پروفیسر اخترالواسع
گزشتہ کچھ دنوں سے ملک کے مختلف حصوں میں اس طرح کے واقعات ظہور پذیر ہو رہے ہیں، آوازیں سنائی دے رہی ہیں، اقدامات کیے جا رہے ہیں، جس سے یہ صاف پتہ چلتا ہے کہ سب خیریت نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اب فرقہ وارانہ جنون اس انتہا کو پہنچ چکا ہے جہاں بس اسٹینڈ کس رنگ میں رنگے ہوں، کوئی فلمی اداکارہ کس رنگ کی ساڑی میں ڈانس کرے، ایک مخصوص مذہبی فرقہ کے لوگ اپنے گھروں میں چاقو چھری تیز کرکے رکھیں، آسام میں انتخابی حلقوں کی حدبندی ایک خاص برس سے کی جائے، حجاب کے بعد اب حلال گوشت بیچنے پر بھی پابندی لگائی جائے، اتراکھنڈ میں برسوں سے آباد مسلمانوں کے گھروں کو منہدم کر نے کا نوٹس،علامہ اقبالؔ کی مشہور زمانہ دعائیہ نظم جس کے ہر مذہب کے لیے قابل قبول ہونے میں کبھی کوئی شک نہیں کیا گیا، پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ زوردار طریقے سے کیا جارہا ہے۔ اسپتال ہو یا اسٹیشن، شاپنگ مال ہو یا کوئی دوسری عوامی جگہ، وہاں پر کسی کو نماز پڑھنے نہ دی جائے، اسی طرح اگر کوئی مسلمان کسی سنگین یا نیم سنگین جرم کا ارتکاب کرے تو عوامی ذرائع ابلاغ اس کا اس قدر ڈھنڈورہ پیٹیں کہ مسلمانوں کی شبیہ بگڑ سکے اور ان پر زمین تنگ کر دی جائے۔ جب کہ بالکل ایسے ہی شدید اور شرمناک جرائم کا ارتکاب کوئی دوسرا کرے تو اس کا تقریباً نہ کے برابر نوٹس لیا جائے۔ ان تمام معاملات و واقعات اور قول و فعل میں اس وقت اور تکلیف دہ صورت پیدا ہوجاتی ہے جب سرکار اور نوکرشاہی بھی ایک مخصوص طبقے کے خلاف فوراً حرکت میں آ جاتی ہے کیوں کہ اس کی شکایت کرنے والے دنیا جہان کو یہ سب بتانا چاہتے ہیں کہ وہ ہندوستان کو کسی بھی قیمت پر اسلامی رنگ میں نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کبھی بھی کسی ایک رنگ میں رنگا ہوا نہیں رہا ہے۔ یہ ملک کثرت میں وحدت کا آئینہ دار رہا ہے۔ یہاں کی زینت چمن گلہائے رنگا رنگ سے ہی ہے اور اس ملک کی زیبائش اختلاف میں اتحاد سے ہے۔
افسوس یہ ہے کہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو کبھی سچا مذہبی انسان نہیں بنا پائے ہیں، وہ رنگوں، جانوروں اور اشیائے خورو نوش پر مذہب کا ٹھپّا لگانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے زعفرانی رنگ کو ہندو، سبز رنگ کو مسلمان، گائے کو ہندو، اونٹ کو مسلمان اور شریفہ کو ہندو نیز کھجور کو مسلمان بنا دیا ہے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ مذہب اسلام میں حلال اور حرام کے احکامات انسان کی صحت کو سامنے رکھ کر بنائے گئے ہیں۔ اسی طرح کوئی اداکارہ جس کی سیاسی وابستگی کوئی بھی ہو سکتی ہے وہ اپنے فن کے اظہار کے لیے کون سا لباس پہنتی ہے، یہ اس کے رول اور ہدایت کار کی مرضی کے تابع ہوتا ہے۔ آج بہت سے وہ اداکار اور اداکارائیں جو بی جے پی سے تعلق رکھتے ہیں، انہی کپڑوں میں اسی طرح کے مشتعل کر دینے والے سین کرتے رہے ہیں جن کی آج مخالفت ہورہی ہے اور سب سے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ سنسر بورڈ نے پہلے جن مناظر کو منظور کرکے سرٹیفکیٹ دے دیا تھا، آج وہی سنسر بورڈ ایک مخصوص حلقے کے دباؤ کے پیش نظر ان پر نظرثانی کرکے ان کو نکالنے کی بات کر رہا ہے۔ اگر سنسر بورڈ نے پہلے غلطی کی تھی تو ایکشن فلمی مناظر پر نہیں بلکہ سنسر بورڈ کے ذمہ داروں پر ہونا چاہیے کہ وہ کس طرح خوابِ غفلت میں پڑے رہ کر اس طرح کے غلط مناظر کو اپنی منظوری پہلے دیتے ہیں اور بعد میں انہیں نکالنے کے لیے زور ڈالتے ہیں۔
اس ملک کے شریف، امن پسند اور انسان دوست ہندوؤں پر یہ زور دینا کہ وہ اپنے گھروں میں چھری اور چاقو تیز کراکر رکھیں تاکہ اپنا دفاع کر سکیں، ہندوستانی نظم و نسق کی مشینریوں کے لیے کھلا چیلنج ہے۔ سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ عدم تشدد یا اہنسا کو دنیا بھر میں پھیلانے والے مہاتما گاندھی کے دیش میں اس طرح کی باتیں کی جا رہی ہیںلیکن اس پر تعجب بھی نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ ہندوؤں کو یہ مشورہ دینے والی اور پھر اس پر اصرار کرنے والی ہماری پارلیمنٹ کی بھوپال سے منتخب ممبر اور نام نہاد مذہبی رہنما نیز مالیگاؤں بم دھماکوں میں ماخوذ خاتون پرگیہ ٹھاکر پہلے مہاتما گاندھی کی زبردست اہانت کا ارتکاب کر چکی ہیں اور اہانت بھی ایسی کہ وزیراعظم نریندر مودی کو بھی یہ کہنا پڑا تھا کہ وہ دل سے محترمہ کو اس کے لیے کبھی معاف نہیں کر سکیں گے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے وزیراعظم کی بات کو بھی ایک کان سے سنا اور دوسرے سے نکال دیا اور سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ابھی تک ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ اوپر جتنی بھی سنگین اور سفاکیت والی باتیں بیان کی گئی ہیں، اگر اس ملک میں کسی مسلمان نے یا عیسائی نے ایسی غلطی کی ہوتی اور اس کی تھوڑی سی بھی اپنے زبان یا قلم سے ادائیگی کر دی ہوتی تو اب تک وہ نہیں، اس کے اہلِ خاندان اور متعلقین سب کے خلاف پولیس انتظامیہ حرکت میں آچکی ہوتی، خفیہ ایجنسیوں نے اسے دہشت گردی سے جوڑ دیا ہوتا۔
بچپن سے ہم نے ماں باپ اور اساتذہ کو ہمیشہ اس کی تعلیم اور ترغیب دیتے ہوئے دیکھا کہ وہ اپنی صبح کا آغاز اسکول میں ہوں یا گھروں پر علامہ اقبالؔ کی بچوں کے لیے مشہور زمانہ دعائیہ نظم ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ سے شروع کریں اور زندگی، سماج اور مستقبل کے لیے بہتر خواہشات اور نیک توقعات کا اظہار کریں۔ ہم نے اردو اور مسلمان مخالف جنونیوں کے اس نظم کے خلاف جذبات کے اظہار کرنے پر ایک بار پھر اِدھر اُدھر سے دیکھا کہ کہیں اس میں کسی مخصوص مذہب، علاقے کی بوباس تو نہیں ہے تو پتا چلا کہ یہ نظم تو وحدتِ کردار، انسان دوستی اور حب الوطنی کے جذبات سے شرسار ہے اور اس نظم کا قصور صرف اتنا ہے کہ یہ ایک مسلمان شاعر نے اردو زبان میں ہمارے لیے لکھی۔ شاید اس نظم کے مخالف بھول گئے کہ ہر 26جنوری کو راشٹرپتی بھون سے انڈیا گیٹ ہوتے ہوئے جو فوجی دھنیں بجائی جاتی ہیں، ان میں اسی نظم کے خالق کا ایک ترانہ ٔ ہندی ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ بھی بجایا جاتا ہے۔
آج کل ایسا لگتا ہے کہ بعض ریاستی حکومتیں مسلمانوں کی مخالفت میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانا چاہتی ہیں جس کا ایک طرف نظارہ ہمیں اس وقت دیکھنے کو ملتا ہے جب کوئی مسلمان نماز قضا نہ ہوجائے اس ڈر سے کسی عوامی جگہ پر نماز ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے خلاف فوراً کارروائی شروع ہوجاتی ہے۔ اسی طرح حکومتِ مدھیہ پردیش نے اجّین کو جو مخلوط مذہبی ثقافت کا یادگار شہر ہے، اس کو مہاکمبھ کے نام پر مسلمانوں سے خالی کرائے جانے کے ڈھکے چھپے طور منصوبوں کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ اتراکھنڈ کی سرکار برسوں سے ہلدوانی میں بسے ہوئے ہزاروں مسلمان خاندانوں کے مکانوں کو منہدم کر دینا چاہتی ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ مکانات غیرقانونی طور پر تعمیر کیے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت اتراکھنڈ میں بی جے پی کی پہلی حکومت نہیں ہے۔ تو اب تک کی حکومتوں نے اس پر توجہ کیوں نہیں دی اور ضلع کے میونسپل افسران نے اس کے خلاف نوٹس کیوں نہیں لیا؟ خیر سے سپریم کورٹ نے ان تمام انہدامی کارروائیوں پر روک لگاکر تقریباًپچاس ہزار لوگوں کے سروں سے شدید سردی کے اس موسم میں چھتوں کے چھین لیے جانے کی کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے اور بجا طور پر یہ سوال قائم کیا ہے کہ اتنی بڑی آبادی کو اس طرح کیسے بے سہارا چھوڑا جا سکتا ہے؟ دوسرے اترا کھنڈ ہائی کورٹ کے فیصلے کے اس جز پر بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے جس میں اس آبادی کے لوگوں کے خلاف نیم فوجی دستوں کے استعمال کے لیے کہا گیا تھا۔جس طرح دہلی سمیت بعض دوسرے صوبوں میں کچھ ترقیاتی ٹیکس اصول کرکے کالونیوں کو قانونی طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے تو پھر اتراکھنڈ میں ایسا کیوں نہیں کیا جاتا؟ آسام کے وزیراعلیٰ مسلمانوں کے لیے اپنے خصوصی جذبات رکھنے میں سب سے آگے رہنے کی ہمیشہ کوشش کرتے ہیں۔ مدرسے ہوں یا کالونیاں یا الیکشن کے لیے حدبندی، اس میں وہ کوئی نہ کوئی ایسا پہلو ضرور نکال لیتے ہیں جس سے ان کی ریاست میں بسنے والی اقلیتوں کو تکلیف پہنچے۔
ہو سکتا ہے کہ بعض لوگوں کو مخصوص اقلیتی طبقات کے خلاف اپنا ایجنڈا بنا کر اور اس کا عوامی اعلان کرکے خوشی محسوس ہوتی ہو لیکن یہ نہ تو ملک کے لیے اچھا ہے اور نہ اس ملک کے عوام کے لیے۔خوف کی یہ نفسیات اس ملک کے رہنے والوں کے درمیان اس جارحانہ مدافعت کا سبب بنتی ہے جو اس ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی، مذہبی رواداری، آپسی بھائی چارہ اور ملک کی معاشی و اقتصادی ترقی کے لیے سب سے نقصان دہ ہے۔ پھر ایک ایسی دنیا میں جو اب ایک عالمی گاؤں میں تبدیل ہو چکی ہے، ہندوستان کو دنیا کے لیے ہمیشہ کی طرح ایک مثالی معاشرہ اور ملک کے طور پر ابھر کرسامنے آنا چاہیے اور اس طرح کی باتوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے
پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)
[email protected]