پروفیسرعتیق احمدفاروقی
گجرات اورہماچل پردیش اورساتھ ہی دہلی کے میونسپل کارپوریشن کے انتخابات کے نتیجے نے سبھی پارٹیوں کو کچھ نہ کچھ خوشی فراہم کی ہے لیکن تینوں جماعتوں بی جے پی ،کانگریس اورآپ کو احتساب کرنے کی ضرورت ہے۔ بی جے پی کی یہ گجرات میں مسلسل ساتویں فتح ہے اور پارٹی نے نہ صرف اپنے گزشتہ 127نشستوں کا ریکارڈ تجاوز کیاہے بلکہ مادھوسنگھ سولنکی کے 149نشستوں کا ریکارڈ بھی توڑا ہے۔ اب آج گجرات میں بی جے پی کی حیثیت اسی طرح کی ایک نمایاں پارٹی کی ہے جیسے مغربی بنگال میں بایاں محاذ کے 34سال کی مدت کار میں تھی جب اس نے ایک کرشمائی قائد کی قیادت میں بے مثال تنظیمی ڈھانچہ وضع کیاتھا۔ وزیراعظم نریندرمودی کا اپنی آبائی ریاست سے ربط زبردست ہے۔ وہ انتخابات کی تشہیر اس انداز میں کرتے ہیں جیسے وہ خود کسی اسمبلی سیٹ کا ٹکٹ حاصل کرکے انتخاب لڑرہے ہیں۔ پارٹی کو اس بات پر فخر ہوگا کہ اس میں یکے بعد دیگرے انتخابی فتوحات میں اپنی جامع قوت کو صحیح سمت دینے کی صلاحیت ہے اور وزیراعظم مودی کے اثر کا استعمال کرکے پارٹی کے داخلی اختلافات اور حکمرانی کی خامیوں پر غالب ہونے کی قابلیت ہے۔ اب اس کے پاس ملک کے بڑے حصے میں مودی کے اثراورکرشمہ کی بدولت ایک مستحکم ووٹ بینک ہے، یہاں تک کہ ان علاقوں میں بھی جہاں وہ برسراقتدارنہیں ہے۔ ان سب کے باوجود متعدد اسباب ہیں جو پارٹی کیلئے مستقبل کے انتخابات میں پریشانی پیداکرسکتے ہیں۔ ہماچل پردیش کا انتخاب ان کمزوریوں کی نشاندہی کرتا ہے۔2017 میں وہاں بی جے پی نے 49فیصد ووٹ حاصل کئے تھے اور2019 کے عام انتخابات میں 62فیصدووٹ اوراس لحاظ سے بی جے پی کو اس بار ہماچل پردیش میں الیکشن جیتناچاہیے تھا۔ اگرچہ ہماچل پردیش میں ہر الیکشن میں حکمراں پارٹی کی تبدیلی کی روایت رہی ہے لیکن موجودہ حالات میں خصوصاً جب پڑوس کے اتراکھنڈ میں ابھی پارٹی کوکامیابی ملی ہے ، اس پارٹی کو انتخاب جیتنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایسے انتخابات میں جہاں مقامی مدعوں پر تشہیر ہوتی ہے کسی شخصیت کا کرشمہ کام نہیں آتاہے ۔ ایک سروے کے اعدادوشمار سے پتہ چلتاہے کہ جن ریاستوں میں بی جے پی نے فتح کا پرچم لہرایاہے جیسے یوپی اوریہاں تک کہ گجرات میں بھی وہاں 18سال سے 34سال کے درمیان کے نوجوانوں کے اس پارٹی کو ووٹ دینے کی توقع ماضی کے مقابلے بہت کم ہے کیونکہ ان کی سوچ کا دائرہ ہندو مسلم سیاست سے اوپر ہے ۔ان کی فکر اقتصادی پریشانیاں ہیں خصوصاً بیروزگاری،مہنگائی اورتعلیم وصحت کا بنیادی ڈھانچہ۔ اس طرح بی جے پی ملکی سطح پر تو طاقتور رہ سکتی ہے لیکن ریاستی سطح پر اسے مختلف مقامی پارٹیوں سے مختلف مدعوں پر مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان ریاستوں کو چھوڑ کر جہاں پارٹی کی جڑیں مضبوط ہیں باقی ریاستوں میں اسے بہت کوشش کرنی پڑے گی۔
ہماچل پردیش میں کانگریس گجرات کے مقابلے فعال نظر ٓائی ۔ اس ریاست میں پرینکا گاندھی نے خاصی محنت کی۔ کانگریس نے وہاں پر عوام کے مسئلوں اورپریشانیوں کو سمجھا اورایک حکمت عملی تیار کی۔ اپنے منشور میں ، چاہے وہ پرانی پینشن کی اسکیم کا مسئلہ ہو، سیب کی کھیتی کا مسئلہ ہو، فوج میں اگنی ویروں کی تقرری کا مسئلہ ہو ، بیروزگاری اورمہنگائی کا مسئلہ ہو، سبھی کو شامل کیااورایک منصوبہ پیش کرکے انہیں حل کرنے کا وعدہ کیاجس کے نتیجے میں یہاں پر اسے کامیابی ملی۔ میرا خیال ہے اگرسونیا گاندھی اورراہل گاندھی وہاں پر وہ دلچسپی دکھاتے جوگجرات میں نریندرمودی اورامت شاہ نے دکھائی ہے تو نتیجہ اوربہترہوتا۔