امسال 2023 میں کم ازکم 9ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونا طے ہیں ،ان کی تعداد 10 ہوجائے گی اگراس میںمرکز کے زیر انتظام ریاست جموں وکشمیر کو شامل کرلیا جائے، جیساکہ امکان ظاہرکیا جارہا ہے اورمرکزکی طرف سے کئی بار اشارے بھی کیے گئے اوراس حساب سے الیکشن کمیشن تیاری بھی کررہا ہے اور سیاسی پارٹیاںاپنے طور پر سرگرم ہیں، بلکہ کانگریس،نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی جلد اسمبلی انتخابات کرانا چاہتی ہیں اور بی جے پی پر قصداً انتخابات میں تاخیر کا الزام لگاتی رہی ہیں۔جبکہ بی جے پی کا کہنا ہے کہ حالات سازگار ہونے پر الیکشن ریاست کے حق میں بہترثابت ہوگا ۔ اگر جموں وکشمیرمیں انتخابات کو نظرانداز بھی کردیا جائے پھر بھی 5اہم ریاستوں کرناٹک ، مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ اور تلنگانہ میں انتخابات ضرور ہوں گے۔ ان کے علاوہ شمال مشرق کی ریاستوں ناگالینڈ، تریپورہ، میگھالیہ اورمیزورم میں بھی انتخابات ہوں گے۔ بلکہ اسمبلی انتخابات کا آغا ز ہی شمال مشرق کی اول الذکر 3 ریاستوں سے ہوگا، جہاں فروری یا مارچ میں انتخابات ہوسکتے ہیں۔رہی بات میزروم کی تو وہاں سال کے آخر میںانتخابات ہوں گے۔ اس طرح پورے سال انتخابی گہماگہمی رہے گی اور سیاسی پارٹیوں کے لیے سکون نہیں رہے گا۔کیونکہ اتنے بڑے پیمانے پر اسمبلی انتخابات ایک طرح سے 2024 میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے لیے سیمی فائنل کی حیثیت رکھیں گے ۔ان ہی سے مرکزی اقتدارپر قبضہ کے لیے زمین ہموار ہوگی۔ان کے نتائج کا پورا اثر لوک سبھاانتخابات پر ظاہر ہوگا۔اس لیے ہر پارٹی پوری طاقت جھونک کرایک دوسرے کو زیر کرکے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرے گی۔ اسمبلی انتخابات میں نہ صرف بی جے پی اور کانگریس بلکہ علاقائی جماعتوں کے لیے بھی کھونے اور حاصل کرنے کے لیے بہت کچھ ہوگااوروہ اس کے لیے سرگرم بھی ہوگئی ہیں۔
شمال مشرق کی 3ریاستو ں کے بعد سب سے پہلے کرناٹک میں انتخابات ہوں گے۔جہاں کی اسمبلی کی میعاد 24مئی کو پوری ہوگی۔ اس لیے اپریل کے اواخر یا مئی کے اوائل میں اسمبلی انتخابات ہوسکتے ہیں۔ سال کے آخر میں 5ریاستوں کے اسمبلی انتخابات ہوں گے۔ 40 رکنی میزورم اسمبلی کی میعاد17دسمبر کو، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، راجستھان اورتلنگانہ اسمبلیوں کی میعاد بالترتیب 3جنوری، 6جنوری، 14جنوری اور16جنوری 2024کوپوری ہوگی۔پورا امکان ہے کہ ان پانچوں ریاستوں میں اسمبلی انتخابات آگے پیچھے دسمبر میں ہی ہوں۔اس دوران یہ قیاس آرائی ہورہی ہے کہ موسم گرما میں جموں وکشمیر میں اسمبلی انتخابات ہوسکتے ہیں، کیونکہ موسم سرما میں انتخابات نہیں ہوسکتے ۔ دفعہ 370کی تنسیخ ،ریاست کی تقسیم ،مکمل ریاست سے مرکز کے زیرانتظام ریاست میں تبدیلی اورحدبندی کے بعد فہرست رائے دہندگان کی گزشتہ سال25نومبر کو اشاعت کے بعدوہاں پہلی بار اسمبلی انتخابات ہوں گے ۔ اس سے قبل 2014میں اسمبلی انتخابات ہوئے تھے۔تب اورآج کے حالات میں بہت فرق ہے۔نہ صرف وہاں کا نقشہ بدلا، بلکہ انتخابی حلقوں کی تصویر بھی بدل گئی ہے۔ پہلے سے زیادہ نشستیں ہوگئی ہیں اور لداخ بھی ریاست کا حصہ نہیں ہوگا۔ سیاسی حالات بدل گئے ہیں اور سیاسی پارٹیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔کانگریس سے نکلنے والے غلام نبی آزاد کی ڈیموکریٹک آزاد پارٹی پورا انتخابی منظر نامہ تبدیل کرسکتی ہے۔بدلتے حالات میں جموں وکشمیر میں اسمبلی انتخابات وہاں کی علاقائی پارٹیوں کے ساتھ قومی پارٹی بی جے پی اورکانگریس کے لیے کسی آزمائش سے کم نہیں ہیں۔ خصوصاً بی جے پی کے لیے وقارکا مسئلہ ہوگا اورووٹنگ مودی سرکار کے فیصلے کے حق میں یا خلاف، عوام کی رائے ہوگی۔
10ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں کرناٹک اور مدھیہ پردیش میں بی جے پی توراجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس اور تلنگانہ میں بھارت راشٹر سمیتی کا سیاسی مستقبل دائو پر لگا ہوگا تو شمال مشرق میں بی جے پی، کانگریس، کمیونسٹ پارٹیوں ،میزروم میں برسراقتدارخطہ کی واحد قومی جماعت نیشنل پیپلز پارٹی اوردیگر علاقائی پارٹیوں کے لیے اپنی گرفت مضبوط کرنے کا موقع ملے گا۔ امسال اسمبلی انتخابات کی تیاری اگلے سال ہونے والے لوک سبھا انتخابات کے لیے ریہرسل ثابت ہوگی اور جیسے ہی اسمبلی انتخابات کی سیریز ختم ہوگی، پارلیمانی انتخابات کے لیے پارٹیاں میدان میں کودپڑیں گی ۔
[email protected]