زین شمسی
یوم غالبؔ کی دھوم کے دوران ایک ویڈیو نظر نواز ہوا جس میں غالبؔ کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے مقررین غالبؔ کی عظمت اور ان کے بلند پایہ افکار کا ذکر کر رہے تھے، مگر ان کی بدقسمتی یہ تھی کہ انہیں سننے والا موجود ہی نہیں تھا۔ یہ کوئی ایسا واقعہ یا حادثہ نہیں ہے جس پر فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ یوں بھی اردو کے کسی پروگرام میں سامعین کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے کسی نہ کسی طرح کے حربے کا استعمال لازمی امر ہوچکا ہے، اور اب جبکہ انٹرنیٹ نے انسانوں کے دل و دماغ پر قبضہ کر لیا ہے تو سامعین کو گوگل سے بڑا کوئی استاد نہیں ملتا جس کی علمی باتیں سننے کے لیے وہ اپنے پائوں کو جنبش دینا چاہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرکوں پر لکھی گئی شاعری بھی دیوان غالبؔ کا حصہ سمجھی جانے لگی ہے۔ غالب کی مقبولیت میں اضافہ ان کی تضحیک و توہین کے ساتھ بھی جاری و ساری ہے۔
غالبؔ کون ہیں؟ اگر یہ سوال غالب سے پوچھئے تو وہ سیدھے کہیں گے کہ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔ ماہرین غالب سے پوچھئے تو وہ غالب کی فلسفیانہ شاعری کے کچھ اشعار کا حوالہ دے دیں گے۔ طلبا ان کی رومانوی شاعری کا ورد کرتے نظر آجائیں گے۔ ترقی پسند ان کی شاعری میں رندانہ جلوے دکھانے لگ جائیں گے اور دینی لوگ ان سے یہ کہتے ہوئے منہ موڑ لیں گے کہ واعظ کو میخانہ کے دروازے تک کھینچنے والا شخص مردود ہی ہو سکتا ہے۔ کچھ شریف لوگ یہ کہتے ہوئے نکل جائیں گے کہ شاعر تو اچھا ہے ، مگر بدنام بہت ہے۔ گویا غالب نے اس محاورہ کی تصدیق کر دی ہے کہ جتنا منہ اتنی باتیں۔اسی لیے غالب کون ہے؟ یہ سوال اپنے جواب کبھی تلاش نہیں کرپائے گا کبھی بھی نہیں، مگرکوئی ہے جو غالب ہے اور اس سے انکار ممکن نہیں ہے۔
دراصل غالبؔ کو سمجھنے اور سمجھانے والے بڑے بڑے لوگ ایک بلند پایہ شاعر کو بلند پایہ شاعر ہی ثابت کرنے میں مگن رہے۔ انہیں غالبؔ شاعر کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آئے، یہاں تک کہ غالب شکنی کا حوصلہ رکھنے والے یاس یگانہ چنگیزی کو بھی نشانہ پر لیا جانے لگا۔ بجنوری نے تو انہیں اتنا مقدس بنا دیا کہ وید مقدس کو دیوان غالبؔ کے ساتھ لاکھڑا کر دیا۔ غالبؔ پر کام کرنے والے ان کی شاعری کے مختلف جہات پر روشنی ڈالتے رہے اور ان کے اشعار کو مزید روشن کرتے رہے اور ایسا اس لیے ہو سکا کہ غالبؔ اپنے آپ میں ہی ایک روشن دماغ تھے۔لیکن یہاں پر ذرا سا رکنا پڑے گا اور اس بات پر بھی غور کرنا پڑے گا کہ آیا غالبؔ صرف شاعر تھے یا کچھ اور بھی تھے۔ وہ اعلیٰ پایہ کے نثر نگار بھی تھے، بہترین نامہ نگار بھی تھے اور زبردست سیاسی بصیرت کے علمبردار بھی تھے اور سب سے بڑھ کر وہ فلسفی تھے۔ اگر آج غالبؔ کی شاعری کی جگہ غالبؔ کی فلاسفی پر کتابیں لکھنے کی کوشش کی جائے، وہ دنیا کے بڑے بڑے فلاسفر کی صف میں کھڑے نظر آئیں گے۔اگر آج غالبؔ کو اردو کی جگہ فلاسفی کے کلاس میں پڑھایا جائے تو نئے نکات نکل پائیں گے۔ ان پر فلاسفی کے طلبا ریسرچ کریں کہ یوں ہوتاتو کیا ہوتاغالبؔ۔ تو غالبؔ کی نئی شکل نکل کر سامنے آجائے گی۔
دنیا کے مزدوروں کو ایک ہونے کا پیغام دینے والے کارل مارکس نے انہیں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی تھی اور غالبؔ نے بھی انہیں وہ باتیں بتانے کی کوشش کی تھی کہ جو وہ نہیں جانتے تھے۔ برٹش براڈ کاسٹر عابدہ رپلی جو شعر و ادب سے والہانہ پیار کرتی ہیں۔ انہوں نے صدی کے دو عظیم مفکر کے درمیان ہوئی خط و کتابت کا انکشاف کیا۔ مگر اب تک ادبی حلقے کی طرف سے ان کے اس انکشاف پر کسی بھی طرح کا ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اس خط میں کارل مارکس ان کے ایک شعر سے متاثر ہو کر ان کی تعریف کرتے ہیں اور پھر ان کے ایک معروف شعر ’ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن‘ پر تبصرہ کرتے ہیں کہ اپنے کلام کے اگلے ایڈیشن میں اس موضوع پر تفصیل سے لکھنا کہ جاگیردار ، سرمایہ دار اور مذہبی پیشوا جنت کے خواب دکھا کر تمہاری محنت کا استحصال کر رہے ہیں۔ بلکہ کیا ہی اچھا ہو اگر تم ایک آدھ نظم اس مصرعہ طرح پر کہہ ڈالو کہ دنیا بھر کے مزدورو، متحد ہو جاؤ۔میں ہندوستانی اوزان و بحور سے زیادہ واقف نہیں، تم فنکار آدمی ہو ، اس کا وزن خود ہی درست کرلینا۔ اصل کام تو عوام الناس تک پیغام پہچانا ہے۔ بلکہ میری مانو تو غزل اور رباعی جیسی فرسودہ اصناف کو چھوڑ کر آزاد نظم کا راستہ اختیار کرو تاکہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیغامات پسماندہ اور پسے ہوئے مظلوم طبقات تک بھیجے جا سکیں۔گویا کارل مارکس نے غالبؔ کے اشعار سے جو معنی اخذ کیے تھے، وہ یہ تھے کہ غالبؔ کوئی انقلابی شاعر ہے اور وہ دنیا کو بدلنے میں اس کا ساتھ دے سکتا ہے۔ یہی نہیں مارکس نے شیریں اور فرہاد کے بارے میں لکھتے ہوئے کہا کہ فرہاد پرولتار اور شیریں بورزوا طبقے کی ہے جو ہمیشہ محنت کشوں کا استحصال کرتا رہا ہے۔
وہیںغالبؔ نے اپنے جواب میں کارل مارکس کو لکھا کہ اور یہ تم کون سے انقلاب کی باتیں کرتے ہو، انقلاب کو گزرے تو دس برس ہو گئے۔ اب تو فرنگی دندناتا ہے ، ہر کوئی اسی کے گن گاتا ہے۔ شاہ و گدا کی تمیز تو کب کی مٹ چکی۔ خواجہ و بندہ کا امتیاز بھی جاتا رہا۔ اب اور کون سے انقلاب کی بشارت تم ہمیں دیتے ہو؟ تمہارے خط میں یہ بات بھی مرقوم دیکھی کہ ایسی شاعری پیدا کرو اور ویسی شاعری پیدا کرو۔بھلے مانس، شاعری کی نسبت تمہارا یہ خیال قطعی خام ہے کہ یہ پیدا کی جا سکتی ہے۔
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریرِ خامہ نوائے سروش ہے
اور آخر میں غالبؔ کے فلسفہ کے بارے میں فلسفہ سنئے کہ فلسفہ کیا ہے اور زندگی سے اس کا رابطہ کیا ہے۔ یہ ہم سے زیادہ اور کون جانے گا۔ بھائی میرے، یہ کون سی جدلی مادیّت لیے پھرتے ہو؟ فلسفے کا شوق ہے تو ویدانت اور وحدت الوجود پڑھو اور یہ خالی خولی ہمدردیاں جتانے کے بجائے کوئی کام کر کے دکھاؤ۔ فرنگستان کے باسی ہو میاں، وائسرائے کے نام ایک سفارشی چٹھی ہی روانہ کرا دو کہ میری سابقہ پنشن بحال کی جاوے۔
تو یہ بھی ہیں غالبؔ کہ جنہوں نے سرسید کو جدیدیت کا مشورہ دیا اور مارکس کو ویدانت اور وحدت الوجود پڑھنے کی صلاح دے ڈالی۔دراصل غالبؔ کے فلسفہ کو ان کی شاعری میں الجھا دیا گیا۔ یہ در اب بھی بند ہے۔ اسے کھولنے کی ضرورت ہے، لیکن مشکل یہ ہے کہ جو بت بنا دیے گئے اس کو توڑناآسان نہیں ہوتا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]