علیزے نجف
فی زمانہ کسی بھی ملک یا قوم اور معاشرے کی تعمیر و ارتقاکے لئے بنیادی ضرورتوں میں تعلیم کا نام سر فہرست آتا ہے، تعلیم ہمیشہ اور ہر دور میں ایک ممتاز مقام رکھتی رہی ہے، لیکن پچھلی نصف صدی سے زائد مدت میں اس کی ضرورت کا احساس ہر قدم پہ ہو رہا ہے اس کی وجہ بالکل واضح ہے کہ اب تعلیم تربیت کے بنیادی تقاضوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ معاشی مسائل سے نمٹنے کے لئے جزو لازم بن چکی ہے، حتی کہ چھوٹے سے چھوٹا کام سر انجام دینے کے لئے ہر کسی کے لئے میٹرک اور پری میٹرک جیسی اسناد کا ہونا لازم ہو چکا ہے اس سے شرح خواندگی میں اضافہ بھی ہوا ہے، اور حکومت نے مختلف اسکیموں کے ذریعے اقلیتی طبقے کے لوگوں کی اعانت کی کوشش بھی کی ہے تعلیم کی یہ انقلابی ترقی کسی بھی معاشرے کے لئے ایک خوش آئند تبدیلی ہو سکتی ہے بشرطیکہ اس رواج پاتی تعلیم میں تربیت اور ضرورت کے درمیان توازن بھی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس توازن کی ضرورت کیوں ہے اور اس کے نہ ہونے کے منفی نتائج کیا ہو سکتے ہیں یہ ایک الگ طویل موضوع ہے ابھی میرا موضوع پچھلے دنوں مرکزی وزارت برائے اقلیتی امور کا وہ اعلان ہے جس کے تحت اقلیتوں کے طلباو طالبات اب درجہ ایک سے آٹھ کے لئے پری میٹرک اسکالرشپ کے اہل نہیں رہیں گے اس اسکیم کو درجہ نو اور دس تک محدود کر دیا گیا ہے جو فوری طور پہ نافذ ہوگی اس سے پہلے سول سروس کی تیاری کرنے والے اقلیتی امیدواروں کے لئے جاری شدہ ’نئی اڑان‘ اسکیم ختم کی گئی تھی حکومت کے اس فیصلے کی ضرب براہ راست ان اقلیتی طلبا کے مستقبل پر پڑی ہے جو مالی مشکلات اور غربت کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ پری میٹرک اور نئی اڑان اسکالر شپ کے بعد اقلیتوں پہ تیسرا بڑا تازیانہ مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ کو ختم کر کے لگایا گیا۔
مولانا آزاد فیلوشپ ان اقلیتی طلبا کو فراہم کی جاتی رہی ہے جواندرون ملک کل وقتی طورپر ریسرچ کرتے ہیں۔ اس اسکیم کے تحت ایم فل، پی ایچ ڈی طلباکو بھی ریسرچ کے لیے مالی مدد فراہم کی جاتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے اس فیصلے سے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول میں دشواری پیش آئے گی، کیونکہ مسلمانوں میں زیادہ غربت کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ایک مشکل امر ہے۔اس سے قبل حکومت مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے بجٹ میں تخفیف کرچکی ہے۔یہ ادارہ مرکزی حکومت نے ملک کے پہلے وزیرتعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کی صدی تقریبات کے موقع پر1988میں مسلم طالبات کی تعلیمی ترقی کے لیے قایم کیا گیا تھا۔ بعد کو جب اقلیتی امور کی وزارت قائم ہوئی تو اس کا نظم بھی اسی کے سپرد کردیا گیا۔ اقلیتی امور کی وزارت کا اصل مقصد ہی یہی تھا کہ اس کے ذریعے ملک میں ان طبقات کو وہ سارے مواقع فراہم کئے جائیں جس سے وہ اپنی بدحالی میں کمی لا سکیں، سچر کمیٹی کی رپورٹ نے حکومت کو یہ ماننے پہ مجبور کر دیا تھا کہ مسلمانوں کی بدحالی اور معاشی ابتری سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں ان کو برابر کی سطح پہ لانے کے لئے انھیں حکومتی سہارے کی ضرورت ہے۔ آج جب کہ حکومت اس اسکیم کو ختم کرنے کا فیصلہ لے رہی ہے تو اس سے یہ ایک سوال کرنا تو بنتا ہے کیا واقعی اب مسلمان اتنی ترقی کر چکے ہیں کہ انھیں کسی رعایت و اعانت کی ضرورت نہیں رہی کیا ملک کے ہر شعبے میں ان کی نمائندگی اکثریتی طبقے کے برابر پہنچ چکی ہے اس اسکیم کا دفاع کرتے ہوئے یہ جواز دینا کہ یہ اسکیم حکومت کی طرف سے جاری کردہ دیگر اسکیموں کو اوور لیپ کر رہی ہے تو یہ محض خود کو اقلیتی طبقے کا خیرخواہ ثابت کرنے کی ایک جھوٹی کوشش ہے۔
حکومت کے اس فیصلے پہ ماہرین تعلیم اور پارلیمنٹ کے ارکان اور سماجی تنظیموں نے بھی صدائے احتجاج بلند کیا ہے کیوں کہ اس کی وجہ سے اقلیتی طبقے پہ گہری ضرب پڑ سکتی ہے۔ اور اس کا اظہار طلبہ اور ان کے والدین نے ہر پلیٹ فارم کے ذریعے سے کیا ہے یہ الگ بات ہے کہ حکومت اپنے اقتدار کے نشے میں ان کی باتوں کو چنداں اہمیت نہ دے۔
ملک میں بے لگام ہوتی مہنگائی اور بیروزگاری کی بڑھتی شرح کے باوجود اکثر طلبہ بنیادی تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کو پانے کے لئے حکومت کی جانب سے جاری کردہ انھیں وظائف پہ انحصار کرتے تھے۔ اس سہولت کی وجہ سے والدین کے لئے بیک وقت کئی بچوں کو پڑھانے کے لئے حکومتی کمک ملتی تھی، ابھی تک ان کے لئے بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے معاشی مسائل سے نمٹنا ہی ایک چیلنج کی طرح تھا کہ اب ان اسکیموں کے ختم ہونے کی وجہ سے ان پہ دہری مار پڑنے کا اندیشہ سچ ثابت ہوتا دکھ رہا ہے۔حکومت نے ان اسکیموں کو ختم کرتے ہوئے جو جواز دیا ہے اگر اس پہ غور کیا جائے تو اس کی بے ثباتی ظاہر ہو جاتی ہے اقلیتی امور کی مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے حکومت کے اس قدم کا دفاع یہ کہتے ہوئے کیا ہے کہ اب مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ کو ختم کرنے کا فیصلہ اس لئے کیا گیا ہے کہ سرکار بہت سارے دیگر وظیفے دے رہی ہے اب مولانا آزاد اسکالر شپ دینے کا وہ مقصد باقی نہیں رہا جس کے لئے اس کو شروع کیا گیا تھا۔حکومت کے اس فیصلے کے پیچھے کار فرما اس کی نفسیات پہ غور کرتے ہوئے پتہ چلتا ہے کہ حکومت ملکی نظام پہ اپنی قیادت کے گہرے اثرات مرتب کرنے کی کوشش میں ہے اس نے اب تک بہت سارے ایسے غیر ضروری اقدامات کئے ہیں جو اب سے پہلے کم ہی کسی جماعت نے کئے ہوں گے اس کی بہت ساری مثالیں دی جا سکتی ہیں دو مثال سب سے زیادہ نمایاں ہے ایک اسٹیچو آف یونٹی اور نئے پارلیمنٹ کی تعمیر اس پہ خرچ ہونے والی لاگت سے کسی بھی قوم کے مستقبل کو سنوارا جا سکتا ہے لیکن حکومت کو لوگوں کو اپنے لفظوں کے جادو سے زیر کرنے کا ہنر آتا ہے اس کے لئے اسے کچھ کرنے اور خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی اس کی ذمہ داری عوام پہ بھی عائد ہوتی ہے، اس زاویے سے اگر دیکھا جائے تو اس نے نئی نئی اسکیموں کا نفاذ کر کے پچھلی کئی اسکیموں کا خاتمہ کر دیا تاکہ جب بھی ان اسکیموں کی بات کی جائے تو ان کی قیادت بھی لوگوں کے علم میں آئے۔ایک طرف حکومت سب کا ساتھ اور سب کا وکاس کا دعویٰ کرتی ہے وہیں دوسری طرف وہ اس کے برخلاف فیصلے لے کر عوام کے یقین کو متزلزل بھی کرتی رہتی ہے۔ کسی بھی ملک کے عوام کے تعلیم یافتہ ہونے کا فائدہ محض اس کی ذات اور خاندان تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اس کے ذریعے ملک و معاشرے پہ مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں جس کے شواہد موجود ہیں اگر حکومت یہ سمجھ رہی ہے کہ ملک کا اعلیٰ اکثریتی طبقہ تو تعلیمی میدان میں نمایاں کارکردگی انجام دے ہی رہا ہے اقلیتی طبقے کی ترقی ثانوی ہے اس سے کیا فرق پڑتا ہے میرے لئے ووٹ بینک تو وہی لوگ ہیں تو یہ ایک نہایت منفی اور تنگ نظر سوچ ہوگی کیوں کہ سر پہ رکھی جانے والی پگڑی کی صفائی ہی آپ کو نفاست پسند ثابت نہیں کر سکتی جب تک کہ جسم پہ موجود پورے ملبوس کو صاف ستھرا نہ رکھا جائے اقلیتی طبقہ ہو یا اکثریتی طبقہ دونوں کو ہی اس ملک کی تعمیر وترقی سے مستفید ہونے اور اس میں اپنا کردار ادا کرنے کا یکساں حق حاصل ہونا چاہئے۔انڈیا میں چھ برادریوں کو اقلیت کا درجہ دیا گیا ہے۔ ان میں پارسی، مسلم، عیسائی، سِکھ، بدھ مت اور جین مت شامل ہیں۔ اس فیلو شپ کا مقصد ان فرقوں کے طلباکو پانچ سال کے لیے پی ایچ ڈی کرنے کے لیے مالی امداد فراہم کرنا ہے۔ سالانہ تقریباً 750 طلباء کو یہ فیلو شپ دی جاتی ہے۔ مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ کیا ہے اس کو اگر آسان زبان میں اس طرح سمجھا جا سکتا ہے تحقیق اور ڈاکٹریٹ کے لیے، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن جونیئر ریسرچ فیلوشپ دیتا ہے، جسے جے آر ایف بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے لیے طلبہ کو این ای ٹی کا امتحان دینا پڑتا ہے۔ اس سال یہ امتحان چار مرحلوں میں منعقد کیا گیا تھا اور تقریباً پانچ لاکھ طلبہ نے 82 مضامین کے لیے امتحان دیا، جن میں سے صرف 9 ہزار بچے ہی جے آر ایف کوالیفائی کرنے میں کامیاب ہوئے۔ جے آر ایف پہلے چند سو طلباکو دیا جاتا ہے جو این ای ٹی امتحان میں سبجیکٹ کے لحاظ سے سب سے زیادہ نمبر حاصل کرتے ہیں۔ اس میں یو جی سی سے تقریباً 30 ہزار روپے ماہانہ کام کرنے کے لیے اور تقریباً آٹھ ہزار روپے رہنے کے لیے دیے جاتے ہیں۔
دوسری طرف، مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ میں، اقلیتی برادریوں کے وہ طلبا درخواست دے سکتے ہیں جو جے آر ایف حاصل کرنے کے لیے این ای ٹی امتحان میں اتنے نمبر حاصل نہیں کر پاتے کہ انہیں جے آر ایف مل سکے۔
یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نیٹ امتحان کی بنیاد پر مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ کی میرٹ لسٹ جاری کرتا تھا۔ اس فیلو شپ کے تحت ماہانہ تقریباً 30 ہزار روپے اور دو سال بعد سینئر ریسرچ فیلو بننے پر تقریباً 35 ہزار روپے دیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ رہنے کے لیے تقریباً آٹھ ہزار روپے کا وظیفہ بھی تھا۔
اقلیتی برادری میں تعلیم کے حوالے سے صورتِ حال بہت خراب ہے۔ اعلیٰ تعلیم میں معاشرے کے ہر طبقے کی نمائندگی ہو سکے اس کے لیے یہ فیلو شِپ بہت ضروری ہے۔ یہ فیصلہ غریبوں، اقلیتوں، آئین کی روح اور جامع تعلیمی پالیسی کے خلاف ہے، جو معاشرے میں پسماندہ لوگوں کو مزید کمزور کرنے کا کام کرے گا۔
اسی طرح سے بیشمار طلبہ ہیں جنھیں اس فیصلے سے شدید جھٹکا پہنچا ہے حکومتی محکمہ عوام کی فلاح و بہبود کی غرض سے قائم کیا ہے اس کا مقصد تحفظ ، امن و امان کے ساتھ عوام کی بنیادی ضرورتوں کا خیال رکھنا بھی ہوتا ہے تعلیم اس ضمن میں سب سے پہلا بنیادی حق ہے حکومت کو چاہئے کہ اگر وہ واقعی اپنے دور اقتدار کو مثالی بنانا چاہتی ہے تو سب کا ساتھ اور سب کا وکاس کے نعرے کو ایمانداری کے ساتھ عملی جامہ پہنائے، عارضی مفاد کے بجائے دور رس نتائج پیدا کرنے والے مقاصد کو ترجیح دے ڈکٹیٹر شپ کے بجائے معاشرے میں جمہوری اقدار کو فروغ دے اس فیصلے پہ طلبہ کے ظاہر کئے جانے والے جذباتی ردعمل کو سمجھنے کی کوشش کرے۔