صبیح احمد
بنگلہ دیش جنوبی ایشیا کا سب سے جوان ملک ہے، لیکن اس کی فی کس مجموعی قومی پیداوار پاکستان سے کئی فیصد اور اپنے سے کئی گنا بڑے ملک ہندوستان سے بھی زیادہ ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش جنوبی ایشیا کے ایک سیکولر ملک کے طور پر تیزی سے ترقی کرتا ہوا ملک سمجھا جا رہا ہے جس کی وجہ سے اس میں ایک سیاسی استحکام نظر آرہا ہے۔ بنگلہ دیش اب دنیا کے پسماندہ ترین ممالک کی فہرست سے نکل گیا ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران بنگلہ دیش نے مینوفیکچرنگ اور زرعی برآمدات کے ساتھ ساتھ صحت، خواتین کی ترقی اور تعلیم کے شعبوں میں بھی نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ بنگلہ دیش اب ایشیا میں تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے ایک بن گیا ہے۔ 1971 میں ایک آزاد ملک بننے سے پہلے بنگلہ دیش ایک اسلامی ملک پاکستان کا حصہ تھا جہاں اب اسلامائزیشن بیک وقت ملک کی قومی یکجہتی کی تعمیر اور معاشرے کی فرقہ وارانہ تقسیم کا ایک بڑا سبب بن چکی ہے، لیکن دونوں ممالک جس ملک سے علیحدہ ہوئے تھے یعنی ہندوستان، وہ ایک طویل عرصہ تک سیکولرازم کے بعد ’ہندوتو‘ کی جانب بڑھ رہا ہے، یعنی جہاں ایک انتہائی دائیں بازو کی سخت گیر حکومت اور معاشرہ فروغ پا رہا ہے۔ جس کے سبب بہتر سیاسی و تجارتی تعلقات ہونے کے باوجود ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان مذہب کی بنیاد پر کبھی کبھی تلخیاں بھی پیدا ہوجایا کرتی ہیں۔اچھی بات یہ ہے کہ یہ تلخیاں عارضی اور وقتی ہوا کرتی ہیںاور دونوں ملکوں کے درمیان موجود دائمی رشتے پر کبھی اثرانداز نہیں ہوپاتے۔ بہرحال اسٹرٹیجی کے اعتبار سے جنوبی ایشیا کے ایک اہم نکتے پر موجود ہونے کی وجہ سے خطہ کے دیگر بڑے ملکوں کے لیے بنگلہ دیش کافی اہمیت کا حامل ہے اور خطہ کے تمام ملکوں کی نظریں بنگلہ دیش پر ٹکی ہوتی ہیں۔
پاکستان، چین اور افغانستان جیسے اہم پڑوسیوں کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے درمیان بنگلہ دیش کے ساتھ مضبوط تعلقات کو برقرار رکھنا خصوصاً ہندوستان کے لیے کافی اہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی وقتی سرد مہری کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان رشتے روز بروز مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ اور ہندوستان میں نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں نئی گرم جوشی آئی ہے اور اس گرم جوشی کا اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد اور نریندر مودی 2015 سے لے کر اب تک 12 بار ملاقات کر چکے ہیں۔ دریائے تیستا کے پانی کی تقسیم اور سرحدی علاقوں میں ہندوستانی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں بنگلہ دیش کے شہریوں کی مبینہ ہلاکت کے معاملے کو الگ چھوڑ دیا جائے تو دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے کئی معاہدے طے پا چکے ہیں۔ ادھر چین بھی بنگلہ دیش کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے اپنی کوششوں میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔ چین جس طرح بنگلہ دیش میں جاری منصوبوں کا افتتاح کر رہا ہے اور چینی سفیر وہاں کے تجارتی فورموں پر جس سرگرمی سے چین کی اقتصادی تجاویز پیش کر رہے ہیں، اس سے بنگلہ دیش میں چین کی بڑھتی ہوئی دلچسپی واضح طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ بنگلہ دیش کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے چین نے اپنے انفراسٹرکچر میں بھاری سرمایہ کاری کے ساتھ توانائی کے وسائل کی فراہمی میں مدد کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ اس کے ساتھ وہ دونوں ممالک کی کرنسیوں کے آسان تبادلے کے لیے بھی پیش رفت کر رہے ہیں۔ لیکن بنگلہ دیش کی حکومت چین کی جانب سے اس طرح کی تجاویز کو قبول کرنے میں پوری احتیاط برت رہی ہے۔ وہ چینی تجاویز کا خیرمقدم کر رہی ہے لیکن ساتھ ہی ہندوستان اور جاپان جیسے ایشیائی ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو مضبوط کرنے کی اپنی خواہش کا کھل کر اظہار کر رہی ہے۔
چین کی اس جارحانہ پیش قدمی کے پیش نظر ہندوستان کو بنگلہ دیش کے ساتھ اپنے رشتوں کو مزید مضبوط کرنے کے لیے اقدامات کرنا ضروری ہے۔ اگر بنگلہ دیش کی مدد کے لیے ہندوستان 2 قدم آگے نہیں بڑھاتا ہے تو چین اس کے لیے 4 قدم آگے بڑھائے گا۔ بنگلہ دیش نے پدما ندی پر حال ہی میں تعمیر شدہ پل بھلے ہی اپنے پیسوں سے بنایا ہو لیکن اس کی تعمیر میں چینی کمپنیوں کی مدد لی گئی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ڈھاکہ کے اردگرد چینی مزدوروں کی بستیاں آ گئی ہیں۔ بہت سے چینی شادی کے بعد وہاں آباد ہو چکے ہیں۔ اس طرح خطہ میں چین کی موجودگی ہندوستان کے لیے بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔ اس تناظر میں بنگلہ دیش کے ساتھ ہندوستان کے تعاون کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان مضبوط باہمی تعاون کی اہمیت کو بنگلہ دیش بھی اچھی طرح سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش تجارت بڑھانے کے لیے ہندوستان پر بہت زور دے رہا ہے۔ ہندوستان بھی اس کا مثبت جواب دے رہا ہے۔ 25 اشیا کو چھوڑ کر ہندوستان نے بنگلہ دیش کی تقریباً تمام برآمدات کو بہت چھوٹ دی ہے۔ اور بنگلہ دیش کی ہندوستان میں ہونے والی برآمدات بڑھ رہی ہیں۔ اس کے علاوہ کئی بنگلہ دیشی کمپنیاں ہندوستان میں کاروبار کر رہی ہیں۔ بنگلہ دیش کی ہندوستان میں برآمدات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
بلاشبہ ہندوستان کے ساتھ اپنے رشتوں کو بنگلہ دیش خاطر خواہ اہمیت دے رہا ہے۔ حسینہ حکومت نے بنگلہ دیش کے کیمپوں سے شمال مشرقی ہندوستان میں علیحدگی پسند تحریک کی حمایت کو کچلنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ حسینہ حکومت نے وہاں رہنے والے علیحدگی پسند تحریک کے بڑے لیڈروں کو ہندوستان کے حوالے کر دیا۔ ان میں ULFA لیڈر اروند راجکھوا سمیت بہت سے دوسرے علیحدگی پسند لیڈر شامل ہیں۔ اب وہ ہندوستان کے ساتھ امن مذاکرات کر رہے ہیں۔ حسینہ حکومت نے بنگلہ دیش کی سرزمین سے سرگرم علیحدگی پسندوں کے تقریباً تمام نیٹ ورکس کو کچل دیا ہے۔ آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ بنگلہ دیش کی وجہ سے ان کی ریاست کے لوگ آج سکون سے سوسکتے ہیں۔ درحقیقت بنگلہ دیش نے شمال مشرق میں امن اور خوشحالی لانے میں ہندوستان کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہی نہیں، شمال مشرق میں ہندوستان کے باقی حصوں کے ساتھ رابطے کو بہتر بنانے میں بھی بنگلہ دیش کا بڑا کردار ہے۔ تریپورہ کوریڈور جیسا بنیادی ڈھانچہ بنگلہ دیش کی مدد سے ہی بنایا جا سکتا تھا۔ اب بنگلہ دیش سے سامان لے کر فینی ندی پر پل کے ذریعہ سیدھا تریپورہ پہنچا جا سکتا ہے۔ ہندوستان کی بنگلہ دیش کے ساتھ تقریباً 4 ہزار کلومیٹر کی سرحد ہے۔ اس لیے چین اور پاکستان جیسے ممالک کے چیلنجز کے پیش نظر ہندوستان کو اس علاقہ میں ایک ایسے ملک کی ضرورت ہے جو اس کا دوست ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کو بنگلہ دیش کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں اقدامات کیے بھی جا رہے ہیں۔ حالانکہ سارک آج فعال نہیں ہے لیکن ہندوستان BBIN (بنگلہ دیش، بھوٹان، انڈیا اور نیپال) لنک کے ذریعہ بنگلہ دیش کے ساتھ اپنے تعاون کو مزید مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
سلی گوڑی کے ذریعہ شمال مشرق کے رابطے کی وجہ سے بنگلہ دیش پر ہندوستان کا اسٹرٹیجک انحصار نمایاں طور پر بڑھ گیا ہے۔ ڈوکلام میں چینی سرگرمیوں کی وجہ سے بنگلہ دیش پر ہندوستان کا انحصار اور بھی زیادہ بڑھ گیا ہے۔ یہ علاقہ بھوٹان کے قریب ہے۔ جس کی وجہ سے بنگلہ دیش کا کردار اور بھی اہم ہو جاتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ دونوں ممالک اس علاقے میں رابطے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جہاں تک شمال مشرق میں علیحدگی پسند باغیوں کو دبانے کا تعلق ہے، یہ بنگلہ دیش کی بیرونی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اس لیے بنگلہ دیش، بھوٹان، نیپال اور سری لنکا جیسے چھوٹے پڑوسیوں کی اہمیت ہندوستان کی سیکورٹی حکمت عملی کے لیے کافی بڑھ جاتی ہے۔
[email protected]