شاہنوازاحمد صدیقی
اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنے عہدے کا حلف لینے سے قبل اپنی پالیسی کا اعلان کیا اور شروعات میں ہی عالمی برادری کو آگاہ کردیا کہ ان کے منصوبے کیا ہیں۔ انہوںنے مغربی کنارے کے تمام علاقوںمیں بطور خاص گلیلی نجیو جوڈیا اور سماریہ (ملاحظہ کریں نقشہ نمبر1)میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کا اعلان کیا۔ خیال رہے کہ بنجامن نیتن یاہو نے اس موقع پر شام سے چھینی گئی زمین جولان کی پہاڑیوں پر بھی اپنی بستیاں بسانے کا اعلان کیا۔ جولان ہائٹس پر اسرائیل نے چھ دن کی جنگ میں قبضہ کیا تھا۔ اس جنگ میں اسرائیل نے مصر، لبنان، شام، اردن کی جگہوں پرقبضے کئے تھے۔ ان ملکوں نے مشترکہ طورپر اسرائیل پر حملہ کرکے اس خطے کو اسرائیل سے پاک کرنے کا منصوبہ بنایا تھا مگر ہوا اس کے برعکس اسرائیل نے ان عرب ملکوںکی مشترکہ فوجوںکو شکست دے کر ان کے بڑے علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ اس میں شام کی جولان کی پہاڑیاں بھی شامل ہیں۔ بعدازاں اسرائیل نے ایک قانون بناکر غیرقانونی طورپر غصب کی گئی اس سرزمین کو اپنے ملک کا حصہ قرار دیا تھا۔ بہرکیف یہ اعلان تمام ان امن پسند ملکوں اور قوموں کے لئے ایک وارننگ ہے جوکہ یہ امیدلگائے بیٹھے تھے کہ جمہوری طورپر منتخب سرکار اسرائیل -فلسطین مذاکرات شروع کرکے خطے میں قیام امن کی راہ ہموار کرے گی۔ ان صفحات میں اس سے قبل بھی بتایا جاچکا ہے کہ اسرائیل اورامریکہ چاہتے ہیں کہ ناٹو کی طرز پر یا ناٹو کی توسیع کرکے اسرائیل عرب ملکوں کے ساتھ کسی دفاعی سمجھتے میں بندھ جائے اور اپنے پڑوسی ملکوںکے ساتھ جنگ کے خاتمے کا اعلان کردے تاکہ عالمی سطح پر اور علاقائی طورپر اقتصادی خودکفالت اور مستقل امن کے قیام امن کی راہ ہموار ہو۔ پچھلے دنوں جب جی سی سی کی کانفرنس میں جدہ میں امریکی صدر جوبائڈن شریک ہوئے تھے اس وقت بھی یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ شاید جوبائڈن اسرائیل کے ساتھ مل کر عرب ملکوں کے ساتھ مفاہمت کرادیںاور اسرائیل اورامریکہ کے دیرینہ حریف ایران کے خلاف کوئی محاذ تیار ہوجائے۔ مغربی ممالک مسلسل اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ ایران اس خطے کے امن کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے اس کا نیوکلیر پروگرام نہ صرف یہ کہ اسرائیل کے وجودکے لئے خطرہ ہے بلکہ آس پڑوس کے عرب ممالک بھی اس کے خطرے کاشکار ہیں۔ امریکی صدر نے اپنے صدرمنتخب ہونے کے بعد سعودی عرب کے سب سے طاقتور قائد شہزادہ محمدبن سلمان سے ملاقات کی تھی اور سعودی عرب کے فرمانرواں سلمان بن سعود کے ساتھ ملاقاتوںمیں بھی اس سمجھوتے کے امکانات کا جائزہ لیا گیا تھا۔ جوبائیڈن جی سی سی کانفرنس میں شرکت کے بعد مغربی ایشیا کے دیگرممالک خاص طورپراسرائیل اور مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کے ہیڈکوارٹر بھی گئے تھے جہاں انہوں نے مسئلہ فلسطین کے ان دونوں کلیدی فریقوں سے ملاقات کی تھی۔ اس وقت اسرائیل میں ایک عارضی، عبوری حکومت لپڈ یایئر کی قیادت میں کام کر رہی تھی۔ اس وقت یہ تاثر دیا گیا کہ چونکہ اسرائیل میں انتخابی عمل چل رہا ہے اور کوئی مستقل حکومت برسراقتدار نہیں ہے لہٰذا ناٹو کی طرز کے یا ناٹو ایکسٹینشن کے کسی بھی سمجھوتے یا فلسطینیوںاور اسرائیل کے درمیان کسی مفاہمت کے امکانات کو تلاش کرنے کا یہ کوئی معقول موقع نہیں ہے۔ بہرکیف جوبائیڈن نے اس سلسلے میں ان امکانات کا جائزہ لیا کہ کیا سعودی عرب سمیت مغربی ایشیا کے عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ کوئی وسیع تر سمجھوتہ کرسکتے ہیں یا نہیں۔ قارئین کو یادہوگا کہ عرب کے مسلمانوں، یہودیوںاور عیسائیوںکے درمیان عالمی سطح پر مفاہمت اور خیرسگالی کو فروغ دینے کے لئے Abraham Accordابراہم سمجھوتہ کا فارمولہ پیش کیا گیا تھا جس میں کئی عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل نے نہ صرف یہ کہ تجارتی، اقتصادی تعلقات قائم کئے تھے بلکہ کئی ملکوںکے ساتھ تو دفاعی سمجھوتے بھی کئے تھے اس میں سب سے اہم سمجھوتہ مغربی افریقہ کے ایک اہم ملک مراکش بھی شامل ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیل کی سابقہ حکومتوں نے جو سمجھوتے کئے تھے موجودہ نیتن یاہو سرکار ان سمجھوتوں کا احترام کرے گی یا اپنی راہ اختیار کرے گی۔ نیتن یاہو اور ان کی کابینہ میں شریک دیگر انتہاپسند یہودی پارٹیوں کے وزرا سخت ترین بیانات دیتے رہے ہیں اور اب دیکھنا یہ ہے کہ بار بار کے انتخابات کے بعد قائم ہونے والی نئی سرکار کس طریقے سے عالمی برادری کی تمنائوںاور خواہشوںپر عمل کرے گی یااپنا روایتی سفاکانہ عمل جاری رکھے گی۔
٭٭٭