محمد حنیف خان
ہم ہندوستانی بڑے جذباتی ہوتے ہیں،اس میں مذہب کی کوئی تفریق نہیں،ذرا سا کہیں کچھ ہوا اور ہمارے جذبات کو نہ صرف ٹھیس پہنچ جاتی ہے بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے گھر و بازار جلنے لگتے ہیں،اکثر و بیشتر فسادات کی جڑیں ان ہی نازک جذبات میں پوشیدہ ہوتی ہیں،اگر ان جذبات کو ذرا سخت بنا لیا جائے تو کسی مذہب و ملت کے بجائے ملک اور انسانیت کا بڑا فائدہ ہوسکتا ہے۔ لیکن ہندوستانی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ ان کے جذبات بڑے نازک ہیںحالانکہ فنون لطیفہ کو ان کی نازکی کی بنا پر ہی فنون لطیفہ کہا گیا ہے البتہ اب یہ فیصلہ مشکل ہورہا ہے کہ جذبات اور فنون لطیفہ دونوںمیں کو ن زیادہ نازک ہے۔
ابھی تک یہاں رہنے بسنے والے انسان ایک دوسرے کے جذبات کو ٹھیس پہنچایا کرتے تھے مگر اب رنگ بھی جذبات کو مجروح کر رہے ہیں،جس سے لوگ زخمی ہوکر ہائے توبہ مچائے ہوئے ہیں،ان کی اس ہائے توبہ نے ایک پورے ادارے کے کردار پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے کیونکہ اس ادارے نے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی عوامی شکایت کو سنجیدگی سے لے لیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جذبات کو کسی خاص انسان نے ٹھیس پہنچائی ہے،یا اس انسان کی وجہ سے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے یا پھر واقعی رنگ اب جذبات کو مجروح کرنے لگے ہیں۔ماضی اور حال کے ساتھ شکایت کنندگان کی گفتگو سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کوئی معشوق ہے پردہ زنگاری میں۔لیکن اگر اسی طرح ہر طبقے کو یہ رنگ ٹھیس پہنچانے لگے اور ادارہ ان کی شکایتوں کا اسی طرح ازالہ کرنے لگا تو فلموں کو تو چھوڑیے، معاشرے کا کیا ہوگا، وہ کس رنگ کے کپڑے پہنے گا،شاید اس کاجواب کسی کے پاس نہ ہو۔
گزشتہ چند برسوں میں متعدد ایسی فلمیں پیش کی گئی ہیں جن پر تنازع ہوا ہے،اس تنازع سے نقصان کم اور فائدہ زیادہ ہوتا ہے۔شاہ رخ خان جنہیں کنگ خان اور بادشاہ خان کے نام سے بھی جاناتا ہے،ان کے مداحوں کی دنیا میں ایک بڑی تعداد ہے،جنہیں ان کی فلموں کا بے صبری سے انتظار رہتا ہے۔ان کی فلم ’’پٹھان‘‘ ریلیز ہونے سے قبل ہی تنازع کا شکار ہوگئی،رائٹ ونگ کی تنظیموں نے نہ صرف بائیکاٹ کا اعلان کردیا بلکہ بعض شدت پسندوں نے تو ان سنیماگھروں کو نذر آتش کرنے کی بھی عوام سے اپیل کردی جن میں یہ فلم لگائی جائے،اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس فلم کی مخالفت کا کیا عالم ہے۔مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نے ایک گانے کی ریلیز کے بعد صاف طور پر دھمکی دی تھی کہ اگر فلم میں تبدیلی نہیں کی گئی تو مدھیہ پردیش میں اس پر پابندی بھی لگائی جا سکتی ہے۔اس طرح رائٹ ونگ کی تنظیموں کے ساتھ ہی ایک ریاست کے ایک اہم اور آئینی عہدے پر بیٹھے ہوئے شخص کی مخالفت کے بعد سماج اور سوشل میڈیا پر اس فلم کے خلاف پوری مہم شروع ہوگئی،جس کے بعد سنسر بورڈ نے فلم کے کچھ مناظر میں تبدیلی کا مشورہ دے دیا،بورڈ کے چیئر مین نے صاف طور پر کہا ہے کہ فلم سازوں کو عوام کے جذبات کا خیال رکھنا ہوگا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا رنگ کی وجہ سے کسی فلم کا کوئی سین اس سے ہٹا دیاجانا چاہیے؟بورڈ نے ایسے معاملات میں جو قدم اٹھایا ہے، وہ اٹھانا چاہیے؟اس کا جواب نفی اور اثبات دونوں میں دیا جا سکتا ہے،مسئلہ صرف فکر کا ہے کہ کون کس فکر کا حامل ہے۔ایک عام شخص کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور نہ ہی اس کو اس میں کچھ ایسا لگتا ہے جس سے جذبات کو ٹھیس پہنچے لیکن وہ افراد جن کی ذہنی تربیت اورذہن سازی ایک خاص نہج پر ہوئی ہے، ان کے لیے یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔
ہندوستان میں اب ایک بات بہت عام ہوچکی ہے کہ ایک خاص طبقے کے افراد کے نہ صرف جذبات کو فوراً ٹھیس پہنچ جاتی ہے بلکہ 2014کے بعد سے وہ کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے جب تفوق کے لیے حدیں پار کرتے ہوئے نظرنہیں آتے ہیں۔دیپکا پادوکون کی ہی فلم ’’پدماوت‘‘بھی تنازع کا شکار ہوگئی تھی،جس کے نام میں تبدیلی کے بعد اسے ریلیز کیا گیا تھا،عامر خان کی فلم ’’پی کے‘‘پر بھی گفتگو ہوتی رہتی ہے کہ اس میں ایک خاص مذہب کا مذاق اڑایا گیا ہے۔فلم پٹھان کے گانے کی ریلیز کے بعد دیپکا پادوکون میں تو ’’مسلم جین‘‘ کی بھی تلاش کی جانے لگی، ان کے بارے میں یہ بھی صاف طور پر کہا گیا کہ وہ ’’ٹکڑے ٹکڑے گینگ ‘‘کی حامی ہیں۔اس گانے کی ریلیز کے بعد جس طرح کی گفتگو ابھر کر سامنے آئی ہے، اس سے یہ صاف محسوس ہوتا ہے کہ خاص ذہنیت کے افراد صرف سماج میں ہی نہیں، فلموں میں بھی اپنی ذہنیت کا ہی مواد چاہتے ہیں،کیونکہ جب حال ہی میں ایک ایسی فلم ریلیز ہوئی جس کے بارے میںایک غیر ملکی فلم ناقد نے منفی تبصرہ کردیا تو اس کے خلاف ملکی و غیر ملکی میڈیا میں ایک طومار کھڑا ہوگیا اور بالآخر اس کو اپنی رائے پر پشیمان ہونا پڑا،اس فلم کو صرف اس لیے پسند کیا گیاکیونکہ ان کی ذہنیت کے مطابق تھی،اس سے ان کو غذا اور سکون مل رہا تھا۔اس طرح کی ذہنیت اگر سماج میں عام ہوتی ہے تو فلم کے دونوں مقاصد تفریح طبع اور مثبت ذہن سازی کو نہ صرف دھچکا لگے گا بلکہ ایک خاص فکر کو سماج میں راہ دینے کا یہ ذریعہ بھی بن جائے گا۔
سنسر بورڈ اس ملک کا ایک با وقار ادارہ ہے،جس کی ذمہ داریوں میں یہ شامل ہے کہ وہ فلموں پر نظر رکھے اور ایسے مواد سے معاشرے کو بچائے جس سے سماج کے بے راہ روی کے شکار ہونے کا خطرہ ہو،اسی طرح سے عوام کو متنازع مواد سے بھی بچائے لیکن کیا اس نے اب ذمہ داریوں کو ادا کیا ہے؟اس تعلق سے اگر دیکھا جائے تو اس فلم کے مذکورہ گانے سے بھی کہیں زیادہ فحش مناظر اس سے قبل کی فلموں میں پیش کیے جا چکے ہیں، زرد کپڑے بھی جس طرح معاشرے میں پہنے جاتے ہیں، اسی طرح فلموں میں بھی ہیرو اور ہیروئن پہنتے رہے ہیں،ایسے میں صرف اسی فلم کے یہ مناظر اس کی نظر میں کیوں آئے؟کیوں ان کے ہٹانے کا مشورہ دیا گیا؟بات در اصل یہ ہے کہ سنسر بورڈ اپنی سوچ،فکر اور اپنے ضابطے کے مطابق چلنے کے بجائے جب کسی گروہ کی فکر کا حامل ہوجائے یا اس کی فکر اس پر اثر انداز ہوجائے تو ایسے ہی فیصلے سامنے آتے ہیں۔ ایک ادارے کے اس طرح کے اقدام سے معاشرے میں یہ پیغام جاتا ہے کہ سنسر بورڈ بھی آزادی کے ساتھ کام نہیں کر رہا ہے، وہ جانبداری کا مظاہرہ کر رہا ہے جو کسی بھی ادارے کے لیے ازحد نقصان دہ ہے۔اس کے اس فیصلے کے بعد جس طرح سے سوشل میڈیا پر اس کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اس سے اسے سبق لینا چاہیے،بورڈ کے فیصلہ کے بعد ایک کارٹونسٹ نے کچھ یوں طنز کیاہے کہ ’’پوری فلم ہی بلیک اینڈ وہائٹ کردیتے ہیں،نہ ہوں گے رنگ نہ بھاؤنائیں آہت ہوں گی‘‘۔یہ صرف ایک کارٹون یا طنزیہ جملہ نہیں ہے بلکہ اس میں سنسر بورڈ کی ذہنیت کو نشانہ بنایا گیا ہے۔اب یہ بورڈ پر ہے کہ وہ ماضی کی طرح مستقبل میں بھی جانبدار رہتا ہے یا پھر وہ اپنے رویے میں تبدیلی لاتا ہے کیونکہ اس نے مغل اعظم جیسی فلم کو ہندی کا سرٹیفکیٹ دیا تھا۔اس سے ماضی میں اس کی جانبداری کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود جمہوریت میں ایک سرکاری ادارے سے ہمیشہ غیرجانبداری کی امید کی جاتی ہے۔شاید مستقبل میں دیکھنے کو مل جائے۔
در اصل ملک میں ایک ایسی فضا قائم کردی گئی ہے، جس میں یہ مان لیا گیا ہے کہ اب ہم جو چاہیں گے وہ ہو کر رہے گا،اسی نظریہ کے تحت رائٹ ونگ سے وابستہ تنظیمیں سامنے آجاتی ہیں اور فنون لطیفہ کا گلا گھونٹنے کی کوششیں کی جانے لگتی ہیں جیسا کہ ماضی میں اسٹینڈ اپ کامیڈی اور پینٹنگس سے متعلق بھی دیکھا جا چکا ہے، فنون لطیفہ کو اگر ملک میں زندہ رکھنا ہے تو جذبات کو قابو میں رکھنا ہوگا، عوام کے ساتھ ہی سرکاری اداروں کو حد درجہ غیر جانبداری سے اپنا کام کرنا ہوگا ورنہ فنون لطیفہ کو لطیفہ بنانے میں ان کا کردار سب سے نمایاں ہوگا۔
[email protected]