سال گزشتہ 2022 کا سیاسی منظر نامہ

0

ڈاکٹر سیّد احمد قادری

قدرت کا یہ نظام ہے کہ وقت اپنی رفتار سے آگے بڑھتا جاتا ہے ۔ سال آتا ہے گزر جاتا ہے اور اپنی تلخ و شیریں یادوں کا نقش چھوڑ جاتا ہے۔ گزرے سال میں ہمیشہ کچھ ایسے واقعات، سانحات اور حادثات رونما ہو جاتے ہیں جو تاریخ کا حصّہ بھی بن جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر 2002, 1992, 1964, 1962,1947 وغیرہ کے ذکر سے ہی پوری تاریخ سامنے آجاتی ہے ۔
آج ہم بالکل نئے سال 2023 میں داخل ہوئے ہیں اور ہر ایک کی یہ دعا ہے کہ یہ سال امن و امان کا سال ہو ، غربت، بے روزگاری ، بے ثباتی ، بے پناہی ، بے بسی سے ہم تمام لوگوں کو اللہ پاک محفوظ رکھے اور ہم جبر و ظلم کی آندھی کے رخ پر امن و آشتی کے چراغ روشن کرنے میں کامیاب ہوں ۔ لیکن یہ بھی اتفاق ہے کہ سال گزشتہ کے جانے سے قبل ہی ملک کے حکمراں نے کئی مثالیں دیتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ یہ شاندار سال رہا۔ جس کے جواب میں کانگریس ترجمان پروفیسر گورو ولبھ نے طنزیہ لہجے میں جواب دیا کہ کمائی گھٹی ، روپے کی قدر میں کمی آئی ، ایکسپورٹ کم ہوا ، مہنگائی بڑھی پھر بھی وزیر اعظم مودی بتا رہے ہیں ’شاندار سال‘۔ ادھر بی ایس پی کی صدر مایا وتی نے بھی ملک کی حکمراں جماعت بی جے پی کو آئینہ دکھاتے ہوئے کہا ہے کہ بی جے پی نے ابھی تک تبدیلی ٔ مذہب ، لو جہاد ، مدرسہ سروے اور ہیٹ اسپیچ جیسے لغو کاموں میں ہی وقت برباد کیا ہے ۔
سال گزر جانے کے بعد اگر اس گزشتہ سال کا جائزہ لیا جائے تو بہت زیادہ مایوسیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اوریہ سوچتا ہوں کہ کاش سال گزشتہ بقول مودی شاندار ہوتا تو آج ہم یقینی طور پر اس سال میںرونما ہونے والے شاندار واقعات کا ذکر کرتے ہوئے خوش ہوتے، لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا ۔ ویسے ہمیں اس امر کا ضرور اعتراف کرنا چاہئے کہ قدرتی آفات کے آگے انسان بلا شبہ مجبور اور بے بس ہوتا ہے ۔ مثلاً اچانک آنے والی آندھی ، طوفان ،سیلاب ، زلزلہ وغیرہ ، لیکن جب حالات ، واقعات ، حادثات اور سانحات دانستہ طور اور created یعنی پیدا شدہ ہوں تو وہ بہت تکلیف دہ اور لائق مذمّت ہوتے ہیں ۔ جس کا سلسلہ مسلسل چل رہا ہے ۔ راہل گاندھی ہوں ، رویش کمار ہوں اور اب تو ان کے سُروں میں سُر ملانے والوں میں ورون گاندھی کے ساتھ ساتھ ملک کے سیکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں دانشور ، ادبی ، فلمی ، مصوری ، موسیقی کے فنکاروں ، سابق افسران وسابق فوجیوں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ اور غیر ممالک کے حقوق انسانی کے متحرک رضاکاروں کے ذریعہ ملک میں دانستہ طور پر ہندو ، مسلم کئے جانے ان کے درمیان خلیج پیدا کئے جانے، منافرت بڑھانے، عدم رواداری، تشدد اور خوف و دہشت کا ماحول بنائے جانے کی دانستہ کوششوں کی مذمّت کئے جانے کا سلسلہ جاری رہا ۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ایسی دانستہ کوششوں کے باعث ایک طرف ملک کو سماجی، معاشی طور پر زبردست نقصان ہو رہا ہے وہیں ایسے غیر آئینی اور غیر انسانی شعوری کوششوں سے ملک کی شبیہ خراب ہو رہی ہے ۔ اس لئے کہ ہمارا ملک پوری دنیا میں سب سے بڑے جمہوری ملک کے طور پر جانا جاتا ہے ، صدیوں سے اس ملک میں مختلف مذاہب ، زبان ، رسم و رواج، ذات پات ،رنگ و نسل کے لوگ مل جل کر رہتے آئے ہیں اور مشترکہ تہذیب و ثقافت کے امین ہیں۔ لیکن افسوس کہ مٹھی بھر لوگوں کو ملک کی شاندار روایت سے صرف اس لئے چڑ ہے کہ اس روایت سے ان کے سیاسی مقاصد کے پورے ہونے میں رخنہ پڑتا ہے ۔ ملک کے بنیادی مسائل پر برسر اقتدار حکومت سے میڈیا اگر سوال کرتا، ان پر تنقید کرتا، ایسے حالات پیدا کئے جانے کی مذمت کرتے ہوئے اپنے صحافتی فرائض نبھاتا تو شاید ایسی بری حالت نہیں ہوتی۔ لیکن افسوس یہ کہ میڈیا والے اپنے کروڑپتی مالکان کے ٹیوننگ پر صحافت کی ساری اخلاقیات ، صحافتی تقاضوں اور معیار کو در کنار کرتے ہوئے رقص کرتے نظر آتے ہیں جس کی مذمت کا سلسلہ مسلسل چل رہا ہے ۔صحافت کے اعلیٰ معیار کا ایک چینل ان لوگوں کے درمیان کافی مقبول تھا، جو سیکولرازم پر یقین و اعتماد رکھتے ہیں ۔حکومت سے سوال کرنے کی ہمت ،جرأت اور اپنی بے لاگ اور بے باک جائزے کے لئے معروف اس چینل کے ایک گھنٹے کے مرتب کردہ پروگرام ’پرائم ٹائم ‘ کی صرف اور صرف اس وجہ سے شہرت اور مقبولیت رہی کہ رویش کمار حکومت کی چاپلوسی کرنے کے بجائے ملک کے عوام الناس کے بنیادی مسائل کو اجاگر کیا کرتے تھے۔ لیکن حکومت کو چونکہ ایسا کوئی اخبار اور نیوز چینل پسند نہیں جو سچ بتاتا ہو اور سچ دکھاتا ہو ۔ اس لئے گزشتہ کئی برسوں سے بہت سارے اخبارات اور چینلوںکی طرح اسے بھی یرغمال بنانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن رویش کمار وقت کے دھارے سے مخالف سمت میں چلنے پر یقین رکھتے ہیں اس لئے وہ کسی بھی مُنھ مانگی قیمت پر جب بکنے کو تیار نہیں ہوئے، تب حکومت کے لئے اپنی تجوری کو کھولے رکھنے والے اڈانی نے اس پورے چینل کو ہی خرید کر صحافت کی بے باک، بے لاگ اور حقائق پر مبنی آواز پر قفل ڈال دئے ۔ ایسے سچ بیان کرنے والے اس وقت نہ جانے کتنے صحافی جیلوں کی قید و بند کی سزا کاٹ رہے ہیں ۔ صدیق کپن ناکردہ گناہ کی کئی سال سزا بھگت کر ابھی ابھی جیل سے باہر نکلے ہیں ، آلٹ نیوز کے محمد زبیر کو نُپور شرما کی حضور محمد ﷺ کے لئے استعمال کئے گئے نازیبا الفاظ کی سچائی دکھانے کی پاداش میں کسی طرح کا جواز نہیں ملا تو ایک پرانی فلم کے منظر کو بنیاد بنا کر انھیں جیل بھیجا گیا ۔ لیکن عالمی دباؤ اور عدالت کے سخت رویہ کے بعد محمد زبیرکو جیل سے رہا کرنا پڑا ۔ حکومت کے اس ظلم و زیادتی سے محمد زبیر کو بڑا فائدہ یہ ہوا کہ وہ عالمی منظر نامے پر آ گئے اور نوبل امن انعام کے لئے اس بار کئی ناموں میں ان کا بھی نام نامزد کیا گیا ۔ ملک میں آزادیٔ صحافت پر مسلسل پہرے بٹھانے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ عالمی سطح پر یہاں کی صحافت 180 ممالک میں 150 ویں مقام پر پہنچ گئی ہے ۔ اپنے سیاسی مفادات اور اقتدار پر برقرار رہنے کے لئے ملک کی اقلیتوں کے ساتھ طرح طرح کے ناروا سلوک کا سلسلہ اس سال بھی پوری شدت سے جاری رہا ۔ موجودہ حکومت کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس ملک پر تقریباً ہزار سال تک مسلمانوں کی حکومت رہی لیکن ان پورے ادوار میں مسلم حکمرانوں کادانستہ طور پر ایسا کوئی کردار و عمل نہیں رہا جسے مذہب کی بنیاد پر دشمنی قرار دیا جائے ۔ اس لئے اب کہا جارہا ہے ملک کی جو تاریخ لکھی گئی ہے وہ غلط لکھی گئی ہے اس لئے اب نئی تاریخ لکھنے کی ضرورت ہے ۔ اب تک کتنی تاریخیں بدل بھی دی گئی ہیں اور یہ تبدیل شدہ تواریخ بچوں کے نصاب میں شامل بھی کر لی گئی ہیں۔ مرکزی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے ابھی اپنے حالیہ بیان میں فرمایا ہے کہ ’ہندوستان میں تاریخ غلط لکھی گئی ہے لیکن اب حکومت ہند پوری طاقت کے ساتھ نئی اور درست تاریخ لکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہندوستان کا سب سے بڑا سرمایہ اس کی تاریخ اور تعلیم ہے۔ ‘ وزیر تعلیم کے اس بے تکے بیان کے جواب میں ریاست بہار کے سابق وزیر تعلیم اور موجودہ وزیر مالیات وجے چودھری نے بی جے پی کو آئینہ دکھاتے ہوئے کہا کہ ’دراصل تاریخ میں کوئی کردار نہ ہونے کی وجہ سے بی جے پی کے لوگ اب بے چینی محسوس کر رہے ہیں ۔ بی جے پی ملک کی تاریخ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا چاہتی ہے ۔ یہ گندی ذہنیت کی علامت ہے ، اب تاریخ کو دوبارہ لکھنے سے سچ کیسے بدلے گا ۔ ‘ مسلمانوں کے نام کو ہر ممکن طور پر مٹانے کی پوری کوشش کئے جانے کا اس سال بھی سلسلہ جاری رہا ۔ ایسا کرکے ملک کی تاریخی و ثقافتی وراثت کو مٹا کر ملک کی شاندار پہچان کو ختم کر دینے کی یہ مزموم کوشش ہے۔ جہالت اور نفرت کی انتہا یہ ہے کہ ملک کے متعصبوں کو علّامہ اقبال کی اسی ملک کے لئے کہی گئی دعائیہ نظمیں ناقابل برداشت ہیں ۔ گزشتہ سال نے ملک میںیہ افسوسناک منظر بھی دیکھا کہ اسکول میں ’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘ یا ’ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنّا میری ‘ علامہ اقبال کے یہ ترانے گائے جانے پر اعتراض کیا گیا اور اسکول کے اساتذہ کو اتنے ’بڑے جرم ‘ کے ارتکاب کی سزا دی گئی ۔ اب تو مسلمانوں کے قاتلوں اور زانیوں کو بھی سنسکاری اور معزز بتاتے ہوئے انھیں عمر قید سے چھڑا کر جو پیغام دیا جا رہا ہے اس سے ملک کے مسلمان خوف و دہشت میں تو مبتلا ہوں گے لیکن اس پیغام سے بیرون ممالک میں کیا امیج بنے گی ؟ کا ش کہ اس پہلو پر لمحے بھر کے لئے بھی سوچا گیا ہوتا ۔ گجرات کے سانحہ کو دنیا نے دیکھا اور عالمی سطح پر مذمّت کی گئی لیکن اس کی سچائی بتانے والی معروف سماجی کارکن تیستا سیتلواڑ اور سابق آئی پی ایس افسر آر جی سری کمار وغیرہ کو حوالات میں بھیجے جانے کی بے رحم حقیقت کا بھی یہ سال گواہ بنا ہے ۔ مسلمانوں کے رفاح عام کے لئے کام کرنے والی ایک سماجی تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے دفاتر اور اس تنظیم سے وابستہ اشخاص کے گھروں پر ملک کی 13 ریاستوں میں بیک وقت این آئی اے نے گزشتہ 22 ؍ ستمبر کو چھاپہ مارتے ہوئے 106 افراد کو گرفتار کرکے بھی ’ بڑا کارنامہ ‘ انجام دیا ۔ کشمیر میں 370 ختم کئے جانے کے باوجود حالات قابو میں نہیں ہو پا رہے ہیں حکومت اس بے جا اور غیر آئینی فیصلے کو جائز اور درست دکھانے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے ،پھر بھی کامیابی بہت دور کھڑی نظر آ رہی ہے ۔ اسی ضمن میں کشمیری پنڈتوں پر کئے جانے والے بے بنیاد مظالم کو دکھانے کے لئے ایک فلم ’دی کشمیر فائل ‘ حکومت کی سرپرستی میں وویک اگنی ہوتری جیسے ناکام ترین فلم ہدایت کار اور بی جے پی کے زبردست ہمنوا اداکار انوپم کھیر کو ہیرو بنا کر تیار کی گئی ، اسے کئی ریاستوں میں ٹیکس فری بھی کیا گیا تاکہ لوگ اس فلم کو زیادہ سے زیادہ دیکھیں اور کشمیریوں کو دہشت گرد تصور کر مار گرائے جانے کو جائز قرار دیں۔ لیکن حکومت کی جانب سے ساری کوششوں کے باوجود فلم کو عوامی پزیرائی میسر نہیں ہوئی، تب حکومت نے اپنے رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے اس فلم کو مقبول ثابت کرنے کے لئے انڈین انٹر نیشنل فلم فیسٹیول میں نامزد کرا دیا اور اسے ایوارڈ دلانے کی بھی کوشش کی گئی، لیکن اس سب کئے کرائے پر اس وقت پانی پھر گیا جب اس فیسٹیول کے جیوری ہیڈ اور اسرائیلی فلم ساز نادو لاپڈ نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس فلم کو لغو اور عریانی فلم قرار دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ جب یہ فلم دیکھی تو میں حیران رہ گیا کہ کشمیر کے مسئلہ پر یہ فلم حکومت کے پیمانوں کو کتنے واضح طریقے سے پیش کرتی ہے ۔ نادو لاپڈ نے یہاں تک کہہ دیاکہ یہ فلم بنیادی طور سے کشمیر میں ہندوستانی پالیسی کو درست ٹھراتی ہے لیکن اگر غور کیا جائے تواس میں فاشزم اور اس پر مبنی عناصر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ اس متنازع فلم سے حکومت بری طرح سے بیک فٹ پر نظر آئی اور خوب ہنگامہ آرائی ہوئی۔ حکومت اپنی ناکامیوں اور خامیوں کی پردہ پوشی کا بہترین ذریعہ فلم اور فلم کے اداکار کی شہرت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہے ۔ ابھی جب گجرات انتخاب کے نتیجے پر سوال اٹھنے لگے تو اس کے لئے شاہ رخ خان کی ریلیز ہونے والی فلم ’پٹھان ‘ کے ایک گانا کی مدد لی گئی اور میڈیا نے لوگوں کی اس طرح ذہن سازی کی کہ ہر طرف چرچا بھگوا بکنی تک مرکوز ہو گیا، سارے مسئلے وقتی طور پر سرد پڑ گئے ۔
گزشتہ سال حقوق انسانی کی خلاف ورزی والے قوانین اور عدالتی فیصلوں میں اضافے کا بھی رہا۔ مثلاً تبدیلیٔ مذہب مخالف قانون ، حجاب مخالف فیصلہ، اور تازہ شوشہ اٹھا ہے یکساں سول کوڈ کا ۔ دراصل حکومت ایسے ہی ایشوز کو اٹھاکر لوگوں کو اصل مسئلہ سے دور رکھنا چاہتی ہے ۔ لیکن راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا نے حکومت کو پریشانی میں ڈال دیا ہے کہ وہ روزانہ ملک کے اصل مسئلہ کو اٹھا کر حکومت کو بے نقاب کررہے ہیں ۔ اب نئے سال کی آمد پر ہم تمام لوگوں کی یہی خواہش اور دعا ہے کہ راہل گاندھی ملک کے نفرت بھرے بازار میں محبت کی دکان کھولیں اور یہ دکان پورے ملک میں خوب فروغ پائے ۔
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS