عبدالسلام عاصم
سال 2022 کے ایام حتمی عشرے سے گزر رہے ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے کے وابستگان اپنے اپنے ارادوں کی منزل کے رُخ پر نئے سال کے خیر مقدم کی تمام تر تیاریوں کی نوک پلک درست کرنے میں لگے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں بعض ترقی پذیر ممالک بشمول ہندوستان میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ذمہ داران کیا سوچتے ہیں! کیا کر رہے ہیں!! اور کیا کچھ امکانات اور اندیشے ہیں!!! شروع کرتے ہیں اپنے وطن سے جہاں ایک طرف مختلف حلقے نئے سال میں نئی تبدیلیوں کا امکان رُخی منظرنامہ اپنی اپنی فکر اور جاری عمل کی روشنی میں مرتب کر رہے ہیں تو دوسری جانب ایک حلقہ ایسا بھی ہے جو اپنے اس خیال کے دائرے سے باہر نکلنے کو تیار نہیں کہ ابھی دہائیوں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
یہ ایک مایوس کن سوچ ہے جس کا مظاہرہ ہر عہد میں وہ لوگ کرتے آئے ہیں جوموافق تبدیلی دیکھنا تو چاہتے ہیں لیکن ناموافق حالات کیلئے نہ اپنی ذمہ داری قبول کرتے ہیں نہ حالات پر قابو پانے کا منصوبہ بنانے اور اُسے عمل میں لانے کی راست یا بالواسطہ کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح کا ذہن رکھنے والوں کو آج بھی ایسا لگتا ہے کہ ان کے دعوے سننے والے بدستور اپنے ذہن سے کام لینے کے بجائے ان کی باتین یہ مان کر سنیں گے کہ اب مزید کچھ سمجھنا نہیں کیونکہ بات سوچ سمجھ کر کہی گئی ہے۔ بالفرض ایسا ہے تو ایسا سوچنے والے خوابِ غفلت میں ہیں۔ انہیں چھیڑنے کی ضرورت نہیں، ان سے بس یہ درخواست کی جائے کہ وہ اپنی اس فکری حالت میں خاموش رہ کرنسل آئندہ پر رحم کریں جو بڑی تیزی سے کروٹ لے رہی ہے اور دیکھ رہی ہے کہ نئی الفی کی سابقہ دہائی سے اب تک بہت کچھ بدل چکا ہے۔ ویسے بھی ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔
حالیہ دہائیوں میں حالات منفی رُخ پر کم اور مثبت رُخ پر زیادہ بدلے ہیں۔ اس عمل میں جو تیزی آئی ہے وہ فطرت سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ خوشگوار تبدیلیاں جہاں امکانات کے نئے در وا کر رہی ہیں، وہیں زمانے کی برق رفتاری کے ذیلی منفی اثر ات بھی اب تیزی سے اپنے انجام یعنی خاتمے تک پہنچنے کی راہ پر ہیں۔ کئی ملکوں میں اس کے نظارے کھل کر سامنے آنے لگے ہیں۔ جن میں انسانی بالخصوص نسوانی حقوق کے تعلق سے سعودی عرب اور ایران بھی شامل ہیں۔ نئی تبدیلیوں کیلئے اب نصف یا ایک صدی درکار نہیں۔ ایک دہائی یا آئندہ چند برسوں میں بھی خاصی تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے۔
سابقہ صدی کے اختتام اور نئی الفی کے آغاز کے ساتھ جس طرح صدیوں کے انقلاب کی جگہ دہائیوں نے لے لی تھی، اسی طرح اب سالانہ کیلنڈر جاری صدی کے وسط سے پہلے دہائیوں کی جگہ لینے جا رہا ہے۔ اہلِ نظر اِن تبدیلیوں کو قومی، علاقائی اور بین الاقوامی سطحوں پر دیکھ رہے ہیں۔ ہندوستان کی قومی معاشرت منافرت کی سیاست سے باہر نکلنے کیلئے جہاں پر تول رہی ہے، وہیں پاکستان اب اخلاقی طور پر بھی دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہے اور چین میں عجب نہیں کہ آنے والی دہائیوں میں سابق سوویت یونین کی طرح انتشار پاؤں پھیلائے۔ افغانستان میں انقلابی تبدیلی کے اسباب کی بہتات میں تازہ اضافہ افغان یونیورسٹیوں میں طالبات پر پابندی ہے جس کے خلاف مظاہرے میں شدت ناگزیر ہے۔ یہ ہرگز پیشین گوئیاں نہیں بلکہ سیاسی، سماجی اور اقتصادی رجحانات پر نظر رکھنے والوں کا ایک محتاط اندازہ ہے۔
ہندوستانی سیاست کی معاشرتی سوچ جاری اسمبلی و دیگر انتخابات سے 2024 کے عام انتخابات تک مسلسل کروٹیں لیتی نظر آئے گی جس میں آشا اور نراشا کا کھیل مرحلہ وار لیگ سے ناک آؤٹ مرحلے میں داخل ہوتاجا رہا ہے۔ ملک میں نفرت کی سیاست ایکدم سے دوبارہ محبت کی سابقہ تجارت میں تو نہیں بدلے گی، البتہ ریوڑیوں کی تقسیم کا بدلا ہوا انداز حسبِ سابق موجودہ حکمرانوں کو بھی نقصان ہی پہنچائے گا۔ عام آدمی جذباتی ضرور ہوتا ہے لیکن اُسی میں ایک حلقہ ایسا بھی ہوتا ہے جو ہمیشہ جذبات کی رو میں آنکھیں بند کر کے نہیں بہتا۔ وہ کبھی کبھی بہتے رہنے کی جگہ دیکھنے اور دوسروں کو دکھانے بھی لگتا ہے۔ اس طرح اس حلقے اور اس کے متاثرین کو جب بہاؤ کی سمت موافق نظر نہیں آتی تو وہ بہنے پر تیرنے کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔ انتخابی سیاست پر نظر رکھنے والوں کو کچھ اسی طرح کی تبدیلی کا احساس ہونے لگا ہے۔ سابقہ تبدیلیوں کی طرح اس تبدیلی میں بھی تھوڑا وقت ضرورلگے گا لیکن یہ فرق بھی شاملِ حال رہے گا کہ وقت کی رفتار میں اب خاصی تیزی آ چکی ہے۔
ہمسایہ پاکستان میں اقتدار سے محروم کر دیے جانے والے سابق وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ذاتی محاذ پر وہی گندی گندی باتیں ہونے لگی ہیں جو بحیثیت کرکٹر اُن کی سابقہ شہرت سے ہمیشہ جڑی رہتی تھیں۔انہوں نے سیاسی کھیل میں بھی شاید اپنی ذاتی ترجیحات کو نہیں بدلا اور اب تو شاید بہت دیر ہو چکی ہے۔ کہتے ہیں صرف ادعائیت کی دنیا میں مرشد کی ذاتی زندگی میں اول تو جھانکا نہیں جاتا اور اگر کسی نے جھانک کر کچھ دیکھ لیا تو اُسے ذاتی معاملے تک محدود کر کے ناقدانہ تذکرے کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔ سیاست سمیت دیگر سماجی کاروبار میں کسی کو ایسی کوئی چھوٹ نہیں ملتی خواہ آپ اپنے ملک کے بل کلنٹن ہی کیوں نہ ہوں۔ دوسری طرف نئے پاکستانی فوجی سربراہ نے بھی اپنے پیش روؤں کی طرح ہند دشمنی کی بنیاد پر اپنی جڑ مضبوط کرنے کی اینٹیں رکھنی شروع کر دی ہیں۔ بہ الفاظ دیگر پاکستان میں سیاسی اور فوجی قیادتیں ابھی بھی عوامی جذبات کی ترجمانی سے کوسوں دور ہیں۔ دونوں کی اسی دوری نے سابقہ صدی کی آخری چوتھائی میں مملکت برطانیہ داد کو اندر سے توڑتے توڑتے ایک دن باہر سے بھی توڑدیا تھا۔
اختتام پذیر سال کے اس آخری مہینے میں چین اور ایران میں سڑکوں پر بڑے بڑے مظاہرے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں ہی ممالک اپنے یہاں شخصی آزادی کے سخت مخالف ہیں۔ چین میں جہاں صدر شی جن پنگ کی جانب سے کووڈ-19 کی پابندیوں میں نرمی کے ذریعہ حالات پر قابو پانے اور چین کی معیشت کی بحالی کی کوشش تیزی سے دفاعی انداز اختیار کرتی جا رہی ہے، وہیں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے شمال مغربی ایران سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت کے بعد شروع ہونے والے (حکومت اور عوام دونوں کی طرف سے) پر تشدد مظاہروں کا ذمہ دار امریکہ اور اسرائیلی حکومتوں کو ٹھہرایا ہے۔ تو کیا ایران میں مذہبی قید و بند لگانے والے ملکی ذمہ داران سماجی پابندیوں میں ممکنہ عارضی اور سطحی نرمی سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہیں گے؟ چین کے ممکنہ استثناء کے ساتھ ایران میں اس کا کوئی امکان نہیں۔ ماضی میں 1979 کے انقلاب سے قبل شاہ ایران نے بھی اپنے زوال سے پہلے ایسے ہی تجربے کیے تھے لیکن کسی بھی یقینی تبدیلی کے موڑ پر ایسے اقدامات سے انقلاب کی صرف اور صرف حوصلہ افزائی ہی ہوتی ہے۔
بیشتر ترقی پذیر ممالک میں نئی نسل اب اس ادراک کے ساتھ سیاسی اور سماجی معاملات کر رہی ہے کہ اُنہیں اپنے والدین سمیت بزرگوں کا احترام بھی کرنا ہے اور اُن کی اُن فروگزاشتوں سے بچنا بھی ہے جن کا دائرہ محسوس اور غیر محسوس دونوں طریقوں سے وسیع ہوتا رہا اور نسلیں متاثر ہوتی چلی گئیں۔ اس کی تازہ بڑی مثالیں چین اور ایران ہیں۔ دونوں ملکوں میں ایک نئے انقلاب کی دستکوں کی آواز اب کانوں تک محدود نہیں۔ ویسے بھی دستکیں جب دھڑکنوں میں بدلنے لگتی ہیں تو کبھی کبھی تجزیہ نگاروں کو بھی خبر نویسوں کی طرح اپنے تجزیے کا آخری پیراگراف اُسی طرح بدلنا پڑتا ہے جس طرح اخبار میں خبروں کے کسی کالم میں کبھی کبھی ایک سرخی محض اِن دو لفظوں پر مشتمل نظر آتی ہے: ’’چھپتے چھپتے‘‘۔ ممکن ہے اشاعتی اخبارات کے صحافیوں کی نئی نسل کو ایسی کسی سُرخی سے حالیہ برسوں میں کوئی سروکار نہ پڑا ہو۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب پچھلے پہر کے کسی واقعہ کی خبر پڑھنے کیلئے اشراق یا چاشت کا وقت شروع ہونے تک انتظار کرنے سے قارئین/ سامعین و ناظرین کو 24X7 برقی نشریات بشمول سوشل میڈیا نے نجات دلا دی ہے۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]