عبدالماجد نظامی: انسانی قدروں سے عاری ہوتا ہمارا معاشرہ

0

عبدالماجد نظامی

انسانی سماج ایک منظم اور مربوط نظام حیات کا نام ہے جہاں نسلوں کی آبیاری کا موثر اور مفید انتظام کیا جاتا ہے تاکہ انسانی قدروں کے ارتقاء میں روز بروز اضافہ ہوتا رہے اور بہتر سے بہتر سماج کی تشکیل کے لیے جو وسائل درکار ہیں ان کی فراہمی میں کسی قسم کی ادنیٰ کوتاہی کا بھی گزر نہ ہوسکے۔ ایسے معاشرہ کی تشکیل میں جس بات کی ضرورت سب سے زیادہ ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ سماج میں قیادت کے منصب پر فائز افراد اپنی ذمہ داریاں اس انداز میں ادا کریں کہ ان کے قول و فعل سے محبت و رفقت اور جاں نثاری و جاں سپاری کے جذبات معاشرہ میں پنپتے ہوں۔ معاشرہ کے افراد میں اعلیٰ انسانی قدروں سے لیس ہونے اور عفو و درگزر کے احساسات سے خود کو مزین کرنے کا جذبہ پروان چڑھے۔ نفرت و عداوت، کینہ و بغض، حسد و عناد جیسے امراض سے دل و دماغ کے تمام کونے خالی ہوں اور آپسی محبت و رواداری، صلہ رحمی و حسن اخلاق اور نصرت و دست گیری جیسی قابل رشک عادتوں سے زندگی میں نکھار پیدا کیا جائے۔ جب تک معاشرہ کی تشکیل ان خطوط پر نہیں کی جائے گی یہاں انارکی و بے چینی اور قتل و خون کی تہذیب کا ہی بسیرا رہے گا جس سے پورے سماج میں ایسا تعفن پیدا ہوجائے گا کہ سانسیں بوجھل ہونے لگیں گی اور زندگی سے بیزار ہوکر لوگ موت کی تمنا کرنے لگ جائیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ انسانی سماج کی سب سے بڑی شکست ہوگی۔ خدا کے اس تخلیقی پلان کے ساتھ کھلواڑ ہوگا جس کے تحت انسان کو سب سے افضل بنایا گیا تھا تاکہ وہ جنگل کے جانوروں کی طرح درندگی پر نہ اتر آئیں کہ جہاں کمزور ہمیشہ طاقت ور کے رحم و کرم پر جیتا ہے اور جہاں محبت و الفت کے جذبات بہت محدود اور غیر متوازن شکل میں ہی پائے جاتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں میڈیا کے ذریعہ جس طرح سے قریب ترین لوگوں کے ہاتھوں ان کے رشتہ داروں، اہل قرابت اور معزز ترین رشتوں کے بہیمانہ قتل کے واقعات ہمارے سامنے پیش کیے گئے ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری انسانیت دم توڑ رہی ہے اور حیوانیت و شیطنت جیسے بھیانک عادات و اطوار سے ہم اپنا رشتہ جوڑتے جا رہے ہیں۔ جہاں کوئی اپنی شریکِ حیات کو بے دردی سے قتل کرتا ہے اور اس کو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے الگ الگ حصوں میں بانٹ کر ایسے بکھیرتا ہے جیسے وہ کوئی مقدس روح کی حامل قابلِ احترام اور لائق صد تکریم زندگی نہ ہو بلکہ کچرے کا کوئی ڈھیر ہو جس سے پیچھا چھڑا کر گھر کو صاف کرنا ضروری ہو۔ قارئین اگر صرف گزشتہ دو ہفتوں کی اخباری سرخیوں پر نظر ڈالیں توکہیں بیوی اور بیٹے کے ہاتھوں شوہر اور باپ کے قتل کا واقعہ نظر سے گزرے گا تو کہیں شوہر کے ذریعہ بیوی کو مبینہ طور پر قتل کرکے اس کے ٹکڑے کرنے کے دل دوز واقعات دیکھنے اور پڑھنے کو ملیں گے تو کہیں شادی کے جھانسہ میں ڈال کر کسی معصوم کی آبرو ریزی کے بعد اس کو بے رحمی سے ختم کر دینے کی تصویر نظر آئے گی تو کہیں خود اپنے ماں باپ کے ذریعہ اپنی بیٹی کو قتل کر دینے اور اس سے گلو خلاصی کا جنون دیکھنے کو ملے گا۔آفتاب پونے والا کا شریک حیات شردھا یا پرنس یادو کا اپنی پسند آرادھنا کو مارنا اور ٹکڑوں میں کاٹنا ہو یا غیرذات میں شادی کرنے پر آیوشی یادو کا اپنے ہی والد کے ہاتھوں قتل ہو، دل دہلا دینے والا ہے۔ آپ اگر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ جرم کی یہ لکیریں ہر رشتہ کو اپنے دائرہ میں لے چکی ہیں۔ نہ محبوبہ محفوظ ہے، نہ بیوی کی جان سلامت ہے۔ نہ باپ کی عظمت کا پاس و لحاظ ہے اور نہ ہی ماں کی ممتا کا خیال رکھا جاتا ہے۔ بچوں اور بچیوں کے ساتھ والدین کی محبت میں کمی آرہی ہے اور عزت و ناموس کی حفاظت کے نام پر اپنی ہی اولاد کا گلا گھونٹ دینے میں انہیں کوئی تردد نہیں ہوتا ہے۔ کیا یہ کسی ایک فرد، مذہب یا ذات کی ناکامی ہے؟ نہیں! یہ ہمارے سماج کی مشترکہ ناکامی ہے اور اس کے مضر اثرات سے وہ لوگ بھی نہیں بچ پائیں گے جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایسے ماحول سے ایک قسم کی دوری بناکر جی رہے ہیں۔ سب سے پہلے یہ اس سیاسی قیادت کی ناکامی ہے جس نے پاور اور اقتدار کو حاصل کرنے کے جنون میں کبھی یہ سوچنے تک کی زحمت گوارہ نہیں کی کہ اس کے شب و روز کی دشنام طرازی سے کس قسم کا معاشرہ وجود میں آئے گا اور اس کے کیا نتائج پورے معاشرہ کو بھگتنے ہوں گے۔ یہ اجتماعی ناکامی ہندوستان میں بسنے والے ان تمام انسانوں کی ہے جنہوں نے اپنے لیڈروں کے بھڑکاؤ بیانات سنے اور قتل و آتش زنی پر ان کو جب اکسایا گیا تو وہ پرجوش ہوکر گلیوں اور بازاروں میں نکل گئے اور ہر اس شخص کو اپنا نشانہ بنایا جنہیں دشمن کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ جب ان کے سیاسی قائدین نے انہیں برادر کشی کی ترغیب دلائی تو انہوں نے انہیں ایسا کہنے سے باز نہیں رکھا بلکہ اس کے برعکس ان کو عزت و تکریم سے نوازا اور ان کے ہاتھ میں قیادت کی کلید تھمادی کہ جس جہنم میں چاہیں اس خوبصورت انسانی معاشرہ کو جھونک دیں۔ یہ ناکامی اس نظام تعلیم کی ہے جس نے جسم کو سجانے اور گھر کو بازار بنانے کا ہنر تو سکھایا لیکن وہاں کبھی یہ تعلیم نہیں دی گئی کہ دل کی دنیا کو کیسے سنوارا جائے گا، محبت و اخلاق کے مقدس جذبات کیسے پروان چڑھیں گے اور رواداری و الفت جیسی خوبیوں سے معاشرہ کو کیسے روشناس کرایا جائے گا۔ یہ ناکامی عدل و انصاف کی حفاظت کے لیے بنائے گئے ان اداروں کی بھی ہے جنہوں نے اپنے مقصد کو بالائے طاق رکھ کر رشوت و بے ایمانی کو اپنا دھندہ بنالیا اور جس کی وجہ سے انصاف کے دروازے نیلامی کا بازار بن گئے جہاں سب سے زیادہ قیمت پیش کرنے والا جیت جاتا ہے خواہ وہ مجرم ہی کیوں نہ ہو اور معصوم ہار کر دوہرے عذاب کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہ ناکامی ہمارے ان رشتوں کی ہے جن کی وجہ سے ہم کبھی سکون و اطمینان محسوس کرتے تھے اور تحفظ کا ہالہ ہمارے ارد گرد تیار ہوجاتا تھا۔ اب مادیت و خود غرضی کے بھوت نے ان رشتوں میں درندگی و بے رحمی کے ایسے منتر پھونک دیے ہیں کہ ابلیسی دنیا کے اوصاف ہمارے اندر حلول کر گئے ہیں اور اسی وجہ سے ہمارے سماج میں رحم کے ذرات تک ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ بھلا ایسے معاشرہ کا کیا فائدہ جہاں ہر شخص اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرکے اونچی عمارتوں میں رہتا ہو، نفیس لباس میں ملبوس ہو اور لمبی چوڑی قیمتی کاروں میں سفر کرتا ہو، دنیا کے مہنگے بازاروں میں شاپنگ کے مزے لیتا ہو اور قدرت کے حسین مناظر کو دیکھنے کے لیے سیاحت سے لطف اندوز ہوتا ہو لیکن اس کا اندرون درد و کرب میں لپٹا ہوا ہو، اس کی انسانیت مر چکی ہو اور اس میں رحم و کرم اور عفو در گزر کے جذبات سرد پڑگئے ہوں؟ ہمیں ضرورت ہے کہ ہم اعلیٰ انسانی قدروں کو بحال کریں، خود غرضی اور نفس پرستی سے توبہ کریں اور ایسا سماج تشکیل دیں جہاں بات بات پر قتل و خوں ریزی نہیں بلکہ عفو اور بقائے باہم کا جذبہ پروان چڑھے اور اس کے لیے ہر شخص کو اپنی ذمہ داری پوری ایمان داری سے نبھانے کی ضرورت ہے۔ ورنہ یہ معاشرہ تباہی کے غار میں چلا جائے گا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS