ڈاکٹر محمد ضیاء اللہ
فیفا ورلڈ کپ کا شاندار ڈھنگ سے اختتام پذیر ہو چکا ہے لیکن قطر کی فضاء پر ابھی بھی سرور اور تشکر کا جذبہ غالب ہے۔ سرور تو اس بات کا ہے کہ عہد جدید کے مستشرقین اور اسلام و مسلمان سے بے بنیاد عداوت رکھنے والے اہل مغرب یا ان کے ہمنواؤں کی تمام کوششوں اور منفی پروپیگنڈوں کے سیلاب کے باوجود قدرتی ذخائر سے مالا مال اس ملک نے عالمی نقشہ پر اپنی انتظامی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا اور ساتھ ہی دنیا کی مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کے ساتھ پر اعتماد اور مہذب ڈھنگ سے کیسے پیش آیا جاتا ہے اس کا بہترین نمونہ پیش کر کے یہ ثابت کر دیا کہ استشراق نے عرب اور مشرقی تہذیب کی جو تصویر دنیا کے سامنے پیش کیا تھا وہ کس قدر فرضی اور حقیقت سے دور کرنے والی تھی۔ اس کے علاوہ قطر نے اسلامی دنیا کو بھی یہ خاموش پیغام دینے میں کامیابی حاصل کر لی کہ عرب اور اسلامی تہذیب کوئی چھپا کر رکھنے کی چیز نہیں ہے بلکہ اسلام کے پاس جو پیغام ہے اس کی ضرورت اس وقت دنیا کو سب سے زیادہ ہے۔ مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی کے بقول مغرب کی تہذیب خود کشی کا شکار ہے اور جاں کنی کے عالم میں موجود ہے۔ اسے کوئی ایسا مسیحا چاہئے جو پورے مغربی معاشرہ کو خود کشی کی اس تہذیب سے نکال کر الٰہی تعلیمات پر مبنی پر فضا ماحول میں داخل کر سکے۔ مولانا نے اکثر اپنی تحریروں میں مسلمانوں کو اسلامی دعوت کی عظمت کو سمجھانے کی کوشش کی ہے اور طلبہ کو باور کروایا ہے کہ دنیا کو جس پیغام کی ضرورت ہے وہ صرف مسلمانوں کے پاس ہے۔ وہ پیغام یہ ہے کہ آپ انہیں اسلام کے چشمۂ صافی سے قریب کرکے خالق کائنات کی رحمتوں سے روبرو کردیں۔ آج مغرب کو سائنسی ایجادات یا اقتصادی اصولوں کے ماہرین کی ضرورت نہیں ہے۔ ان میدانوں میں تو انہیں خود استادیت کا درجہ حاصل ہے۔ انہیں ضرورت ایسے شخص کی ہے جو ان کی ویران اور روحانیت سے عاری دنیا کو آباد کر سکے۔ جسم کو سجانے اور مجلسوں کو گرمانے کا کوئی سازو سامان ایسا نہیں جو ان کے پاس موجود نہ ہو لیکن ان کے دل اور روح کی دنیا اسی قدر تاریک ہے۔ مولانا نے عرب دنیا میں بڑے اسفار کئے تھے اور ان کی کتابیں آج بھی عرب مفکرین اور طلباء شوق سے پڑھتے ہیں۔ انہوں نے تمام عرب اور مسلم دنیا کو بارہا بتایا تھا کہ جب آپ مغرب کی یونیورسیٹیوں میں تعلیم کی غرض سے جائیں یا روزگار کے مواقع کی تلاش میں ان ملکوں کا سفر کریں تو انہیں اس پیغام سے روشناس کرائیں جس کے وہ منتظر ہیں۔ آپ ان کے پاس جب سائنس و ٹکنالوجی یا سیاسیات و معاشیات کی باتیں کرتے ہیں اور ان موضوعات کی باریکیوں پر گفتگو کرکے انہیں مرعوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ آپ سے متاثر نہیں ہوتے اور ’بضاعتنا ردت الینا‘ یعنی ہمارا ہی مال ہم کو فروخت کرنا چاہتے ہو کہہ کر ٹھکرا دیتے ہیں۔ لیکن اگر آپ اسلامی عقیدہ و ایمان کی بات کریں گے اور اسلامی اخلاق و کردار کا اعلی نمونہ پیش کریں گے تو وہ آپ کی جانب راغب ہوں گے کیونکہ وہ اپنی زندگی کے مسائل کا حل چرچ کے رسومات میں حاصل نہیں کر سکے تو خدا کے منکر ہوگئے اور کلب اور میخانوں میں سامان راحت ڈھونڈنے نکل پڑے۔ لیکن وہاں بھی سکون و اطمینان حاصل نہیں ہوسکا اور مزید شراب و نشہ کے دلدل میں خود کو ڈال لیا۔ ان حرکتوں کا نقصان یہ ہوا کہ روح کی بے چینی روز افزوں ہوتی چلی گئی اور بالآخر ایک دن زندگی سے ہی ایسی بیزاری ہوگئی کہ خود کو موت کے حوالہ کر دینے میں ہی عافیت محسوس ہوئی۔ خود کشی کی یہی وہ تہذیب ہے جو پورے مغربی معاشرہ کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے اور ہر روز ہلاکت کے قریب پہونچارہی ہے۔ قطر نے فیفا کے انعقاد کے اول دن سے ہی یہ کوشش کی کہ عرب اور اسلامی معاشرہ کی اعلی قدروں سے نہایت حکمت اور سنجیدگی کے ساتھ دنیا کو روشناس کروایا۔ انہیں پہلے تو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں بتایا کہ اسلام کس طرح پوری انسانی آبادی کو ایک کنبہ سمجھتا ہے اور رنگ و نسل کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کرتا۔ اس کے ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ جگہ بہ جگہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا ترجمہ پیش کیا گیا جس کے ذریعہ اسلامی تعلیمات کی آفاقیت اور اس کی جامعیت کا نقشہ آنکھوں کے سامنے پھر جائے۔ پیغمبر اسلام کی تعلیمات سے روشناس کروانا اس لئے بھی ضروری تھا کیونکہ مغرب میں سب سے زیادہ زیادتیاں خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی ہوئی ہیں جن میں مستشرقین کا کردار سب سے زیادہ قابلِ مذمت رہا ہے۔ خرم مراد نے اپنے دورۂ امریکہ کی روداد میں ایک بات لکھی تھی کہ مغرب کے مصنفین اور دانشوران پیغمبر عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر سب سے زیادہ حملہ اس لئے کرتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ جس دن مغربی دنیا کے عوام و خواص کو اس ذات پاک کی تعلیمات سے واقفیت ہوگئی اس دن اسلام کی آغوش میں آنے سے انہیں کوئی نہیں روک سکتا اور اسی لئے یہ مٹھی بھر دانشوران شب و روز پیغمبرِ اسلام کی صورت کو مسخ کرنے میں اپنی قوت صرف کرتے رہتے ہیں تاکہ ان کی بنائی ہوئی مذموم دنیا برقرار رہ سکے۔ اس بات کی تائید اس حقیقت سے بھی ہوتی ہے کہ ہزار اسلام مخالف پروپیگنڈوں کے باوجود پوری مغربی دنیا میں اسلام کی آغوش میں پناہ لینے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ یہ روح کی وہی بھوک اور بے چینی ہے جس کا علاج وہ ڈھونڈتے ہوئے خود ہی اسلام کے چشمۂ صافی تک پہونچ جاتے ہیں اور جس کی طرف مولانا علی میاں صاحب نے توجہ دلائی تھی۔ فیفا مقابلوں کے دوران بڑے سادہ ڈھنگ سے قطر نے اس ذمہ داری کو نبھایا اور مسلم دنیا کو عملی پیغام دیا کہ اسلام شرمانے اور چھپانے کی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا ابدی اور انسانیت نواز پیغام اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کو بڑے پیمانہ پر عام کیا جائے۔ شراب نوشی اور اخلاق باختگی کے اصولوں پر مبنی محبت کے جذبات اس لائق نہیں ہیں کہ انہیں انسانی حقوق کے زمرہ میں شامل کیا جائے۔ ضرورت صرف اس قدر ہوتی ہے کہ ہم حکمت و دانائی اور علمی و منطقی ڈھنگ سے سنجیدہ انداز میں اور پوری فکری صلابت و خود اعتمادی کے ساتھ دنیا کے سامنے اپنی ثقافت کی نمائندگی کا جذبہ رکھیں۔ فیفا میچوں سے لطف اندوز ہونے کے لئے آنے والے شائقین نے قطر کی ثقافت اور اسلامی طرز معاش کو نہ صرف سراہا بلکہ وہ بہت خوش ہوئے کہ اسلام اور عرب کا وہ پہلو انہیں دیکھنے کو ملا جن سے انہیں آگاہ ہونے کا اب تک موقع نصیب نہیں ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ قطر نے اس پروفیشنل ڈھنگ سے اس ایونٹ کا انتظام کیا کہ دنیا عش عش کرتی رہ گئی۔ نہ شراب خوری کے نشہ میں مار پیٹ کے واقعات ہوئے اور نہ ہی کسی خاتون یا دوشیزہ کو اس بات کا خطرہ محسوس ہوا کہ اس کی عصمت محفوظ نہیں رہے گی یا انہیں اوباشوں کا ٹولہ پریشان کرے گا۔ نقل و حمل کے وسائل سے لے کر طعام و قیام اور سیاحتی مقامات تک ہر جگہ بہتر انتظامات کئے گئے تھے تاکہ جتنے بھی مہمانان یہاں تشریف لائے ہیں وہ اپنی زندگی کے شاندار اوقات گزار کر جائیں اور اپنے ساتھ خوبصورت یادوں کے اتنے لمحات لے جائیں کہ نسلوں تک ان کا تذکرہ الگ الگ مجلسوں میں ہوتا رہے اور عرب و اسلام کے خلاف زہر افشانی کرنے والوں کے خلاف تریاق کا کام کرے۔ ان پیغامات کے علاوہ فیفا ورلڈ کپ کے مقابلوں کے اسٹیج سے سب سے بڑا پیغام عرب عوام نے خود عرب قائدین کو دیا ہے۔ وہ پیغام یہ ہے کہ اگست 2020 میں ابراہیم معاہدہ کے تحت ڈونالڈ ٹرمپ کے دباؤ میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی میں جن عرب اور مسلم ممالک نے دوڑ دوڑ کر حصہ لیا تھا ان کے عمل کو ناپسند کیا گیا اور انہیں بتایا گیا کہ عالم عربی کے حکمران اسرائیل کے ساتھ خواہ کتنی ہی قربت بنا لیں لیکن عرب دنیا کے عوام کبھی بھی فلسطینیوں کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے اور ان کے خلاف جاری مسلسل اسرائیلی جارحیت، ظلم و قتل اور اپارتھائیڈ نظام کو رد کرتے رہیں گے۔ خود اسرائیل کو بڑی مایوسی ہاتھ آئی کیونکہ وہ گزشتہ دو برسوں سے اس بات کی کوشش کر رہا تھا اور پروپیگنڈوں کو طوفان کھڑا کر رکھا تھا کہ اب عرب دنیا میں اس کو قبولیت مل رہی ہے اور اس کے خلاف عرب جذبات ٹھنڈے پڑ رہے ہیں۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ عرب عوام اسرائیلی صحافیوں سے بات تک کرنا گوارہ نہیں کر رہے ہیں تو اسرائیلی صحافیوں کو اس قدر شرمندگی محسوس ہونے لگی کہ بعد میں انہیں اپنے ملک کا نام چھپانا پڑا اور خود کو اکواڈور کے صحافی کے طور پر پیش کرنے لگے۔ اس کے باوجود کسی اسرائیلی کو گزند نہیں پہنچایا گیا۔ اس کے برعکس اب تک 20 سے زائد صحافیوں کو اسرائیل نے اس برس ہی قتل کر دیا ہے جن میں شیرین ابو عاقلہ کا نام سب سے نمایاں ہے۔ اس فیفا کے ذریعہ عرب عوام نے یہ ثابت بھی کیا کہ نہ تو ان میں صلاحیتوں کی کمی ہے اور نہ ہی وہ اصولوں سے سمجھوتہ کرنے کو تیار ہیں اور نہ ہی وہ انسانی قدروں کی پاسداری میں دنیا کی کسی قوم سے پیچھے ہیں بلکہ اگر آج بھی انہیں مواقع اور وسائل فراہم کئے جائیں تو اپنی عظمت رفتہ کی بحالی کے لئے وہ پورے طور پر تیار ہیں۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں