے علاج کی کامیابی کا دارومدار اس کی جلد از جلد تشخیص سے ہے۔ اس سلسلے میں جنوری 2022 میںJournal clinical oncology میں شائع ہونے والی تحقیق میں کینسر کے مریضوں کے خون میں ایک ایسی پروٹین کا پتا چلایا گیا جو کہ بڑے ابتدا سے ہی کینسر کی موجودگی کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ اسی سال Gut نامی سائنسی جریدے میں انسانی جسم میں پائے جانےوالے جراثیموں میں ہونے والی تبدیلیوں کے ذریعے لبلبے کے کینسر کی نشاندہی کی گئی۔
2022ء :سائنس کے میدا ن میں دئیے جانے والے نوبل انعامات
ہر سال کی طرح 2022ء میں بھی ایسے ہی چند پر عزم سائنسدان سائنس کے اعلیٰ ترین اعزاز ’نوبل‘ سے نوازے گئے۔ طب کے شعبے کا نوبل پرائز سوئیڈن کے ماہر جینیات Svante Paabo کے حصے میں آیا۔Svante کی تحقیق کا تعلق بنیادی طور پر انسانی ارتقاء سے ہے۔ جس میں انہوں نے حالیہ دور کے انسانوں اور ختم ہو جانےوالی انسانی نوع(Hominins) کے جینیانی مادّہ (Genome) کا تقابلی جائزہ کر کے انسانی ارتقاء کے مراحل اور اس کی میکانیت کی وضاحتیں پیش کی ہیں۔
طبیعات کے میدان کا نوبل پرائز امریکا، فرانس اور اسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے سائنسدان بالترتیب John Cloyser Alain Aspect اور Anton zoilinger کے حصے میں آیا۔ ان سائنسدانوں کی تحقیق کا مرکز کوائنٹم فزکس اور اس میں ذرّات کی حیت پر تھا۔ کیمیا کے شعبے کا نوبل انعام امریکاسے تعلق رکھنے والے carolyn Bertozzi اور Barry Sharpless اور ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے Marten Meldal کو دیا گیا۔ ان سائنسدانوں کی تحقیق کا تعلق کیمیائی تعاملات Chemical reactions کو تیز اور سادہ ترین کرنے سے ہے جسے تیکنیکی زبان میں Click Chemistry کہتے ہیں۔
اُفق پر اُبھر رہے ہیں نئے نقشے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS