ایسا لگ رہاہے پوری دنیا کو براعظم افریقہ کی اہمیت کا احساس شدید سے شدید تر ہوتا جارہاہے۔ ہر بڑی طاقت اور عالمی سیاست میں بڑا کھلاڑی براعظم کارخ کررہاہے۔ چین اپنی تجارتی اور صنعتی کمپنیوں کے ذریعہ اس علاقے کے معدنی کانوں سے لعل و گہر نکالنے کی جستجو میں ہے تو فرانس کئی ملکوں میں اپنی افواج دفاعی تنصیبات کو خطے میں برقرار رہنے اور کچھ ناراض ملکوں اورخطوں میں مذاکرات اور دیگرلالچ دے کر اور بعض کو دباؤ میں لے کر اپنے دفاعی،تجارتی مقاصد کو حاصل کرنے کی تگ ودو میں ہے۔ روس کے بارے میں کہاجارہاہے کہ وہ آئندہ سال 2023کے اوائل میں افریقی ملکوں کے ساتھ ایک سربراہ کانفرنس کا منصوبہ بنارہاہے۔
دوسری جانب چند روز پہلے، امریکہ نے یوایس-افریقہ لیڈر شپ کانفرنس کرکے 54ملکوں کی نمائندہ تنظیم افریقی یونین کو جی 20ملکوں سے مربوط کرنے کی تجویز پیش کرکے گویا پوری افریقی برادری کے مسائل کو حل کرنے بالفاظ دیگران کے وسائل سے بہرمند ہونے کا اشارہ دیا۔ ایسا لگ رہاہے کہ پوری دنیا کے ارباب حل و عقد تمام مسائل لاینحل کی کنجی اس وسیع و عریض براعظم میں تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ جو بائیڈن نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں ’اصلاحات‘ چاہتے ہیں اور افریقہ کو نمائندگی دینا چاہتے ہیں اوریہاں تک کہ دنیا کی دفاعی تجارتی اقتصادی سب سے طاقتور ملکوں کے گروپ جی 20میں ایک مستقل مقام دینے کے حامی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ افریقہ کے54میں 49سربراہان کو اس چوٹی کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا۔
دراصل روس کو دیوار سے لگانے کے مغربی ممالک کے منصوبے کے سبب پورے خطے، افریقہ اور مغربی ایشیا میں چین کا دبدبہ بڑھا ہے۔ چین نے بہت پہلے ہی افریقہ کو ٹارگیٹ کرکے ہر ملک میں کان کنی، مواصلات، غذائی، ادویات، پینے کے پانی جیسے مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنے منصوبوں کو ظاہرکیاہے۔ اب مسئلہ افریقی ممالک کے بھوک، پیاس اور صحت کے مسائل کو حل کرنے کا ہی نہیں رہ گیاہے بلکہ مسئلہ یوروپی اور مغربی مسائل کو جو آئندہ چند سالوں میں آنے والے مسائل کا ہے۔ ان ممالک کو نظرآرہاہے کہ افریقی ممالک ابھی تک اپنے بنیادی مسائل تعلیم، صحت، بجلی، پانی اور غذائی حل نہیں کرپاتے ہیں اور مغربی ممالک ان میدانوں میں ان کے ساتھ تعاون کررہے ہیں اور توانائی کے وسائل مثلاً قدرتی گیس، پیٹرولیم وغیرہ کی کمی کو پورا کرلیں گے۔
دراصل یوکرین پر روس کے حملے کے بعد پوری دنیا کو باور ہوگیا ہے کہ اگر ضروری اشیا پیٹرولم، قدرتی گیس وغیرہ کی کمی ہوجاتی ہے تو ان کی عیش وعشرت اور موجودہ زندگی کا اندازختم ہوجائے گا۔ کئی مغربی ممالک میں توانائی اور پیٹرول کی مصنوعات کی کمی کی وجہ سے پرتشدد واقعات رونماہوچکے ہیں جو اب تک ان ممالک میں عنقاتھے۔
اس اجلاس میں امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے ایک اور بات کہی کہ وہ خود صحرائی علاقوں کا دورہ کریں گے اور اس سے قبل وہ اپنے مشیروں بشمول وزیرخارجہ انٹونی بلنکن، وزیرخزانہ جینٹ پالن اور وزیر تجارت و کامرس گینارایمونڈو کو بھی افریقہ روانہ کریں گے۔
اس سے صاف ظاہرہے کہ امریکہ کے منصوبے کیا ہیں؟ امریکہ نے اپنی امیج بہتر بنانے کے لیے آئندہ سال براعظم افریقہ کو 165ملین امریکی ڈالر کی مدد فراہم کرانے کااعلان کیا ہے۔ امریکی دفتر خارجہ اور وہائٹ ہاؤس سے بیان جاری ہوا ہے، اس کی زبان سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ انتخابات کرانے میں غیرملکی مداخلت اور سیاسی تشدد پر تشویش ظاہر کررہاہے اور خطے میں آزادانہ، غیرجانب دارانہ اور شفاف الیکشن کرانے کے عزم پرقائم ہے۔
کئی ملکوں میں طویل قیام کے باوجود فرانس، بلجیم، سوئیڈن اور ڈنمارک کی افواج ابھی تک ڈٹی ہوئی ہیں۔ یہ افواج بنیاد پرست، جہادی دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار ہیں اوردودہائی گزرنے کے باوجود وہ اپنے اہداف پورے نہیں کرپارہے ہیں کہ افواج ان ممالک میں رہ کر وہاں کے سیاسی عمل میں مداخلت کررہی ہیں۔ ان افریقی ملکوں کی آنکھیں کھل رہی ہیں اور وہ نتائج کی بنیاد پر غیرملکی افواج کی افادیت کو پرکھ رہے ہیںاور متبادل طاقتوں کی مددحاصل کررہے ہیں، اصل درد یہی ہے۔n
براعظم افریقہ اور عالمی طاقتیں؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS