سوڈان :بڑھتی جارہی ہے فوج کی گرفت

0

وادی نیل کے ایک اہم ملک سوڈان میں سیاسی اتھل پتھل فوج اور غیرفوجی سیاسی طبقات اور پارٹیوںکے درمیان کشمکش ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ سوڈان کی فوج کے سربراہ نے آج اچانک یہ اعلان کردیا کہ ان کا انتظامیہ مختلف تجارتی یونینوں ، مزدور یونینوں اور اقتصادی اداروں کا کنٹرول بھی اپنے ہاتھ میں لے لے گا۔ فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتح البرہان الابراہیم نے اس بابت ایک کمیٹی بنائی تھی جو ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے مختلف تجاویز پیش کر رہی تھی۔ واضح رہے کہ سوڈان میں 2019 میں ایک منتخب حکومت کو بے دخل کرکے فوج نے اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ سوڈان نے سول سوسائٹی ، تجارتی ادارے اور پیشہ ور افراد نے اس فوجی بغاوت کی شدید مذمت کی تھی تب سے ہی وہاں جمہوری تحریک چل رہی ہے۔ فوج نے وعدہ کیا تھا کہ وہ جلد ہی ملک میں ایک منتخب جمہوری نظام قائم کرنے کے بعد اپنی مداخلت ختم کرکے واپس بیرکوںمیں چلی جائے گی۔ مگر لگاتار فوج جس کے منہ کو اقتدارکا خون لگ گیا ہے۔ اقتدار کی منتقلی میں آناکانی کر رہی ہے۔ پوری عالمی برادری جوکہ سوڈان میں جمہوری نظام کے قیام کے لئے کوشاں ہے۔اقتصادی اداروں پر کنٹرول کا فیصلہ فوج کی منشا بالکل واضح ہوگی کہ اس کا ارادہ اقتدار چھوڑنے کا نہیں ہے۔ اس صورت حال سے ناراض ہے۔ سوڈان کی سول سوسائٹی میں خواتین بہت اہم رول ادا کر رہی ہیں اور وہ تمام اپنے روایتی طور طریقوں کے ساتھ ملک میں جمہوری نظام کے قیام کے لئے اسی طرح کوشاں ہیں اور جستجو کر رہی ہیں جس طرح مرد سرگرم ہیں۔ کئی خواتین استبدادی ہتھکنڈوں کے سامنے آہنی دیوار کی طرح کھڑی ہیں جس کا کئی بین الاقوامی اداروں اور اقوام متحدہ نے اعتراف کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی اجلاس میں وہاں کے رضاکار خواتین لیڈروں کو اپنے اظہارخیال کے لئے موقع دیا گیا تھا۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک مسلسل اس بات کے لئے سوڈان کی فوج پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ وہ اقتدار سے بے دخل ہوکر جمہوری طورپر منتخب سرکار کو اختیارات سونپے لیکن عبدالفتح برہان کا یہ فیصلہ عالمی برادری اور جمہوریت پسندوںکی اس اپیل کی صریحاً خلاف ورزی ہے جوکہ بار بار کی جارہی ہے۔ اس وقت سوڈان کئی محاذوں پر بحران کا شکار ہے۔ پچھلے دنوں سوڈان میں بدترین سیلاب آئے ہوئے تھے اور اب ان سیلابوں کے بعد متعدی بیماریوں خصوصاً ڈینگی و دیگر وبائی امراض نے پورے ملک کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ عالمی برادری نے سیاسی غیریقینی صورت حال کو مدنظررکھتے ہوئے اقتصادی امداد سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور بین الاقوامی ادارے بطور خاص اقوام متحدہ پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے وہ نہیں چاہتی کہ امدادی رقم اور اسباب حکمراں طبقے کے ہاتھ میں پہنچ جائے اور وہ اس امدادی سامان کو تقسیم کرکے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے۔
بین الاقوامی اداروںکا کہنا ہے کہ فوجی حکومت عوامی لیڈروں کو ہراساں کرنے کے لئے ان کے ساتھ زیادتیاں کر رہی ہے۔ جب سے برہان اقتدار میں آئے ہیں اورجمہوری طورپر منتخب صدر بشیر اقتدار سے بے دخل ہوئے ہیں۔ سوڈان کے صحافی، سیاستداں ، وکلا اور مزدوروںاور ماہرین کی یونینیں لگاتار ان کے نشانے پر ہیں۔ کئی سینئرسیاسی لیڈروںکو گرفتارکرلیا گیاہے یا ان کو اپنے گھروںمیں نظربند کردیا گیا ہے۔ ایک الزام یہ بھی ہے کہ حکمراں فوجی ٹولہ روشن خیال پیشہ ور ماہرین کو سخت گیرمذہبی عناصر یعنی اسلام پسند لوگوں پر سختی کرکے اخوان المسلمین اوراس سے وابستہ تنظیموں اور اداروں پر کنٹرول حاصل کیا جاسکے تاکہ اسلام پسندوںکو زیادہ کام نہ کرنے اور مقبولیت بنانے کا موقع نہ مل سکے۔ حکمراں ٹولہ اسلام پسندوںپر سختی کر رہا ہے اور جمہوریت کے خلاف جومہم چل رہی ہے اس میں اسلام پسند طبقہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اخوان المسلمین سے تعلق رکھتا ہے،احتجاجوں میں یہ پیش پیش ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکمراں فوجی ٹولہ اقتصادی امورپر بھی قابو کرکے ملک کے بجٹ پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اس کا مقصد فوج اوردفاعی اخراجات میں اضافہ کرنا ہے تاکہ ملک میں فوج کو فوجی امورکے علاوہ بھی انتظامی اوراقتصادی امورمیں زیادہ عمل دخل ہوجائے۔ ظاہر ہے کہ سوڈان کے سینٹرل بینک اور شیئرمارکیٹ پر قبضہ اورکنٹرول کرکے پیشہ ورانہ تنظیموں، مزدور لیڈروںاور قانونی ماہرین کے اس ٹولے کو کنٹرول کرنا ہے جوکہ ملک میں جمہوری نظام کے قیام کے لئے کوششیں کر رہا ہے۔ مبصرین پہلے ہی اس طرف توجہ دلارہے تھے کہ سوڈان کی فوج اقتصادی امورپر کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ سوڈان کی فوج پر الزام ہے کہ وہ ایک طرف تو انتظامیہ اور زندگی کے ہر شعبہ پر کنٹرول جما رہی ہے اور دوسری طرف سیاست دانوںاور پیشہ ورانہ طبقات کو مزید تقسیم کرنے کی کوشش کے طورپر کئی ذیلی گروپوںکو شہ دے رہی ہے۔ سوڈان کا اپوزیشن گروپ یعنی سیاسی جمہوری نظام کے لئے جدوجہد کرنے والے ادارے، تنظیمیںاور سیاسی جماعتیں ظاہر ہے کئی امور پر الگ الگ آرا رکھتی ہیں جوکہ کسی بھی جمہوری نظام کی اساس ہے۔ فوج ان گروپوں کے آپسی اختلافات کو حیلہ بناکر یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی ہے کہ سیاسی پارٹیاں کسی متحدہ اور متفقہ آئین کی تشکیل پر متفق نہیں ہورہی ہیں۔ کئی ممالک سوڈان میں اپوزیشن اورحکمراں فوجی ٹولے کے درمیان تعطل ختم کرنے کی کوشش کرر ہے ہیں۔ اس میں کئی مغربی خلیجی ممالک اور اقوام متحدہ شامل ہیں۔ سوڈان میںجمہوریت کی روایات گہری نہیں ہیں۔ عمرالبشیر 30سال تک اقتدار پر قابض رہے۔ 2019 میں جب وہ اقتدار سے بے دخل ہوئے تو جمہوری نظام کے قیام کی امیدبندھی تھی۔ ڈیموکریٹک یونیسسٹ پارٹی (Democratic Unionsist Party) کا ایک اہم بلاک جس پر صوفی رہنمائوںکا کنٹرول بتایا جارہا ہے،جمہوری تحریک میں سب سے زیادہ سرگرم ہے اور پچھلے دنوں اس گروپ نے مظاہرے کرکے زبردست طاقت کا مظاہرہ کیا تھا۔ جمہوریت کے نام پر سوڈان میں اختلافات بہت سنگین ہیں اور اس پارٹی (ڈی یوپی) میںدوحصے ہوگئے ہیں۔ یہ اختلافات پیشہ ورانہ ماہرین کی یونینوں اور دیگراداروں میں بھی ہیں۔ ایسے حالات میں سوڈان میں فی الحال کسی بڑی تبدیلی کا امکان نہیں۔
سوڈان کے حکمراں عبدالفتح برہان بین الاقوامی سطح پر بھی الگ قسم کے کھیل کھیل رہے ہیں۔ انہوںنے پچھلے دنوں انڈونیشیا میں منعقد گروپ 20 کی کانفرنس میں شریک ہوئے تھے۔ جہاں ان کی سعودی عرب کے ولی عہد محمدبن سلمان سے ملاقات ہوئی تھی۔ انہوں نے اس سے قبل اسرائیلی حکومت سے سفارتی، اقتصادی اور دفاعی مراسم قائم کرکے اپنے حریفوںکو چاروں خانے چت کردیا تھا۔ امریکہ نے پچھلے دنوں اسرائیل کو وارننگ دی تھی کہ وہ سوڈان کی موجودہ حکومت کے ساتھ مذاکرات یا تعاون کرکے غیرجمہوری اور فوجی ٹولے کے اقتدار پر قبضے کو جواز فراہم نہ کرے۔ امریکہ دونوں ملکوں کی قربت سے ناراض ہے مگر اسرائیل ہر معاملے پر اپنے مفادات اور نقطہ نظر کے مطابق کام کرتا ہے اوراس کو لگتا ہے کہ وہ اس طرح افریقہ کے کئی ملکوںمیں اپنا عمل دخل بڑھاکر اپنا دائرئہ اختیار بڑھا سکتا ہے اور ملک کے اقتصادی اور تجارتی دائرہ کو وسیع کرسکتا ہے۔
٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS