محمد علیم اسماعیل
باہر بارش ہو رہی ہے۔ مسلسل تین دن سے رم جھم برس رہی برکھا آج ذرا تیز ہوگئی ہے۔ میں کھڑکی سے لگ کر بیٹھا برسات کے مزے لے رہا ہوں۔ میرے ٹھیک سامنے ٹیبل ہے، جس پر کاغذ اور قلم رکھے ہوئے ہیں۔ میں موسمِ باراں کے اِس قدرتی منظر کو لفظوں میں قید کرنے کے متعلق سوچ رہا ہوں۔ میں نے جیسے ہی کچھ لکھنے کے لیے ہاتھ میں قلم اٹھایا اسی وقت بیوی نے چائے لا کر میرے سامنے رکھ دی ہے۔ چائے دیکھتے ہی میں نے ہاتھ میں تھامے قلم کو نیچے رکھ دیا ہے اور چائے اٹھالی۔ اس طرح میں سرد ماحول میں گرم چائے کے مزے لینے لگا۔ ذہن تروتازہ ہے، دماغ کام کر رہا ہے، ماحول خوشگوار ہے۔ ایسے وقت میں کہانی لکھنے کا موڈ ہو رہا ہے۔ دماغ نے تفکرات کے گھوڑے دوڑانے شروع کر دیے ہیں۔ میں نے چائے ختم کی اور کچھ لکھنے ہی والا تھا کہ میرے دونوں بھائیوں کے بچے میرے کمرے میں آکر شور شرابہ کرنے لگے اور میں نے ان سے کہا، بچو! تم دوسرے کمرے میں جاؤ، میں یہاں کام کر رہا ہوں۔ لیکن بچے تو بچے ہیں وہ کب کسی کی سنتے ہیں۔ میں نے پھر قلم اٹھایا اور دو/تین سطریں ہی گھسیٹی تھیں کہ بیوی آ کر میرے بازو میں رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئی۔ میں نے پھر سے قلم نیچے رکھ دیا۔ اب ہم دونوں موسم کا نظارہ کر رہے ہیں۔ باتیں ہو رہی ہیں، ہنسی مذاق ہو رہی ہے۔ باتوں ہی باتوں میں بیوی نے مجھ سے کہا: ”میں آپ کی اس بات کو ریجکیٹ کرتی ہوں۔“
”ریجیکٹ…“ یہ لفظ اس کی زبان سے نکلا اور میرے ذہن میں گونج گیا۔
”اس طرح کسی کو ریجیکٹ کرنا ٹھیک نہیں… خدا کی بنائی ہوئی چیزوں کو ریجیکٹ کرنا، خود ریجیکٹ ہونے کے برابر ہے۔“
”یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ میں نے آپ کی ’بات‘ کو ریجکیٹ کیا ہے، کسی کو نہیں۔‘‘ آپ تو سنجیدہ ہوگئے ہیں دراصل میں مذاق کر رہی تھی۔“
یہ کہہ کر وہ جانے لگی، تو میں نے ہاتھ پکڑ کر اسے بٹھا لیا اور کہا: ”میں نے بھی یہ جملے تمھارے لیے نہیں کہے ہیں۔ دراصل لفظ ریجیکٹ سے جڑی ایک کہانی میرے ذہن میں چل پڑی ہے۔“
”اچھا تو پھر میں یہ کہانی ضرور سننا چاہوں گی۔“ یہ کہتے ہوئے وہ میرے قریب بیٹھ گئی اور میں نے کہنا شروع کیا۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب میں اپنی پہلے اسکول بنام ضلع پریشد اردو اسکول، پٹھان ساونگی (تعلقہ بھوکردن، ضلع جالنہ، مہاراشٹر) میں تدریسی خدمات انجام دے رہا تھا۔ ایک روز میں حمام سے نہا کر نکلا تو منّان خان اپنے موبائل میں کسی لڑکی کی فوٹو دیکھ رہے تھے۔ وہ کچھ پریشان سے نظر آرہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کسی الجھن میں گرفتار تھے یا کوئی فکر انھیں اندر ہی اندر کھائے جارہی تھی۔ وہ کسی بھی کام کے تئیں بے فکر اور لا تعلق ہو کر بیٹھ جانے والے شخص نہیں تھے۔ ان کے متعلق میں اچھی طرح جانتا تھا کہ جب کسی کام کو کرنے کا وہ ارادہ کرتے تو پھر اس کام کو دل و دماغ پر مکمل طور سے حاوی کر لیتے تھے۔ اور یہ بھی مجھے پتا تھا کہ وہ اُن دنوں شادی کے لیے لڑکی تلاش کر رہے تھے اور بڑی شدت سے کر رہے تھے۔ سرکاری ملازمت میں جب سے ان کا تقرر ہوا تھا گھر میں سبھی بہت خوش تھے اور ان کے لیے لڑکی دیکھنے میں جٹ گئے تھے۔ایک دن وہ موبائل پر اپنی امّی سے بات کر رہے تھے۔ امّی نے پوچھا: ”فوٹو کیسی لگی؟“