جہاں تک گجرات کے انتخابات کا سوال ہے اگرچہ 27سال سے وہاں کانگریس برسراقتدار نہیں ہے پھربھی کانگریس کے روایتی ووٹ جو ہاردک پٹیل اورالپیش کے پارٹی چھوڑنے کی وجہ سے بی جے پی کی طرف منتقل ہوگئے ، اسے مل سکتے تھے۔ سونیا گاندھی کو ان لیڈران کی شکایتوں کو سن کر اس کا ازالہ کرناچاہیے تھا۔ علاوہ ازیں ایسا محسوس ہواکہ کانگریس نے 2017 کے انتخابات کے بعد گجرات کی کانگریس قیادت کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ 2017 میں کانگریس نے 77نشستوں پر کامیابی حاصل کی لیکن اس نے ایک مؤثر حزب مخالف کا کردار نہیںنبھایا۔ وہاں پرنام نہاد لیڈران کے پارٹی چھوڑنے اورریاستی سطح کی قیادت میں متعدد تبدیلی سے عوام میں کانگریس کے تئیں مایوسی پیداہوگئی اوروہاں کے رائے دہندگان تذبذب کا شکار ہوگئے۔ نتیجے کے طور پر وہاں کانگریس کی سیٹیں اورووٹ شیئرانتہائی حدتک گھٹ گیا۔ اگریہ کہاجائے کہ کانگریس نے وہاں الیکشن لڑاہی نہیں توغلط نہ ہوگا۔ راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاتر‘سے وہاں کانگریس کو کچھ قوت ضرور ملی ہوگی لیکن یہ گجرات جیسی ریاست میں جہاں مودی کا جادو سرچڑھ کر بولتاہے پارٹی کو از سر نو متحرک کرنے کیلئے خصوصاً انتخابی مقصد سے کافی نہیں تھا۔ پارلیمانی انتخابات سے قبل 2023 میںآٹھ ریاستوںمیں انتخابات ہونے ہیں ۔ کانگریس کو چاہیے کہ گزشتہ الیکشن نتائج سے سبق لے کر ایک فوری حکمت عملی تیار کرے ۔ مثلاً پارٹی کے کرناٹک میں دوبارہ برسراقتدار ہونے کے امکان ہیں اورچھتیس گڑھ میں بھی پھراس کی حکومت بن سکتی ہے۔ راجستھان اورمدھیہ پردیش میں بھی اس کے برسراقتدار آنے کے امکان ہیں۔ ان تمام ریاستوں میں کانگریس کو اپنا تنظیمی ڈھانچہ مضبوط کرنا چاہیے۔ ان ریاستوں میں کانگریس کو اپنی جڑیں اتنی مضبوط کرلینی چاہئیں کہ وہاں آپ جیسی تیسری پارٹی کا داخلہ ممکن نہ ہوسکے۔
جہاں تک آپ کا سوال ہے دہلی میونسپل کارپوریشن کاانتخاب جیت کر اورگجرات میں اپنی موجودگی درج کراکر اس نے ایک قومی پارٹی کادرجہ حاصل کرلیاہے۔مستقبل میں گجرات میں اس کی کامیابی اس بات پر منحصرکرتی ہے کہ وہاں وہ اپنا تنظیمی ڈھانچہ کتنا بہتر بناتی ہے ، یہ ریاستی اکائیوں کو کتنی خودمختاری دیتی ہے اورکتنی تیزی سے وہ ایک نظریاتی پلیٹ فارم وضع کرتی ہے جو اُسے دیگر دوقومی پارٹیوں (کانگریس اور بی جے پی) سے منفرد بتاتی ہے ۔عام آدمی پارٹی کو یہ سمجھناچاہیے کہ جن ریاستوں میں رائے دہندگان کے پاس قابل اعتماد متبادل موجود ہے وہاں اس کی دال نہیں گلے گی۔ اُسے ریاستوں میں قابل اوربھلے لیڈران چن کر انہیں بااختیار بنانا پڑے گا۔ بہت زیادہ شخصیت پرستی پارٹی کیلئے نقصاندہ ثابت ہوسکتی ہے۔ نریندرمودی کی مقبولیت کا سبب ، چاہے گجرات میں ہو ،چاہے پورے ملک میں ہو، ان کا ہندوتوا وادی چہرہ ہے۔ گجرات میں بلقیس بانو کے گناہ گاروں کی رہائی مرکزی حکومت کی سفارش پر ہوئی تھی تاکہ ان کی ہندوتوا کے چہرے کی چمک باقی رہے لیکن یہ ماننا غلط ہے کہ اس بنیاد پر وہ ہر حالت میں عوام کے ہیرو بنے رہیں گے۔ انتخابات کے نتیجوں نے تینوں پارٹیوں کو خوشی منانے کا موقع ضرور فراہم کیاہے لیکن جو پارٹی ان نتائج سے سبق سیکھ کر اپنے اندر اصلاح کرے گی وہی 2023 و2024 میں اوراس کے آگے بھی کامیابی حاصل کرے گی۔
[email protected]
پروفیسرعتیق احمدفاروقی: ریاستوں کے حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتائج
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS