وقت بدلتا ہے تو حالات بھی بدل جاتے ہیں اور بدلتے حالات کے تقاضوں کو سمجھنے میں منجھے ہوئے سیاست داں ذرا تاخیر نہیں کرتے، کیونکہ کئی بار فیصلے لینے میں چوک بڑے خسارے کی وجہ بن جاتی ہے۔ بہار میں گزشتہ اسمبلی انتخابات کے وقت چراغ پاسوان نے نتیش کمار کے خلاف محاذ کھول دیا تھا۔ نتیش یہ جانتے تھے کہ ان کے خلاف چراغ کے محاذ کھولنے کی اصل وجہ کیا ہے، اس کے باوجود وہ این ڈی اے سے وابستہ رہے۔ بعد کے دنوں میں تیجسوی یادو اور نتیش کمار ایک سُر میں بولنے لگے، خاص کر ذات پر مبنی سروے کے سلسلے میں دونوں کی رائے ایک تھی۔ اسی وقت اس سیاسی پیشین گوئی کا ایک دور شروع ہوا تھا کہ کیا نتیش کمار کی جنتا دل (یونائٹیڈ) بی جے پی کے ساتھ اتحاد چھوڑ کر، این ڈی اے سے ناطہ توڑ کر راشٹریہ جنتا دل کے ساتھ حکومت بنائے گی۔ سیاسی پیشین گوئی کے سلسلے کا اختتام ہوگیا، نتیش کمار نے تیجسوی یادو کے ساتھ مل کر بہار میں حکومت بنالی۔ اس کے بعد ان کے لیے ذات پر مبنی سروے پر سیاست کی گنجائش نہیں رہی۔ انہیں یہ خیال کرنا تھا کہ 2024 میں لوک سبھا انتخابات اور اس کے بعد 2025 میں اسمبلی انتخابات کے وقت وہ ذات پر مبنی سروے کے سلسلے میں عوام کو کیا جواب دیں گے، یہ بے روزگاری کا ایشو نہیں جس کے لیے وہ خستہ اقتصادی حالت یا کوئی اور جواز دے سکتے ہیں، چنانچہ بہار میں آج سے ذات پر مبنی سروے کا شروع ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں۔
بہار میں ذات پر مبنی سروے دو مرحلے میں پورا کیا جائے گا۔ اس کے تحت 38 اضلاع کے 534 بلاکوں کے 2.58 کروڑ گھروں کو کور کیا جائے گا۔ یہ سروے 12.7 کروڑ لوگوں پر کیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں گھروں کی گنتی ہوگی۔ یہ مرحلہ 21 جنوری کو ختم ہوگا۔ دوسرا مرحلہ یکم اپریل سے شروع ہوکر 30 اپریل تک چلے گا۔ 31 مئی، 2023 کو ذات پر مبنی سروے مکمل ہوگا۔ اس سروے کے لیے 350,000 سرکاری ملازمین کو ٹریننگ دی گئی ہے۔ ہر ضلع کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو نوڈل آفیسر بنایا گیا ہے۔بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے ’سمادھان یاترا‘ کے دوران کل کہا تھا کہ ’اس سروے سے ذات اور کمیونٹی کا مفصل ریکارڈ تیار کیا جائے گا جس سے ان کی ترقی میں مدد ملے گی۔‘دوسری طرف بہار کے نائب وزیراعلیٰ تیجسوی یادو نے بھی نتیش کی باتوں جیسی ہی باتیں کہی ہیں۔ ان کے مطابق، ’اس سروے سے سرکار کو غریب لوگوں کی مدد کے لیے سائنسی طریقے سے ترقیاتی کام کرنے میں مدد ملے گی۔‘ تیجسوی نے بی جے پی کی مذمت کرتے ہوئے یہ بات کہی کہ وہ یہ سروے نہیں چاہتی۔ اس سے قبل نتیش کمار نے ذات پر مبنی سروے کرانے کا مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا تھا جو اس کے لیے راضی نہیں ہوئی تھی، اس لیے ایسا لگتا ہے کہ بہار سے ایک بار پھر ذات کی سیاست نیا رخ اختیار کرے گی۔
ذاتوں پر مردم شماری کی بات اگر کی جائے تو وطن عزیز ہندوستان میں 1931 تک ذاتوں پر مبنی مردم شماری ہوتی رہی تھی، 1941 میں بھی ہوئی تھی، البتہ اسے شائع نہیں کیا گیا تھا۔ 1951سے 2011 تک درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کی مردم شماری کے اعداد و شمار آتے رہے لیکن او بی سی اور دیگر ذاتوں کے نہیں، اس لیے بہار میں ذات پر مبنی سروے سے یہ بات طے سی لگتی ہے کہ دیگر ریاستوں میں بھی اس طرح کا سروے کرانے کے مطالبے میں شدت آئے گی اور بات سروے کے نتائج تک ہی نہیں رہے گی۔ مختلف ذاتوں کی آبادی جان لینے کے بعد سیاسی پارٹیاں اسی حساب سے سیاسی حکمت عملی بنائیں گی۔ آبادی کی مناسبت سے ریزرویشن کی مانگ کی جائے گی۔ اگر جنرل زمرے کے لوگوں کو دیے گئے 10 فیصد ریزرویشن کو پیمانہ بناکر ریاستی حکومتیں آگے بڑھنے لگیں گی تو عدالتوں کے لیے بھی اس سلسلے میں فیصلہ سنانا آسان نہیں ہوگا، کیونکہ جنرل زمرے کے لوگوں کے لیے 10 فیصد ریزرویشن پر مہرخود عدالت عظمیٰ نے لگائی ہے۔ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ کیا بہار میں ذات پر مبنی سروے کے بعد آگے چل کر حالات اسی سمت میں جائیں گے جس سمت میں منڈل کمیشن کے نفاذ کے خلاف 1990 میں گئے تھے مگر ایسا لگنے لگا ہے کہ آنے والے وقت میں ذاتوں پر مبنی سیاست میں شدت آئے گی اور ملک کی سیاست ایسی نہیں رہ جائے گی جیسی آج ہے۔ سیدھے لفظوں میں اگر کہا جائے تو 2024 کے عام انتخابات کے آنے تک ملک کے سیاسی حالات مختلف ہوسکتے ہیں۔ فی الوقت یہی لگتا ہے کہ 2024 کے عام انتخابات 2019 اور اس سے پہلے کے عام انتخابات سے مختلف ہوں گے۔
[email protected]
بہار میں ذات پر مبنی سروے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS