صبیح احمد
دہلی کے عوام مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس لیے نہیں کہ انہوں نے دہلی میونسپل کارپوریشن میں گزشتہ 10 سال سے برسراقتدار بی جے پی کو بے دخل کیا ہے۔ اس لیے بھی نہیں کہ دہلی پر عام آدمی پارٹی کا اب مکمل کنٹرول ہو گیا ہے اور دہلی اسمبلی کے ساتھ ساتھ میونسپل کارپوریشن میں بھی وہ اکثریت میں آگئی ہے۔ یہ تو جمہوریت کا ایک فطری عمل ہے۔ الیکشن میں کبھی کسی کو کامیابی ملتی ہے تو کبھی شکست۔ دہلی کے ووٹروں کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ووٹوں کی اہمیت اور قیمت کا سیاست دانوں کو بخوبی احساس دلا دیا ہے، بلکہ انہیں سبق بھی سکھایا ہے۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ انہوں نے ملک کو ایک نئی راہ دکھائی ہے۔ اب ووٹروں کو ان کا ووٹ لے کر دھوکہ دینے سے پہلے سیاسی لیڈروں کو ہزار بار سوچنا پڑے گا۔ دراصل دہلی میونسپل کارپوریشن کے حالیہ انتخابات کے نتائج کے اعلان کے صرف دو دن بعد ہی ایک سیاسی پارٹی کے نو منتخب کونسلروں اور پارٹی کی ریاستی اکائی کے ایک نائب صدر کو اپنے حامیوں کے ساتھ ایک دوسری پارٹی میں شمولیت کے صرف 6 گھنٹے کے بعداپنی پرانی پارٹی میں واپس ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ یہ کیسے ممکن ہوا، ایک دلچسپ کہانی ہے۔
قومی راجدھانی کے مضافاتی علاقہ جمنا پار کے 2 میونسپل حلقوں مصطفی آباد اور برج پوری کی 2 نو منتخب کونسلر بالترتیب سبیلہ بیگم اور نازیہ خاتون بطور کونسلر حلف لینے سے پہلے ہی عام آدمی پارٹی میں شامل ہوگئیں۔ ان کے ساتھ دہلی پردیش کانگریس کے نائب صدر علی مہدی نے بھی سیکڑوں کانگریس کارکنوں کے ساتھ عام آدمی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ دہلی میں برسراقتدار عام آدمی پارٹی کے لیڈروں نے ان کا پرجوش خیر مقدم کیا ۔ اس موقع پر اے اے پی کے ایک سینئر لیڈر نے دیگر پارٹیوں کے لیڈروں کو متوجہ کرنے کے لیے یہاں تک کہہ دیا کہ دہلی کو دنیا کا سب سے خوبصورت اور صاف ستھرا شہر بنانے کے لیے دیگر پارٹی کے لیڈروں کے تعاون کی ضرورت ہے اور یہ کہ جب سبھی ساتھ آئیں گے، تب ہم اس مقصد میں کامیاب ہوں گے۔ یہی نہیں، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ اروند کجریوال کی اپیل پر علی مہدی عام آدمی پارٹی کا دامن تھام رہے ہیں۔ جیسے ہی اس بات کی خبر عام ہوئی کہ کانگریس کے نومنتخب کونسلر اور ایک سینئر پارٹی لیڈر سیکڑوں کارکنوں کے ساتھ دیگر پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں، مقامی لوگوں (ووٹروں) میں غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی۔ مشتعل لوگوں نے علی مہدی کی رہائش گاہ کا محاصرہ کر لیا اور ان کے خلاف جم کر ہنگامہ کیا اور بے وفا، بے وفا کے نعرے لگانے لگے۔ ناراض ووٹروں کا کہنا تھا کہ ہم نے کانگریس کو ووٹ دیا تھا لیکن ان لوگوں نے ہمارے ساتھ اعتماد شکنی کی ہے۔ علی مہدی محض 2 دن قبل تک عام آدمی پارٹی کو مسلم مخالف قرار دیتے تھے لیکن اچانک کیا ہوگیا کہ وہ اسی پارٹی میں شامل ہوگئے۔ اور یہ کہ اگر انہیں ایسا ہی کرنا تھا تو الیکشن سے قبل ہی وہ عام آدمی پارٹی میں چلے جاتے اور اسی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑتے۔ لوگ اتنے مشتعل ہوگئے کہ انہوں نے علی مہدی کا علامتی پتلہ بھی نذر آتش کیا۔ معاملہ نے اتنا طول پکڑا کہ کانگریس کے سینئر لیڈروں کو مداخلت کرنی پڑی۔ بالآخر علی مہدی اور دونوں کونسلروں سمیت تمام کارکنان صرف 6 گھنٹے کے اندر دوبارہ کانگریس میں واپس آنے پر مجبور ہو گئے اور انہیں ایک ویڈیو جاری کرکے علاقہ کے لوگوں سے باضابطہ معافی مانگنی پڑی۔
ان انتخابات کے دوران جہاں بلدیاتی سطح پر بڑی سیاسی الٹ پھیر ہوئی ہے، وہیں انتخابی نتائج کا قومی سطح پر بھی زبردست اثر پڑنے والا ہے۔ حالانکہ گجرات میں تاریخی جیت سے بی جے پی بظاہر کافی خوش نظر آرہی ہے۔ پارٹی کے بڑے بڑے لیڈر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ گجرات کے نتائج آئندہ عام انتخابات کیلئے واضح اشارے ہیں۔ لیکن درون خانہ بی جے پی کے حکمت عملی سازوں کے لیے یہ انتخابی نتائج درحقیقت بہت پریشان کن رہے ہوں گے۔ ان کے ہاتھ سے 2 اہم ریاستوں سے حکومتیں چھن گئی ہیں۔ ایک تو قومی راجدھانی میں اور دوسری اس سے متصل ہماچل پردیش میں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گجرات میں شاید بی جے پی کو بھی اتنی امید نہیں تھی جتنی انہیں کامیابی ملی ہے لیکن اس سلسلے میں کوئی حیرانی کی بات بھی نہیں ہے کیونکہ سبھی کو معلوم تھا کہ سیٹیں خواہ جتنی بھی آئیں،گجرات میں حکومت بی جے پی کی ہی بنے گی۔ برسراقتدار پارٹی کو اصل دھچکا تو دہلی میں لگا ہے۔ حالانکہ دہلی میں مقامی سطح پر بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے لیکن خواہ کوئی بظاہرتسلیم کرے یا نہ کرے، یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ 10 سالوں سے میونسپل اداروں پرقبضہ جمائے رکھنے والی بی جے پی کے لیے یہ ایک بڑا دھچکا ہے۔ وہ بھی ایسے وقت میں جب صرف ایک سال بعد عام انتخابات ہونے والے ہیں، قومی راجدھانی سے جڑ سمیت اکھڑ جانا کوئی معمولی بات نہیں ہوسکتی۔ برسراقتدار جماعت کو اس الیکشن کے دوران ایک اور اہم بات جو کھٹک رہی ہے، وہ یہ ہے کہ کانگریس میں تھوڑی ہی سہی، مگر جان پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ یعنی کانگریس کا احیا ہو رہا ہے۔ یہ بات بی جے پی کو حالیہ انتخابی شکست سے زیادہ پریشان کر رہی ہوگی۔ کیونکہ یہ ’کانگریس مکت بھارت‘ کے سپنے سے جگانے جیسی بات ہے۔ دہلی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں کانگریس نے جس طرح پرچم گاڑے ہیں، یہ واقعی بی جے پی کی نیند حرام کرنے والی پیش رفت ہے۔ اگر کانگریس اسی طرح قدم بہ قدم آگے بڑھتی رہی تو 2024تک بی جے پی کے لیے بڑی مصیبت کھڑی ہوسکتی ہے۔ جہاں تک ہماچل پردیش کا سوال ہے، وہاں کے سلسلے میں ہر 5 سال میں حکومت کی تبدیلی کی بات کی جاتی ہے۔ لیکن بی جے پی والے جس طرح سے مودی لہر کا دعویٰ کرتے رہے ہیں، تو پھر اس طرح کے ’رواج‘کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ ہماچل پردیش بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا اور اور مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر کی آبائی ریاست بھی ہے۔ انوراگ ٹھاکر تو اپنے حلقہ کی سیٹیں بھی بچانے میں ناکام رہے۔
بہرحال یہ تو محض 2 ریاستوں اور دہلی کے بلدیاتی اداروں کے انتخابات تھے لیکن اس دوران کے مختلف واقعات ملک کے لیے کئی اہم پیغامات لے کر آئے ہیں۔ سب سے بڑا پیغام تو دہلی کے ووٹروں نے دیا ہے۔ حالانکہ ہارس ٹریڈنگ کا رواج بہت پہلے سے رہا ہے لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے اس حوالے سے جس ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا جا رہا تھا، اس کی مثال نہیں ملتی۔ گوا، کرناٹک اور مدھیہ پردیش کے واقعات اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ جمہوری طور پر منتخب ارکان کی دھمکی، لالچ اور دبائو میں خرید و فروخت سے ہر ذی شعور شہری پریشان تھا۔ تاحال اس کا کوئی مستقل حل نظر نہیں آرہا تھا۔ حالانکہ پچھلے دنوں پارلیمنٹ میں اس حوالے سے ’دل بدل قانون‘ بھی بنایا گیا لیکن وہ بھی خاطرخواہ کارگر ثابت نہیں ہو سکا۔ لگتا ہے کہ یہ کام اب عوام کوخود ہی کرنا پڑے گا۔ دہلی کے عوام نے اس سلسلے میں ایک نئی راہ دکھا دی ہے۔ قومی راجدھانی کے ووٹروں سے ترغیب حاصل کرتے ہوئے ان سیاست دانوں پر لگام کسنے کے لیے قومی سطح پر سڑکوں پر اترنا پڑے گا جو ذاتی مفاد میں ووٹروں کو دھوکہ دے کر دوسری پارٹیوں کا دامن تھامنے میں ذرا سی شرم بھی محسوس نہیں کرتے۔
[email protected]