شمالی گجرات میں بجلی پانی مہم انتخابی ایشو

0

دو ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں سے ایک ریاست ہماچل پردیش میں ووٹنگ ہوچکی ہے اور تمام سیاسی پارٹیوں بطور خاص بی جے پی کی ساری توجہ گجرات الیکشن پر ہے۔ کئی طبقے مسلسل اس بات کی طرف توجہ دلارہے ہیں۔ لگاتار 27سال تک برسراقتدار رہنے والی بی جے پی کی راہ اس مرتبہ آسان نہیں ہے اور کئی حلقوں میں کہا جارہا ہے کہ موربی حادثے کے بعد بی جے پی کو کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ عام آدمی موربی حادثے کو لے کر ناراض ہے۔ اگرچہ ذرائع ابلاغ اس بابت زیادہ کچھ کہنے کے لیے تیار نہیں ہیں مگر جنوبی گجرات جو کہ قبائلی خطہ کہلا تا ہے اس میں بی جے پی کو بڑا چیلنج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ شمالی گجرات میں بھی بی جے پی کے لیے حالات پہلے کے مقابلے میں کم سازگار ہیں۔ ذرائع کا کہناہے کہ بی جے پی کے ورکروں کے ساتھ ساتھ کچھ اہم لیڈر بھی کوئی بات فیصلہ کن انداز میں کہنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پچھلے دنوں شمالی گجرات کے ودگام اسمبلی حلقے میں جب کچھ لوگوں نے عوام سے بات چیت کی اور پوچھا کہ کیا اس مرتبہ بھی بی جے پی شاندار عمل کو دہراپائے گی تو خاموشی طاری ہوگئی۔ 1995سے لگاتار 6مرتبہ جیتنے والی بی جے پی والے شاید مہادو سنگھ سولنکی کی اس جیت کا ریکارڈ قائم کرنے کی بات کررہے ہیں جس میں 1995میں 182سیٹوں والی اسمبلی میں 149 امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ اس خطے میں جہاں32اسمبلی سیٹیں ہیں۔ 2017 میں بی جے پی نے 14سیٹیں جیتی تھیں جبکہ کانگریس نے 18 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ بی جے پی نے زیادہ تر ان سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی جو شہری خطوں میں ہیں۔ کانگریس کے موجودہ ممبر اسمبلی جگنیش میوانی اس سیٹ پر کانگریس کے حوصلے بلند کیے ہوئے ہیں۔ گاندھی نگر سے جسے بی جے پی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، الپیش ٹھاکر بی جے پی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ الپیش ٹھاکر کانگریس سے بی جے پی میں آئے ہیں۔ ان کو اس بات پر یقین ہے کہ گاندھی نگر کے گردونواح میں جتنی بھی سیٹیں ہیں وہاں پر بی جے پی شاندار طریقے سے کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔ گاندھی نگر کا پورا خطہ اچھے رکھ رکھائو والا ہے اور بی جے پی کے پاس یہ کہنے کو ہے کہ وہ اس علاقے میں عوام کو تمام سہولیات سے ہمکنار کررہی ہے۔ مگر کئی حلقے بی جے پی کے اس دعوے کو اہمیت نہیں دے رہے ہیں۔ ودگام کے ایک دلت آٹو ڈرائیور کا کہناہے کہ اگر ترقی کا نام صرف سڑکیں بنانا، پل اور فلائی اوور بنانا ہے تو یہ ناکافی ہے۔ اس علاقے کو حقیقی ترقی کی ضرورت ہے۔ یہاں کے کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ کرپشن اور ویلفیئر اسکیموں پر عمل آوری نہ ہونا اہم مسائل ہیں جن سے لوگ ناراض ہیں۔ بی جے پی کے ایک حامی ویر جی بھائی چودھری کا کہنا ہے کہ ریاست میں امن وقانون کی صورت حال پر بی جے پی نے کافی کام کیا ہے اور گجرات میں مودی کے بغیر ترقی ناممکن ہے۔ ایک طبقے کا کہنا ہے کہ یہاں پر پانی کی قلت ہے۔ پانی کی سطح نیچے گر رہی ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ اس مسئلہ کو حل کیا جائے گا۔ پچھلے دنوں 31اکتوبر کو وزیراعظم نریندر مودی نے یہاں پر ایک واٹر پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ اس پروجیکٹ پر 8ہزار کروڑ رپے کا خرچہ آنے کی امید ظاہر کی جارہی ہے۔ امید یہ ہے کہ اس سے پوری شمالی گجرات میں پانی کے مسئلہ کو حل کرنے میں کافی کامیابی ملے گی۔ بانس کانٹا پاٹن اور مہسانہ یہاں کے اہم اضلاع ہیں۔ بی جے پی کو اس بات پر اعتراف ہے کہ اس علاقے میںبی جے پی کو اس علاقے میں 2017 میں اس وجہ سے کامیابی نہیں ملی تھی کہ یہاں کے لوگ پانی کی قلت سے پریشان تھے لیکن اب وزیراعظم نریند رمودی نے اس مسئلہ کو حل کرنے کی طرف پہل کی ہے اور جلد ہی پانی کی فراہمی کامسئلہ حل کردیا جائے گا۔ بی جے پی کے لیڈرو ں کا کہنا ہے کہ اس خطے میں کانگریس کمزور ہوئی ہے ۔ خود الپیش ٹھاکر اور ہاردک پٹیل نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ اس طرح ٹھاکر اور پاٹیدار بی جے پی کو ووٹ دیں گے ۔ 2017 میں ان دونوں طبقات نے بی جے پی کو نظرانداز کرکے کانگریس کو ووٹ دیا تھا۔ اس علاقے میں دلت، مسلم، قبائلی اور او بی سی کی اچھی تعداد ہے اور یہ لوگ بی جے پی کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہیں۔ ظاہرہے کہ بی جے پی کو ایسی حالت میں نارتھ گجرات میں قلعہ سر کرنا آسان نہیں ہے۔
بی جے پی گجرات میں او بی سی لیڈر الپیش ٹھاکر کو آگے کرکے اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہے۔ 2017میں وہ کانگریس میں تھے اور اس وقت کانگریس کا اہم چہرہ تھے۔ انہوںنے 2015میں او بی سی ایس سی ایکتا مہم بن کر پٹیل کوٹہ کے خلاف مہم چلائی تھی ۔ اس وقت ہاردک پٹیل یا پاٹیدار کوٹہ کے لیے مہم کی رادھن پور سے فتح حاصل کی تھی۔ انہوںنے 2019 کے لوک سبھا الیکشن کے موقع پر کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں شمولیت حاصل کی تھی۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS