خواجہ عبدالمنتقم
اقوام متحدہ کا 2023کا موضوع فکرہے ’قیام امن کی ضمانت کے لیے ہم کلامی کا بین الاقوامی سال ‘۔ اب سو ملین ڈالر کا پوچھا جانے والا اورحل طلب سوال یہ ہے کہ کیا اقوام متحدہ اپنے متنوع ماضی کے پس منظر میں نئے سال میں روس و یوکرین کے مابین امن قائم کرانے میں فعال کردار ادا کر سکے گا؟پہلی جنگ عظیم میں ہونے والی تباہی اورمالی وجانی نقصان کے ردعمل کے طورپر یکم جنوری،1920کو مجلس اقوام وجود میں آئی ۔اس کی بنیاد ولسن کے ان چودہ نکات پر تھی جن میں انسانی حقوق کے تحفظ کی بات کہی گئی تھی۔ ابھی پہلی جنگ عظیم میں ہونے والی تباہی کو دنیا بھلا بھی نہیں پائی تھی کہ دوسری جنگ عظیم نے ایک بار پھر انسانیت کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ تمام دنیا جانتی ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں جو تباہی اور بربادی ہوئی تاریخ میں اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔ اس جنگ عظیم میں ناگاساکی اور ہیروشیما میں ایٹم بم کا استعمال کیا گیا اور لاتعداد بے گناہ لوگوں کو ابدی نیند سونا پڑا۔ شاید یہ دنیا کی تاریخ میں سب سے بڑا وہ واقعہ ہے جس نے دنیا کی تمام مہذب قوموں کو یہ سوچنے کے لیے مجبور کردیا تھاکہ انسانی حقوق جس میں انسانوں کی جان ومال کی حفاظت بھی شامل ہے، کا تحفظ اشد ضروری ہے۔ اسی تاریخی پس منظر میں 24اکتوبر 1945 کو اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا اور اقوام متحدہ کے منشور (چارٹر) میں انسانی حقوق کے تحفظ کا اعادہ کیا گیا۔ خود اس چارٹر کی تمہید ہی اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ اقوام عالم کو اقوام متحدہ کے قیام کے وقت یہ مکمل احساس ہوچکا تھا کہ اس مہذب دنیا کو چلانے کے لیے کچھ ایسے اصول درکار ہیں جن سے انسانی عظمت کا تقدس برقرار رکھا جاسکے اور انسانی حقوق کی پامالی جیسی غیر انسانی حرکات کو روکا جاسکے۔ تمہید کے ابتدائی جملے میں ہی یہ بات کہی گئی ہے کہ اقوام متحدہ کا قیام، آنے والی نسلوں کو جنگ وجدل سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا گیا ہے تاکہ تیسری جنگ عظیم سے بچا جاسکے۔اس کے علاوہ اس چارٹر میں اقوام متحدہ کے اغراض ومقاصد میں دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ شامل ہیں امن عالم اور سلامتی بنائے رکھنا اور اس غرض کو پورا کرنے کے لیے درپیش خطروں کے تدارک اور جارحانہ کارروائیوں یا نقض امن کی دیگر کارروائیوں کو دبانے کے لیے اور ایسے بین الاقوامی تنازعات یا حالات کا، جن کے باعث نقض امن ہوسکتا ہو، پرامن طریقے سے اور انصاف وبین الاقوامی قانون کے اصولوں کے مطابق حل نکالنے یا نپٹارہ کرنے کے لیے موثر اجتماعی اقدام کرنا۔ اس کے بعد 2001 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کی آفاقیت کو تسلیم کرتے ہوئے متمدن اقوام کے مابین ہم کلامی کے لیے ایک عالمی ایجنڈا منظور کیا تھا تاکہ اس سے اقوام عالم کو ایک دوسرے کے ساتھ بہتر اور دوستانہ تعلقات رکھنے میں مدد ملے اور ان کے دوستانہ تعلقات میں مزید استحکام آئے۔ اگر ان کے درمیان کوئی تنازعات ہیں تو ان کا بھی باہمی میل جول اور گفت وشنید کے ذریعہ حل نکالا جا سکے۔ان دونوں دستاویزوں کو دنیا کے بیشتر ممالک نے بخوشی قبول کیا تھا مگر اب یہی حکومتیں،خاص کر بڑی طاقتیں، کبھی اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے، کبھی اپنے سیاسی حریف ملک کو نیچا دکھانے کے لیے،کبھی فوجی نقطۂ نظر سے ، کبھی اپنی تجارتی ترجیحات کے سبب ، صدق دلی سے قیام امن کے لیے کوشاں ہونے کے بجائے کبھی کسی ملک کو تو کبھی کسی ملک کوجنگ پر آمادہ کرنے کے لیے آگ میں تیل ڈالنے کا کا م کرتی ہیں اور کبھی کبھی تو محض غیر منطقی فیصلہ کرکے، اپنے ہزاروں فوجیوں کی قربانی دے کر، اربوں روپے کے ہتھیار ضائع کرکے یا فروخت کرکے اور پھر بھی اپنے اپنے مشن میں کامیاب نہ ہو کراپنی جان چھڑاکر تباہ معیشتوں، تباہ حال لوگوں،یتیموں اور بیواؤں کو بے یار و مددگار چھوڑ کر یہ جانتے ہوئے کہ جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں، جنگ تو خود ایک مسئلہ ہے، پھر کسی جنگی محاذ کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ اس میں تمام بڑی طاقتیں شامل ہیں۔مشر ق وسطیٰ ، ویتنام ،افغانستان، عراق و دیگر متاثر ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
دراصل وہ قومیں یا حکومتیں جو دوسروں کے ہاتھوں میں کھیلتی ہیں،ان کا یہی حشر ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ ممالک جو اپنی فوجی طاقت سے زیادہ فوجی طاقت والے ممالک سے لڑنے کی حماقت کرتے ہیں ان کا بھی یہی حشر ہوتا ہے مگر ایک طرف زیلنسکی کو یہ بات سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ وہ روس جیسی طاقت کا کب تک مقابلہ کریں گے اور دوسری طرف روسی حکمراں یہ سمجھنے سے قاصر ہیںکہ اگر جنگ طویل ہو گئی تو روس دنیا کی ایک بڑی طاقت کے در جہ سے محروم ہوجائے گا۔ علاوہ ازیں یہ کہ امریکہ اور یوروپی ممالک کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ کہیں اگر پوتن نے نیوکلیئر ہتھیاروں کا استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا تو اس کا انجام کتنا خوفناک ہوگا؟ کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جو شاعر مشرق علامہ اقبال کے ایک شعر کے اس مصرعۂ اول ’عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہمدردی بھی‘ پر عمل کرتے ہوئے تماشائے ’اہل کرم‘ دیکھ رہے ہیں ۔
کیا کبھی کسی نے یہ سوچا ہوگا کہ روس، امریکہ، فرانس اور انگلینڈ ،جن کا بین الاقوامی مسائل کے الجھانے اور سلجھانے میں ہمیشہ سرگرم رول رہا ہے، کے بجائے ہندوستان، ترکی اور سعودی عرب پوتن اور زیلنسکی کو یہ سمجھائیں گے کہ لڑنا بری بات ہے اور یہ کہ وہ ممالک جو اپنی حفاظت یا اپنے مسائل کے لیے بڑی طاقتوں پرمنحصر رہتے تھے، انہیں روس اور یوکرین کی مد دکرنی پڑے گی،خواہ اس کی نوعیت سیاسی ہو یا اقتصادی یا دیگر۔ کیا یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ مبینہ طور پر ایرانی ڈرون روس کا امدادی ذریعہ بنیں گے۔
چین ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے اور اسے اپنی معیشت کی مضبوطی کے لیے اپنے بازار کو عالمی پیمانے پر وسیع سے وسیع تر بنانا ہے وہ خود کو کبھی جنگ کی آگ میں نہیں جھونکے گا۔ہاں وہ اپنے پڑوسیوں کو گیدڑبھپکی کے ذریعہ خوف میں ضرور مبتلا کرتا رہے گا اور ’دوست کا دشمن اپنا دوست ‘ کے اصول پر عمل کرتا رہے گا ۔ جب ہم جیسے معمولی قلم کار بین السطور پنہاں پیغام کو سمجھ پا رہے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے دانشور، سیاست داں اور سفارت کار ان سب باتوں کو نہ سمجھ پائیں۔ دراصل یہ ان کا تجاہل عارفانہ ہے ۔دریں صورت اگر اقوام متحدہ کو اپنے وقار اور اپنے پیغامات کی معنویت کو برقرار رکھنا ہے تو اسے روس اور یوکرین کے مابین تنازعات کو ختم کرانے کے لیے اپنی طاقت کا،خواہ محدود ہی سہی، حتی المقدور استعال کرنا ہوگا بصورت دیگر اسے کاغذی یا محروم دنداں ببر شیر ہی کہا جائے گا۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]