”ہاں اچھی ہے۔ لڑکی خوبصورت ہے، لیکن لوگ کیسے ہیں؟“
”بڑے شریف لوگ ہیں، اور ہاں غریب ہیں لیکن عزت دار ہیں۔ لڑکی پڑھی لکھی ہے، خوبصورت ہے، سلیقہ مند ہے، مجھے تو بہت پسند آئی۔“
”ریجیکٹ کر دو۔“
”ارے کیوں بیٹا؟“
”میں نے کہا تھانا کہ بڑی پارٹی چاہیے۔“
”لیکن بیٹا……“
امّی کی بات منہ میں ہی ادھوری رہ گئی اور انھوں نے کال کٹ کردی۔ وہ اس طرح برتاؤ کرنے لگے تھے گویا موسم کی سرد مزاجی ان کے لہجے میں رچ بس گئی ہو۔ انھیں بہت سی لڑکیاں دکھائی گئی تھیں لیکن وہ امیر گھرانے کی لڑکی تلاش کر رہے تھے۔ غریب گھر کی کئی لڑکیاں وہ ریجیکٹ کر چکے تھے۔ ریجیکٹ یہ لفظ میں نے ان کی زبان سے کئی دفعہ سنا تھا۔ آخر کار ان کا رشتہ ایک امیر گھرانے میں ہو ہی گیا۔ لڑکی خوبصورت تھی، لیکن ان کی اصل کسوٹی تو صرف بڑی پارٹی تھی۔
جس روز وہ واقعہ پیش آیا اس روز اسکول میں دماغی مشقت اور بچوں کے شور شرابے سے ہمارا ذہن تھک چکا تھا۔ چھٹّی کے بعد شام کو ہم کمرے پر آئے، تھوڑی چین کی سانس لی اور پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کھانا بنانے کی تیاری میں لگ گئے۔ گھر سے دور، ہم چار افراد، الگ الگ جگہوں سے آئے، یہاں ایک ساتھ، ایک ہی کمرے میں رہ رہے تھے۔ ملازمت تو سرکاری اسکول میں کر رہے تھے لیکن شروعاتی تین سال، صرف تین ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ہی ملنی تھی۔ جسے حکومت نے شکشن سیوک کا نام دیا تھا۔
26 نومبر 2008 شام کے وقت چولہے پر رکھے ہوئے پتیلے میں تیل اور مسالے کا پانی جھکولے مارتا ہوا ابل رہا تھا۔ منّان خان اس پتیلے میں چاول دھو کر ڈال رہے تھے۔ نہ جانے اچانک انھیں کیا ہوا کہ چاول کا برتن ان کے ہاتھوں سے دور جا گرا اور وہ برتن کی مخالف سمت میں گر پڑے۔ چولہے پر موجود پتیلے کو ان کا پیر لگا اور پتیلا ہوا میں اچھل کر ان کی طرف پلٹ گیا۔ اس میں موجود کھولتا گرم پانی ان کے اوپر گر پڑا۔ جس کی وجہ سے ان کے بدن کا نچلا حصہ بری طرح جھلس گیا۔ وہ زمین پر بے ہوش پڑے تھے اور منہ سے سفید جھاگ بہہ رہا تھا، زبان دانتوں تلے دب کر کٹ گئی تھی۔ جس کے سبب منہ سے خون بھی بہنے لگا تھا۔(جاری )
انھیں فوراً دواخانے لے جایا گیا۔ ان کی حالت دیکھتے ہی ڈاکٹر نے اپنا کام شروع کر دیا۔ تقریباً بیس منٹ بعد انھیں ہوش آیا، لیکن وہ 20 منٹ ان کی زندگی سے غائب ہو گئے تھے۔ کیونکہ بےہوشی کے دوران گزر چکے 20 منٹ ان کے ساتھ کیا ہوا، انھیں کچھ بھی یاد نہیں تھا۔ انھیں ہوش آنے کے بعد ڈاکٹر نے شہر کے بڑے اسپتال روانہ کر دیا۔
شہر کے اسپتال میں ان کے دماغ کا سی ٹی اسکین ہوا۔ رپورٹ دیکھ کر ڈاکٹر نے ٹکا سا جواب دے دیا: ”آپ لوگ جلد انھیں ممبئی یا اورنگ آباد لے جائیے کیونکہ ان کے دماغ میں لیموں برابر کا ٹیومر ہے۔“
اِدھر ان کے دماغ پر برین ٹیومر کا حملہ ہوا اور ادھر ممبئی پر 26/11 کا۔ اب کیا کریں، کہاں جائیں، کیسے جائیں، کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ جیسے سبھی کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت شل ہو چکی تھی۔ فون سے ان کے گھر اطلاع دی گئی اور مزید دیر کیے بغیر اورنگ آباد کے لیے نکل گئے۔ سفر کافی لمبا ہو گیا تھا۔ وقت تھا کہ کٹتا ہی نہیں تھا۔ گاڑی میں بیٹھے سبھی افراد کبھی تو گہری سوچ میں نظر آتے اور کبھی ایک دوسرے کے چہروں کو تکتے رہتے۔ خدا خدا کر کے ہم اورنگ آباد پہنچے، شام ہو گئی تھی، سائے لمبے ہو گئے تھے۔ ان کی امّی اور بھائی بھی اسپتال پہنچ گئے تھے، جن کے چہروں سے صاف نظر آرہا تھا کہ ان پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے۔ اسپتال میں رات بھر سبھی پر بے چینی کے سائے منڈلاتے رہے۔ وقت گزرنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ دور دور تک نیند کا نام و نشان نہ تھا۔ سبھی کی نگاہوں میں ایک عجیب سی حیرانی اور پریشانی نظر آتی تھی۔
صبح رپورٹ سامنے رکھ کر ڈاکٹر نے امریکہ لے جانے کا مشورہ دیا۔ اس کے بعد ہم واپس اسکول آگئے۔ کبھی کبھی فون پرخیریت پوچھتے تو خبر ملتی کہ علاج چل رہا ہے۔
ایک دن کی بات ہے۔ اسکول کے درمیانی وقفہ میں کھانا کھانے کے بعد سبھی مدرسین اسکول کے میدان میں کرسی لگائے بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ اچانک ایک شخص نے اسکول کا صدر دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوا۔ مجھے لگا وہ منّان خان ہیں۔ پھر سوچا وہ کیسے آسکتے ہیں؟ شاید ان ہی کی طرح دِکھنے والا کوئی دوسرا شخص ہوگا۔ اونچا قد، گٹھیلا بدن، فوجیوں کی طرح چھوٹے چھوٹے بال، سانولا رنگ، کھڑی کھڑی ناک، چمکتی ہوئی آنکھیں، چال وہی منّان خان والی، وہی پہلے جیسی چستی، پھرتی کے ساتھ قدم اٹھاتے اور مسکراتے ہوئے ہماری طرف چلے آرہے ہیں۔ انھیں دیکھ کر میں خوشی اور حیرت کی ملی جلی کیفیت سے دوچار ہوا۔
ملاقات کے بعد ہم نے ان سے پوچھا۔ تب انھوں نے بتایا کہ ہم مایوس و ناامید ہو کر گھر واپس لوٹنے والے تھے، لیکن ابّو نے فون پر ڈاکٹر صاحب سے کہا، ہم اتنی استعداد نہیں رکھتے کہ امریکہ جا کر علاج کرا سکیں اس لیے ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ اگر ممکن ہوتو میرے بیٹے کا علاج آپ اپنے ہی اسپتال میں کریں باقی اللہ مالک ہے۔ اللہ کا کرم ہوا اور آپریشن کامیاب ہو گیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے میں پہلے کی طرح چست و تند رست ہو گیا۔
برین ٹیومر کا آپریشن بڑا جوکھم بھرا ہوتا ہے۔ اس میں انسان کی زندگی داؤ پر لگی ہوتی ہے۔ پہلے استرے سے سر کے بال نکال لیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد کھوپڑی کھول کر ٹیومر باہر نکالا جاتا ہے۔ بھیجے پر نسوں کا ایک جال پھیلا ہوا ہوتا ہے۔ دوران آپریشن اگر کوئی نس دب جائے تو جسم کا کوئی بھی حصہ بے حس و حرکت ہو سکتا ہے۔
ایک روز یوں ہی باتوں باتوں میں، میں نے ان سے پوچھ لیا: ”شادی کب کر رہے ہیں جناب؟“
”نہ جانے میں نے کتنی لڑکیوں کو ریجیکٹ کیا، لیکن میری بیماری کی خبر سن کر، اس لڑکی نے، جسے میں سلیکٹ کیا تھا، مجھے ہی ریجیکٹ کر دیا۔“ یہ کہہ کر وہ زور زور سے ہنسنے لگے۔
مجھے اسی وقت اس بات کا احساس ہو گیا کہ میں نے غلط سوال کیا ہے۔ اس طرح کا سوال نہیں کرنا چاہیے تھا۔
میں نے تسلی دی: ”آپ کو تو اُس سے بھی اچھی لڑکی مل جائے گی جناب، آپ اب بھی کسی سے کم ہیں کیا!!!“
اور وہ اچانک سنجیدہ ہو گئے اور کہنے لگے: ”نہیں بھائی……. وہ گاڑی کوئی پسند نہیں کرے گا، جس کا انجن کھُل گیا ہو؟“