جیمز گیلیگر
اگر میرے سامنے شدید ٹھنڈ کی بات کی جائے تو مجھے قطب شمالی کے لوگوں کا خیال آتا ہے جن کی داڑھیوں پر برف جمی ہوئی ہوتی ہے یا ایسے کوہ پیماؤں کا جو ماؤنٹ ایورسٹ کی بلندیوں تک پہنچتے ہیں۔مجھے اس دوران فراسٹ بائٹ سے ان کی انگلیاں کالی ہونے کا خیال بھی آتا ہے اور ان کے ہائپوتھرمیا سے متاثر ہونے کا سوچ کر جھرجھری بھی آتی ہے۔اس لیے جب مجھے ایک سرد خانے کا تجربہ کرنے کے لیے مدعو کیا گیا تو مجھے خاصا تعجب ہوا کیونکہ یہاں درجہ حرارت صرف 10 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ جی ہاں، 10 ڈگری سینٹی گریڈ۔میرے لیے یہ انتہائی متوازن درجہ حرارت ہے، خون جما دینے والا تو بالکل بھی نہیں ہے۔ آرکٹک میں ٹھنڈ کے تو قریب بھی نہیں ہے۔ یقیناً ہمیں اپنے جسم کو کسی قسم کی مشکل میں ڈالنے کے لیے اس سے کہیں زیادہ ٹھنڈا درجہ حرارت درکار ہو گا؟ میں غلط تھا۔
یونیورسٹی آف ساؤتھ ویلز سے پروفیسر ڈیمیئن بیلے نے مجھے بتایا کہ ’یہ سننے میں تو متوازن لگتا ہے لیکن یہ جسمانی طور پر ایک بڑا چیلنج ہے۔‘انھوں نے مجھے اپنی لیبارٹری میں مدعو کیا تاکہ وہ سرد گھروں کے ہمارے جسموں پر ہونے والے اثرات کے بارے میں کھوج لگا سکیں اور یہ جان سکیں کہ اتنے متوازن درجہ حرارت ہمارے جسم کے لیے خطرناک کیوں ثابت ہو سکتے ہیں۔پروفیسر بیلے نے کہا کہ ’10 ڈگری وہ اوسط درجہ حرارت ہے جس میں لوگوں کو رہنا پڑے گا اگر وہ اپنے گھروں کو گرم رکھنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں۔‘اور کچھ ہی دیر میں مجھے معلوم ہونے والا تھا کہ 10 ڈگری سینٹی گریڈ کا ہمارے دل، پھیپھڑوں اور دماغ پر کتنا برا اثر پڑ سکتا ہے۔
مجھے ایک ماحولیاتی چیمبر میں لے جایا گیا جو ان کی لیبارٹری کے ایک کونے میں تھا۔ اس کمرے کی دیواریں لوہے کی تھیں اور ان پر بھاری اور موٹے دروازے نصب تھے۔ اس ایئر ٹائٹ روم میں سائنسدان اپنی مرضی سے درجہ حرارت، نمی کی مقدار اور آکسیجن کی سطح سیٹ کر سکتے ہیں۔یہاں داخل ہوتے ہی پہلے 21 ڈگری کی ہوا کا جھونکا میرا استقبال کرتا ہے۔ پلان یہ ہے کہ شروعات 21 ڈگری سے کرنی ہے اور پھر دھیرے دھیرے درجہ حرارت کو 10 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرانا ہے تاکہ اس دوران جائزہ لیا جا سکے کہ میرے جسم کا ردِ عمل کیسا ہوتا ہے۔پہلے تو میرے جسم پر بے شمار انتہائی جدید آلات نصب کیے گئے تھے تاکہ میرے جسم کا انتہائی باریک بینی سے تجزیہ کیا جا سکے۔میری چھاتی، بازو اور ٹانگوں پر بے شمار مانیٹرز لگائے گئے تھے تاکہ میرے جسم کے درجہ حرارت کا اندازہ لگایا جا سکے، دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر کا بھی اندازہ ہو سکے۔پروفیسر بیلے نے مجھے کہا کہ ’ایسا لگ رہا ہے جیسا تم سٹار وارز کے کسی کردار کی طرح ہو۔‘ اس کے ساتھ ہی انھوں نے میرے جسم پر ایک اور سینسر لگایا جس کے ساتھ تار بھی نصب تھی۔مجھے ایک ہیڈسیٹ بھی پہنایا گیا جس کے ذریعے میرے دماغ میں خون کے بہاؤ کو مانیٹر کیا جانا تھا۔ اس دوران میری پیشانی پر پسینے کے قطرے نمودار ہوئے۔ ایک الٹراساؤنڈ کے ذریعے میری گردن میں موجود کیروٹڈ شریانوں کا جائزہ لیا گیا۔ (دماغ تک پہنچنے والے خون کی آواز مجھے بہت حوصلہ دے رہی تھی) اور اس دوران میں بڑی ٹیوبز میں سانس باہر نکال رہا تھا اور اس کا بھی جائزہ لیا جا رہا تھا۔یہ تمام پیمائشیں مکمل ہوئیں۔ اب سائنسدانوں کو یہ معلوم ہو چکا تھا کہ میرا جسم 21 ڈگری سینٹی گریڈ میں کیسے کام کرتا ہے۔ اب پنکھے چلنا شروع ہوتے ہیں اور چیمبر کا درجہ حرارت کم ہونے لگتا ہے۔ ’آپ کا دماغ آپ کے خون کا ذائقہ چکھ رہا ہے اور یہ اس کے درجہ حرارت کا بھی جائزہ لے رہا ہے اور اب آپ کا دماغ جسم کے دوسرے حصوں کو سگنلز بھیج رہا ہے۔‘ان کا مقصد میرے اعضائے رئیسہ یعنی جگر اور دل کا درجہ حرارت 37 ڈگری کے قریب رکھنا ہے۔ مجھے تاحال یہ معلوم نہیں تھا کہ میرے جسم کے اندر اس کے کیا اثرات پڑ رہے ہیں لیکن جسم کے باہر اس کے آثار نظر آنے لگے تھے۔جب تک کمرے کا درجہ حرارت گر کر 18 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا تو مجھے پسینہ آنا بند ہو چکا تھا اور میرے بازوؤں پر موجود بال کھڑے ہونے لگے تھے تاکہ وہ میرے جسم میں حرارت برقرار رکھ سکیں۔
پروفیسر بیلے پنکھوں کی بڑھتی آواز کے باعث چیخ کر کہتے ہیں کہ ’ہمیں سائنس بتاتی ہے کہ 18 ڈگری کے بعد مسائل شروع ہوں گے، یہ حد ہے۔۔۔ اب آپ کا جسم اس بنیادی درجہ حرارت کا دفاع کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
اب میری انگلیاں سفید اور ٹھنڈی ہونا شروع ہوئیں۔ میرے ہاتھوں میں موجود خون کی شریانیں سکڑ جاتی ہیں، تاکہ وہ میرا گرم خون میرے انتہائی اہم اعضا کے لیے محفوظ رکھ سکیں۔ اس عمل کو ویسوکانسٹرکشن کہتے ہیں۔ایسا زیادہ تیزی سے ہوتا اگر میری صنف مختلف ہوتی۔ یونیورسٹی آف پورٹسماؤتھ کی ڈاکٹر کلیئر ایگلن بتاتی ہیں کہ ’خواتین کو زیادہ ٹھنڈ لگتی ہے کیونکہ ایسٹروجن ہارمونز کے باعث ان کے ہاتھوں اور پیروں میں موجود خون کی شریانیں سکڑ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ٹھنڈ جلدی لگنے لگتی ہے۔‘
مجھ پر پہلی مرتبہ کپکپی 11 اعشاریہ پانچ ڈگری سینٹی گریڈ پر طاری ہوئی۔ یہ میرے پٹھوں کا حرکت میں آ کر گرمی پیدا کرنے کا طریقہ تھا۔10 ڈگری سینٹی گریڈ پر پنکھے بند ہو گئے۔ اب میں بے چین محسوس کر رہا تھا لیکن مجھے بہت زیادہ ٹھنڈ بھی نہیں لگ رہی تھی۔ سائنسدانوں نے تمام پیمائشیں بھی دوبارہ لیں اور بہت جلد میرے لیے یہ واضح ہو چکا تھا کہ 10 ڈگری سینٹی گریڈ کے میرے جسم پر ہونے والے اثرات کے بارے میں میری ابتدائی رائے غلط تھی۔
پروفیسر بیلے کا کہنا ہے کہ ’آپ کا جسم 10 ڈگری پر اچھا خاصا مصروف ہوتا ہے۔‘جس بات پر مجھے سب سے زیادہ جھٹکا لگا وہ یہ تھا کہ میرے دماغ تک پہنچنے والے خون میں کتنی تبدیلی آئی تھی اور اب میں ایک شبیہ پہچاننے والی گیم کو مکمل کرنے میں ضرورت سے زیادہ وقت لگا رہا تھا۔
میں اپنا اسکول کا کام کبھی بھی اس سرد کمرے میں نہیں کرنا چاہوں گا، یا اگر مجھے ڈیمینشیا یعنی بھولنے کی بیماری ہو تو میں ایسے کسی کمرے کے قریب بھی نہ آؤں۔
پروفیسر بیلے کہتے ہیں کہ ’آپ دماغ کو کم خون بھیج رہے ہیں اس لیے دماغ کو کم آکسیجن اور گلوکوز مل رہا ہے اور اس کا نقصان یہ ہے کہ یہ آپ کی ذہنی صلاحیت پر برا اثر ڈال رہا ہے۔‘تاہم میرا جسم اپنا اہم مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے اور اس نے اپنا بنیادی درجہ حرارت برقرار رکھا ہوا ہے۔ بس ایسا کرنے کے لیے اسے زیادہ کام کرنا پڑ رہا ہے۔میرا جسم گرم خون پورے جسم میں پمپ کر رہا ہے اور ایسا زیادہ شدت کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ اس دوران میرا دل تیزی سے دھڑک رہا ہے اور بلڈ پریشر آسمانوں سے باتیں کر رہا ہے۔بلڈ پریشر میں اضافہ سٹروک کا خطرہ بڑھا دیتا ہے، اس کے باعث دل کا دورہ بھی پڑ سکتا ہے۔‘وہ بتاتے ہیں کہ اس دوران آپ کا خون بھی تبدیل ہو جاتا ہے اور یہ ’شیرے کی طرح گاڑھا ہو جاتا ہے‘ جس سے شریانوں میں رکاوٹیں پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دل کے دورے پڑنے کا زیادہ امکان سردیوں میں ہوتا ہے۔ خوش قسمتی سے میری ’دل کی صحت بہترین ہے‘ لیکن یہ اندرونی تبدیلیاں ان کے لیے خطرہ ہیں جو عمر رسیدہ ہیں یا جن کی دل کی صحت پہلے ہی خراب ہے۔
پروفیسر بیلے کا کہنا ہے کہ ’ہمیں شواہد سے علم ہوا ہے کہ سردی گرمی سے بہت زیادہ خطرناک ہے، گرمی لگنے کی نسبت سردی لگنے سے زیادہ اموات لاحق ہوتی ہیں۔’اس لیے میرے نزدیک اس بارے میں زیادہ آگاہی پھیلانی چاہیے کہ سردی سے منسلک خطرات کیا ہیں۔‘