محمد حنیف خان
ترقی پذیر ملک کے اپنے مسائل ہوتے ہیں،وہ کبھی دو قدم آگے نکلتا ہے تو کبھی دو قدم پیچھے آجاتا ہے،اس کے یہ دونوں قدم ترقی کی دوڑ میں بنے رہنے کی علامت ہیں،لیکن یہ علامت بامعنی اور مثبت اسی وقت تصور کی جائے گی جب ہم مسلسل ترقی پر نظر رکھے رہیںاور اسی کو اپنا ہدف مان کر اپنے منصوبے بنائیں اوران پر عمل کرتے رہیں۔اس کلیہ کی روشنی میں اگرہندوستان کو دیکھیں تو کہاں کھڑا نظر آتا ہے؟ یہ ایک بڑاسوال ہے۔کیا ہمارے منصوبے اور عمل ترقی پذیر ملک کے ہیں یا پھر ہم خلا میں ترقی کی طرف دوڑ رہے ہیں اور میڈیا میں ہماری چھلانگ ترقی کی طرف لگ رہی ہے۔ اس کو جانچنے اور پرکھنے کا اس سے بہتر طریقہ کوئی نہیں ہوسکتا ہے کہ زمینی سطح پر ہم دیکھیں کہ ملک کی کیا حالت ہے۔ یہاں رہنے اور بسنے والے لوگوں کی زندگی میں کس قدر خوشیاں ہیں،ان کی زندگی کتنی آسان یا کتنی مشکل ہے۔ جس ملک کے عوام جتنا زیادہ خوش اور سہولیات بھری زندگی گزار رہے ہوں گے، اس ملک کو اتنا ہی زیادہ ترقی یافتہ قرار دیا جائے گا۔اسی طرح جس طرح کے منصوبے نافذہوں گے، اسی اعتبار سے امید کی جائے گی کہ ملک ترقی کی جانب گامزن ہوگا اور اپنے ہدف کو پالے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہندوستان جس دور سے گزر رہا ہے،وہ یہاں کے عوام کے لیے تکلیف دہ ہے،تعلیم اور علاج و معالجہ سے لے کر نان شبینہ تک کے لیے عوام کو کس قدر مشکلات کا سامنا ہے ہر شخص سمجھ سکتا ہے،مہنگائی نے جس طرح سے عوام کی کمر توڑی ہے، اس سے وہ اچھی طرح واقف ہیں۔نوٹ بندی کو سپریم کورٹ نے اگرچہ اکثریت کے فیصلے کے ساتھ ایک درست فیصلہ قرار دیا ہے لیکن اس سے کسی کو انکار نہیں کہ وہی ملک میں بے روزگاری لائی اور جن مفادات کے مد نظر یہ فیصلہ کیا گیا تھا وہ بھی ملک کو حاصل نہیں ہوئے۔یہ نوٹ بندی کی ہی دین ہے کہ آج بھی کروڑہا کروڑ افراد بے روزگار ہیں اور روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔نوٹ بندی کے وقت لاکھوں صنعتیں بند ہوگئیں،مزدوروں اور ملازمین کا روزگار چھن گیا،بے روزگاری نے ایسے پاؤں پسارا جیسے ہندوستان ہی اس کا اپنا گھر ہے اور ابھی تک وہ جانے کا نام نہیں لے رہی ہے۔
سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی(سی ایم آئی ای)کے مطابق دسمبر 2022میں گزشتہ 16ماہ یعنی سوا سال میں ملازمت اور روزگار کا سب سے زیادہ برا حال رہا ہے۔سی ایم آئی ای کی رپورٹ کے مطابق بے روزگاری کی شرح 8.30فیصد پر پہنچ گئی۔ اس میں گاؤں سے زیادہ شہری علاقوں کی بری حالت ہے۔ہریانہ میں ریکارڈ 37.4فیصد بے روزگاری ریکارڈ کی گئی جبکہ اڈیشہ اس معاملے میں سب سے بہتر ہے جہاں شرح بے روزگاری محض 0.9یعنی ایک فیصد سے بھی کم ہے۔شہروں میں بے روزگاری کی شرح دیہات سے بڑھ کر ہے،یہاں 10.09فیصد ہے جو اس سے قبل8.96تھی جبکہ دیہی علاقوں میں 7.44فیصد ہے جو اس سے قبل 8.00تھی۔ریاستی سطح پر راجستھان بے روزگاری کے معاملے میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں کی شرح 28.5فیصد ہے جبکہ دہلی 20.8فیصد کے ساتھ تیسرے مقام پر ہے۔مجموعی طور پر روزگار اور ملازمت کے معاملے میں ہندوستان سولہ ماہ کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ گیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ سی ایم آئی ای کے ڈائریکٹر کے مطابق شرح بے روزگاری میں یہ اضافہ اتنا برا نہیں ہے جتنا مستقبل میں امکان ہے یعنی اس سے بھی زیادہ بے روزگاری کے لیے ملک کو تیار رہنا چاہیے۔گزشتہ برس اسی ماہ میں سی ایم آئی ای کی ہی ایک رپورٹ آئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ 5.3کروڑ بے روزگار افراد میں سے 3.5کروڑ افراد مسلسل روزگار کی تلاش میں ہیںجن میں 80لاکھ خواتین ہیں مگر ان کو ملازمت اور روزگار کے مواقع نہیں مل رہے ہیں۔سی ایم آئی ای نے بتایا تھا کہ ملک میں روزگار ملنے کے مواقع بہت کم ہیں جو بہت بڑا مسئلہ ہے۔ایک برس گزر جانے کے باوجود اس مسئلے پر حکومت قابو نہیں پا سکی ہے اور آج حالت یہ ہوگئی ہے کہ سولہ ماہ کی سب سے بلندی پر بے روزگاری پہنچ گئی ہے۔یہ تو ایک رپورٹ ہے اور رپورٹ سیمپلنگ کے ذریعہ بنائی جاتی ہے،زمینی حقیقت اس سے بھی کئی گنا ڈراؤنی ہے۔
حکومت ایک طرف تو شور مچاتی ہے کہ ملک بہت تیزی کے ساتھ ترقی کر رہا ہے اور دنیا کی سرفہرست معیشتوں میں اس کا شمار ہونے لگا ہے لیکن خوداس کا عمل بتاتا ہے کہ ملک بری طرح سے پسماندگی کا شکار ہے،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مرکزی حکومت نے 81.35کروڑ عوام کو یکم جنوری سے مفت میں راشن دینا شروع کیا ہے۔ اس اسکیم کو کووڈ19کے وقت پی ایم غریب کلیان انّ یوجناکے تحت شروع کیا تھا تاکہ لاک ڈاؤن میں عوام کو دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے لیکن حکومت نے اب قومی غذائی تحفظ ایکٹ(این ایف ایس اے) کے تحت ایک برس تک مفت راشن دینے کا فیصلہ کیاہے۔جب ملک ترقی کی جانب بڑھ رہا ہے تو پھر ملک میں اتنی زیادہ تعداد میں غریب کہاں سے آگئے جنہیں حکومت کو مفت راشن دینا پڑ رہا ہے۔یہ راشن حکومت عوام کے ٹیکس کے پیسے سے ہی دے رہی ہے اور یہ ٹیکس صرف امیر لوگ نہیں دیتے ہیں بلکہ یہ غریب بھی دیتے ہیں جن کو یہ مفت اناج دیا جارہا ہے۔جی ایس ٹی کے دائرے میں اب ہر وہ شے آچکی ہے جو انسانوں کے استعمال میں آتی ہے،ایسے میں غریبوں سے بھی حکومت ٹیکس وصول کرتی ہے۔اس طرح وہ غریب عوام سے ٹیکس لے کر اسی کو دیتی ہے اور احسان بھی جتاتی ہے۔وہ کوئی ٹھوس لائحہ عمل اور منصوبہ نہیں تیار کر رہی ہے جس سے غریبی اور بے روزگاری کا خاتمہ ہوسکے۔اس کی جگہ عوام کو اب بھی مذہب کا افیم پلا رہی ہے۔ایک طرف بے روزگاری اعلیٰ ترین شرح پر ہے، عوام پریشان ہیں اور دوسری جانب وزیر داخلہ (جو ایک اہم آئینی عہدیدار ہیں)عوام کی ان دشواریوں پر گفتگو کرنے کے بجائے رام مندر کا راگ اب بھی الاپ رہے ہیں۔وہ عوام سے یہ نہیں پوچھتے ہیں کہ ملک سے بے روزگاری،غریبی اور بھکمری کا خاتمہ ہونا چاہیے یا نہیں بلکہ عوامی اسٹیج سے پوچھتے ہیں اجودھیا میں رام مندر بننا چاہیے یا نہیں؟آج تک وزیراعظم،وزیر داخلہ یا کسی دوسرے اہم و غیر اہم اعیان حکومت میں سے کسی نے بھلا عوام سے کسی اسٹیج سے پوچھا ہو کہ بے روزگاری اور بھکمری کا خاتمہ ہونا چاہیے یا نہیں۔
دراصل حکمراں طبقے کی ترجیحات میں یہ شامل ہی نہیں ہے کہ وہ عوام کو خود کفیل بنائیں،ان کی اولین ترجیح حکومت کا حصول اور اس کے ذریعہ اپنے ایجنڈے کا نفاذ ہے، یہ وہ ایجنڈا ہے جس کی جڑیں مذہب اور تفوق میں ہیں اور جس مذہب کی جڑ سے یہ ایجنڈا نکلا ہے، اس کے سماج کی تشکیل ہی ورن اور طبقات سے ہوتی ہے جس سے کوئی بھی شخص انکار نہیں کرسکتا ہے۔جب کہ ملک اور اس کے عوام ان طبقاتی تقسیم سے اب بہت آگے نکل چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کو گھسیٹ گھسیٹ کر اسی پسماندگی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے جس کے لیے مذہب کا ہی استعمال کیا جا رہا ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ ملک سے بے روزگاری اور بھکمری کا خاتمہ کیا جائے اور ترقی پذیر ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں لایا جائے لیکن اس کے لیے مذہب کے بجائے ٹھوس منصوبے ضروری ہیں،جن سے نوجوانوں کو روزگار ملے۔
نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بے روزگار ٹہل رہی ہے۔حکومتیں ان سے وعدہ کرتی ہیں کہ وہ ان کو روزگار دیں گی مگر جب وہ روزگار مانگتے ہیں تو ان کو لاٹھیاں ملتی ہیں۔نوجوانوں کی زندگی وعدوں سے عبارت ہے،وہ بوڑھے والدین کے ہاتھوں کی جھریاں اور آنکھوں کے خواب دیکھ کر بوجھ اٹھائے در بدر مارے مارے پھر رہے ہیں،اعلیٰ ڈگریوں سے ان کے وجود گراں بار ہیں۔ان کے پاس وہ سب کچھ ہے جو انہیں اپنی محنت سے حاصل کرنا تھا بس وہ نہیں ہے جو حکومتوں کے دائرۂ اختیار میں آتا ہے،اس جانب اعیان حکومت کو توجہ دینا چاہیے ورنہ ملک پسماندگی کی تاریک اور گہرے غار میں گرتا چلاجائے گا کیونکہ نوجوان ہی ملک کا مستقبل ہیں اور وہی جب بے کار اور بے روزگار ہوں گے تو ملک کیسے ترقی کرے گا۔
[email protected]