یوکرین پرروسی حملہ نے عالمی سیاست کو یکسرتبدیل کردیا ہے، مسلم ممالک نے بغیر کسی کے تئیں وفاداری دکھائے اپنے مفادات کے مطابق خارجہ اور دفاعی پالیسی اختیار کی ہے اور وہ روس کی طرف ہیں اور نہ ہی یوروپ اورامریکہ کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اب تو ایسا لگ رہاہے کہ مسلم ممالک نے آپسی خلفشار اور ترک تعلق کے رویہ کو ختم کرتے ہوئے افہام وتفہیم کے دور کا آغاز کیا ہے۔ سعودی عرب اور ترکی نے حالیہ اور شدید قسم کی رقابت اوراختلافات رائے کو درکنار کرتے ہوئے تعلقات استوار کے لیے دونوں ملک ایک دوسرے کو تعاون فراہم کررہے ہیں۔ ترکی اس وقت اقتصادی بحران سے گزر رہاہے اوراس کو افراط زر سے نجات حاصل کرنے کے لیے غیر ملکی تعاون کی ضرورت ہے تواس سخت وقت میں سعودی عرب نے اس کے غیرملکی کرنسی کے ذخائر کو بڑھانے کی خاطر، 5بلین امریکی ڈالر اس کے سینٹرل بینک میں جمع کرائے ہیں۔ یہ امداد ایسے وقت میں کی گئی ہے جب یوروپ اور مغربی ممالک نے ترکی سے ہاتھ کھینچ لیاہے۔سعودی عرب کی طرح عرب اور مسلم دنیا کے اہم ملک مصر نے پرانی رقابت کو ترک کرکے پرانی سامراجی طاقت کے ساتھ مذاکرات کرنے شروع کردیے ہیں۔ قطر میں ہونے والے فٹ بال ورلڈکپ جیسے مواقع کو بھی عرب اور مسلم ملکوں نے سفارتی موقع سمجھ کر استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ اس موقع پر ملاقات میں قطر میں سعودی عرب، قطر اور ترکی کے اعلیٰ ترین سربراہان نے باہمی امور پر گفتگو کی اوردنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ بھی real politiksکے فنڈے کوسمجھتے ہیں۔خیال رہے کہ ترکی کی غیرملکی کرنسی کے ذخائر میں پانچ بلین امریکی ڈالر کا اضافہ ترکی کو اندرونی بحران سے نمٹنے میں معاون ہوگا۔ آئندہ سال 2023میں ترکی میں عام انتخابات ہیں اور یہ اقتصادی تعاون طیب اردگان کی پوزیشن کو بچانے میں کافی مددگارثابت ہوگا۔
ترکی جیسے بڑے ملک کو صرف سعودی عرب سے ہی نہیں بلکہ دیگرمالدار ملکوں اورمعیشتوں سے تعاون مل رہا ہے، طیب اردگان کی دوراندیشی پرمبنی خارجہ پالیسی کا نتیجہ ہے کہ یواے ای سے تقریباً5بلین امریکی ڈالر، قطر سے 15بلین ڈالر اور چین سے 6بلین ڈالر کی مدد حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ اسی طرح ترکی کو حال ہی میں مجموعی طورپر 20بلین امریکی ڈالر کے ذخائر حاصل کرنے میں کامیابی مل گئی ہے۔ تقریباً 7دہائیوں کے گزرنے کے بعد اب مسلم ملکوں نے پہلی جنگ عظیم کے بوجھل ماحول کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ترکی کی سلطنت عثمانیہ نے افریقہ کے کئی ملکوں پر اپنا سامراج قائم کیا ہوا تھا اور دیگر عرب ملکوں کی طرح برطانیہ اور دیگر اتحادیوں کی مدد سے سلطنت عثمانیہ سے ان ملکوں نے ’’غیرملکی‘‘ حکومت سے نجات حاصل کی مگر ابھی بھی مصر جیسے ممالک نے اسرائیل سے تو تعلقات استوار بہت پہلے ہی کرلیے تھے مگر اپنے ہم مذہب ترکی کے ساتھ معمول کے سفارتی تعلقات نہیں ہیں، دونوں ملکوں کے درمیان کئی سطحوں پراختلافات میں ان میں بحرروم میں سائپرس (قبرص) اور یونان اور لیبیا میں ترکی مداخلت مصر کو پریشان کیے ہوئے تھے۔ لیبیا اور مصر کی سرحدیں ملی ہوئی ہیں اور دونوں ملکوں کے تعلقات اور مفادات ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔
’اخوان المسلمین‘ اور مصر کی موجودہ حکومت کی رقابت سے کون واقف نہیں، ترکی کی اخوان المسلمین کے ساتھ ہمدردی کو لے کر کئی عرب ممالک ناراض ہیں اور اخوان المسلمین کی سیاسی انقلابی بغاوت کے بعد صدر اسد کا تختہ پلٹا تھا۔ اس بغاوت سے کئی عرب اور افریقی ملک بھی متاثر تھے۔ ان میں تیونس، الجیریا، شام، عراق اور ارض فلسطین شامل ہیں۔مصر میں طویل عرصہ تک سیاسی بحران رہا اور فوج کو حالات کو قابو میں کرنے کے لیے بدترین مشقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی صورت حال دونوں ملکوں اور ترکی کے دیگر عرب مسلم ملکوں کے ساتھ اختلاف رائے کی سبب رہا ہے۔ بہت سے ممالک ترکی کی صلہ رحمی کے جذبہ کو اس کے اندرونی اقتصادی، سیاسی حالات سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں مگر جائزہ لیا جائے تو سب ملک اپنی کمزوریوں اور مضبوط پہلوؤں اور ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسیاں وضع کرتے ہیں۔بہرکیف شاید آج کے حالات مسلم اور عرب ملکوں کو سبق سکھاسکتے ہیں۔ اسی دور کشاکش میں ان ملکوں کو اپنی اہمیت اور اپنی اجتماعی جیت کو برقرار رکھنے کے لیے انفرادی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر آپسی تعاون بڑھاناہوگا۔ ایک دوسرے کی اہمیت کو برقرار رکھ کر ہی یہ ممالک بڑی سیاسی طاقت بن سکتے ہیں اور اس وطیرے کو اختیار کرکے ہی مسئلہ فلسطین جیسے حساس تنازعات کوحل کرسکتے ہیں ورنہ ہم دیکھ رہے کہ سخت مذکرات کرکے سیاسی سمجھوتوں پر پہنچنے کے باوجود عالم اسلام فلسطینی مظلوموں کو انصاف دلانے میں بری طرح ناکام ہے۔n
مسلم دنیا: خلفشار اور ترکِ تعلق کا خاتمہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS