عارف شجر
ایک وقفہ کے بعد راہل گاندھی کابھارت جوڑویاترا کا دوسرا مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔ پہلے مرحلے میں جس طرح سے تمل ناڈو اور مہاراشٹر کے اپوزیشن قائدین راہل گاندھی کے ساتھ بھارت جوڑو یاترا میں کاندھے سے کاندھا ملا کر ساتھ چلے اسی طرح سے راہل گاندھی نے یہ امید ظاہر کی ہے کہ انکے ساتھ اتر پردیش کے قائدین بھی ساتھ آئیں گے تاکہ اتر پردیش کی سیاسی زمین بھی مضبوط ہو اور آئندہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کودھول چٹایا جا سکے۔وہیں کانگریس نے بار بار اس بات کو دہرانے کی کوشش کی ہے کہ یہ یاترا صرف کانگریس کی نہیں ہے بلکہ یہ یاترا ان سب لوگوں کی ہے جو مہنگائی، بے روزگاری، بدعنوانی سے بیزار ہیں۔بھارت جوڑو یاترا یوپی میں صرف 3 دن کی ہونے والی ہے لیکن پارٹی کی کوشش تھی کہ ان تین دنوں کے حوالے سے یوپی سے بڑا پیغام جائے۔ کانگریس کی جانب سے ایس پی صدر اکھلیش یادو، بی ایس پی سپریمو مایاوتی، آر ایل ڈی کے صدر جینت چودھری، سبھاسپا کے صدر اوم پرکاش راج بھر اور کچھ دیگر چھوٹی پارٹیوں کے لیڈروں کو یوپی میں اس یاترا میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا تھا، لیکن اکھلیش، مایاوتی، جینت چودھری اس یاترا سے تقریباً کنارہ کش ہو چکے ہیں اور ان کی شرکت کا امکان کم ہی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ کانگریس کا بھارت جوڑو یاترا میں شامل ہونے سے متعلق کوئی دعوت نامہ نہیں ملا ہے۔
یو پی میں تین دن کی اس یاترا میں لوک سبھا انتخابات سے پہلے کانگریس بھارت جوڑو یاترا کے بہانے یوپی کے ذریعے بی جے پی پر حملہ کرنے کی کوشش کر ے گی۔۔ تاہم کانگریس کی یہ کوشش ابھی تک بے نتیجہ ہی ثابت ہو رہی ہے۔. بھارت جوڑو یاترا میں شامل ہونے سے متعلق ایس پی صدر اکھلیش یادو نے یہ تو واضح کر دیا کہ وہ یاترا کے حوالے سے کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کی جذباتی اپیل سے جڑے ہوئے ہیں، لیکن انہیں کوئی دعوت نامہ نہیں ملا ہے۔ ایسا ہی کچھ بی ایس پی سپریمو مایاوتی کا بھی کہناہے۔ بی ایس پی کے ایک لیڈر نے بتایا کہ پارٹی کو ابھی تک کانگریس کی طرف سے کوئی دعوت نامہ موصول نہیں ہوا ہے۔ اسی طرح آر ایل ڈی چیف جینت چودھری بھی یاترا میں حصہ نہیں لیں گے۔ آر ایل ڈی کے ترجمان نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ آر ایل ڈی سربراہ جینت چودھری یاترا پر جائیں گے۔ ان کے تمام پروگرام پہلے سے طے شدہ ہیں۔ دوسری طرف اوم پرکاش راج بھر نے کہا کہ کانگریس کی بھارت جوڑو یاترا کے کنوینر سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید نے انہیں فون کرکے دعوت دی تھی لیکن کوئی رسمی دعوت نہیں ملی ہے۔
تمل ناڈو اور مہاراشٹر میںاپوزیش سیاسی قائدین کا بھارت جوڑو یاترا میں شامل ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں کیوں کہ کانگریس کے ساتھ انکا پہلے سے ہی ساتھ رہا ہے لیکن اتر پردیش کا سیاسی منظر نامہ ہی کچھ الگ ہے یوپی میں گزشتہ لوک سبھا انتخابات ایس پی اور بی ایس پی نے مل کر انتخاب لڑا تھا اوتر پھر اسمبلی انتخابات میں الگ ہو گئے۔ اس سے پہلے کانگریس اور ایس پی کی جوڑی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ یوپی میں ایس پی، آر ایل ڈی، سبھاسپا نے مل کر الیکشن لڑا تھا لیکن اب صرف آر ایل ڈی اور ایس پی ساتھ ہیں۔ مایاوتی ایک الگ راستے پر چلتی نظر آرہی ہیں۔ کانگریس، ایس پی، بی ایس پی کے درمیان اس وقت کوئی انتخابی تال میل نہیں ہے۔ یوپی میں انتخابی صورت حال مختلف ہیں اور 2024 کے انتخابات میں ابھی بھی وقت ہے۔ ایسے میں یاترا میں حصہ لے کر ان کی طرف سے کوئی اشارہ دینے کی جلدبازی نہیں ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ یو پی میں اپوزیشن کا بھارت جوڑو یاترا میں شامل ہونے سے ان کا سیاسی قد پر فرق پڑ جائے گا یو پی اپوزیشن قائدین یہ نہیں چاہتے کہ ان کی سیاست ختم ہو جائے اور سبقت کانگریس لے جائے ۔ تاہم کانگریس کے لیے جموں سے ایک اچھی خبر یہ آئی ہے کہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی سربراہ محبوبہ مفتی نے کہا کہ وہ کشمیر میں کانگریس لیڈر راہل گاندھی کی قیادت میں بھارت جوڑو یاترا میں شامل ہوں گی۔
کانگریس بھارت جوڑو یاترا میں تمام اپوزیشن لیڈروں کو اپنے ساتھ جوڑنے کی مسلسل کوششیں کر رہی ہے۔ کئی بڑی اپوزیشن پارٹیاں اور ان کے لیڈر راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا میں شامل ہو گئے ہیں۔ تاہم سپریا شرینتھ نے بی جے پی لیڈروں کو دعوت دی ہے کہ وہ کانگریس کے کنٹینر سے اپنے شفاف سفر میں شامل ہونے کے لیے صرف ان پر لگائے گئے الزامات کی حقیقت کو جان سکیں۔ حالانکہ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بالکل درست ہے کہ کانگریس کی بھارت جوڑو یاترا میں بی جے پی کا کوئی بڑا لیڈر کیوں آئے گا۔ لیکن پارٹی سے وابستہ سینئر لیڈروں کا کہنا ہے کہ بھارت جوڑو یاترا سب کو ساتھ لے کر چلنے کا سفر ہے، اس لیے اگر کوئی بی جے پی لیڈر شامل ہوتا ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جائے گا۔کانگریس نے سیاسی ماحول کو گرمانے کے لیے اتر پردیش کی تمام بڑی اپوزیشن جماعتوں کو بھارت جوڑو یاترا میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے۔ سیاسی تجزیہ کاراوماشنکر تیاگی کا کہنا ہے کہ کانگریس کی بھارت جوڑو یاترا میں جو مسائل اٹھائے جارہے ہیں وہ سیاسی نوعیت کے ہیں۔ جب اس طرح کے سماجی اور سیاسی مسائل کو لے کر بڑی اپوزیشن پارٹیاں بھارت جوڑو یاترا میں شامل ہوتی ہیں تو اندازہ لگانا آسان ہوجاتا ہے کہ آنے والے انتخابات میں تمام اپوزیشن پارٹیوں کو ایک ہی راستے پر چلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔تیاگی کا کہنا ہے کہ سی پی آئی کے قائدین بشمول ایس پی، بی ایس پی، راشٹریہ لوک دل اور سبھاسپا کو ایک پلیٹ فارم پر لانے سے لوک سبھا کے لحاظ سے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کو تقویت مل سکتی ہے اور یہ ممکن ہے کہ اس سے بی جے پی کے خلاف لڑائی کو بھی طاقت ملے گی۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ کیا تمام سیاسی پارٹیاں متحد ہو کر کانگریس کی بھارت جوڑو یاترا میں شامل ہوں گی، یہ تو بعد میں پتہ چلے گا۔ لیکن کانگریس نے پہلے ہی اپنی بھارت جوڑو یاترا کے ذریعے سیاسی پیچیدگی کو سلجھانا شروع کر دیا ہے۔
بہر حال !بھارت جوڑو یاترا بی جے پی کے لئے سر درد تو ہے ہی وہیں سیاسی اپوزیشن قائدین بھی اس بات کو بخوبی سمجھ رہے ہیں اور اس کی مخالفت بھی نہیں کر رہے ہیں بلکہ گاہے بگاہے اپنے بیانوں سے ساتھ بھی دے رہے ہیں لیکن یو پی کے سیاسی لیڈر ان کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر ساتھ چلنے سے پرہیز کر رہے ہیں کیوں کہیں نہ کہیں ان کا سیاسی وقار اس میں پوشیدہ ہے یعنی یہ کہ راہل گاندھی کے ساتھ دوریاں بھی ہیں اور نزدیکیاں بھی ۔اتر پردیش کے سیاسی قائدین میں اس یاترا کے تعلق سے چہ میگوئیاں ضرور ہیں کہ لیکن وہ کھل کر اس کی تائید یا مخالفت کرنے سے قاصر ہیں۔
کہا یہ جا رہا ہے کہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں کانگریس کو سب سے بڑی پارٹی کے طور پر پیش کرنے سے گریز کرنا چاہتی ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اتر پردیش کے قائدین اگر راہل گاندھی کے ساتھ بھارت جوڑو یاترا میں شامل ہوتے تو بی جے پی کے لئے بے چینی کا سبب ضرور ہوتا لیکن ایسا نہ ہونے سے بی جے پی کے لئے اتر پردیش میں2024 کے عام انتخابات میں فائدہ ہی ہونے والا ہے جبکہ سبھی سیاسی قائدین بی جے پی کو مرکز میں بر سر اقتدار سے ہٹانے میں سیاسی حکمت عملی طے کر رہی ہیں لیکن بھارت جوڑ یاترا میں شامل ہونے سے اجتناب کر رہی ہیں۔
[email protected]