آسام- میگھالیہ تنازع

0

مرکزی حکومت اپنے ہر کام اور ہر پیش رفت کو تاریخ سازقرار دیتی ہے لیکن نتائج اس کے دعوے کے برعکس برآمد ہوتے ہیں۔ لاک ڈائون، جی ایس ٹی اور نوٹ بندی جیسے نہ جانے کتنے فیصلے ہیں جو اپنے نتائج کے اعتبار سے ملک کو بھاری پڑچکے ہیں۔ اسی طرح کا ایک تاریخ ساز فیصلہ اور معاہدہ میگھالیہ اورآسام کے سرحدی تنازع کے سلسلے میں مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ کی مداخلت کے بعد اسی سال مارچ میں ہوا تھا۔وزیرداخلہ کی ثالثی میں آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرما اور میگھالیہ کے وزیراعلیٰ کو نراڈ سنگما نے دونوں ریاستوں کے درمیان884.9 کلومیٹر لمبی سرحد پر 12 متنازع علاقوں کے سلسلے میں معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔اس کے بعد مرکزی حکومت نے اس معاہدہ کو پانچ دہائی پرانے سرحدی تنازع کا تتمہ قرار دیتے ہوئے اپنی پیٹھ آپ تھپتھپائی تھی۔ لیکن یہ تاریخ ساز کامیابی چند مہینوں کے بعد ہی اپنے جلو میں ماتم و شیون لیے دونوں ہی ریاستوں کو چرکے لگانے لگی ہے۔ منگل22نومبر کو جہاں6افراد ہلاک ہوگئے، وہیں تشدد کا ایک نیا لامتناہی سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے جس پر قابو پانے میں انتظامیہ اب تک ناکام ثابت ہورہی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ یہ واقعہ آسام-میگھالیہ سرحد پر محکمہ جنگلات کے اہلکاروں اور عام لوگوں کے درمیان لکڑی سے لدے ٹرک کی نقل و حمل کے سلسلے میں پیش آیا۔ آسام کے فاریسٹ گارڈز نے میگھالیہ کے کچھ شہریوں کو پکڑ لیا تھااور کچھ بھاگ جانے میں کامیاب ہوگئے۔ بھاگ جانے والے لوگ بعد میں میگھالیہ کے لوگوں کی بڑی تعداد کے ساتھ ’ دائو‘ نامی خنجر اور دیگر ہتھیاروں سے لیس ہوکر موقع پرپہنچے اور فاریسٹ گارڈز اور پولیس کا گھیراؤ کرکے گرفتار افراد کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ اسی دوران آسام کے پولیس اہلکاروں نے ’حالات کو قابو ‘میں کرنے کیلئے ان پر گولیاں چلانی شروع کردیں، جس کی وجہ سے چھ افراد ہلاک ہو گئے۔ مرنے والوں میں آسام کا ایک فاریسٹ گارڈ اور میگھالیہ کے پانچ افرادشامل ہیں۔ میگھالیہ حکومت نے اس واقعہ کے بعد سے سات اضلاع میں موبائل انٹرنیٹ خدمات کو معطل کر دیا ہے۔آثار بتارہے ہیں کہ یہ تشدد کا سلسلہ جلد ختم ہونے والا نہیں ہے کیوں کہ اس سے قبل بھی جب 14 مئی 2010 کو میگھالیہ کے لنگ پیا میں آسام پولیس کے اہلکاروں کی فائرنگ سے چار افراد ہلاک ہوئے تھے تو اس وقت بھی ہفتوں تک تشدد اور آگ زنی کا سلسلہ جاری رہا تھا۔ اس کے بعد گزشتہ سال 26 جولائی کو اسی سرحدی تنازع میںآسام پولیس کے 6 اہلکار ہلاک اور دونوں ریاستوں کے تقریباً 100 افراد اور سیکورٹی اہلکار زخمی ہوگئے تھے۔
شمال مشرق کی کم و بیش تمام ریاستیں سرحدی تنازع میں الجھی ہوئی ہیں۔آسام اور ناگالینڈ، تری پورہ اور میزورم کے درمیان بھی متنازع علاقہ اورسرحدیں کشت و خون کا سبب بنتی رہی ہیں۔میگھالیہ اور آسام کا یہ تنازع بھی کم و بیش پچاس سال سے جاری ہے۔ آسام ری آرگنائزیشن ایکٹ کے تحت میگھالیہ کو آسام سے الگ کیے جانے کے بعد 1971سے ہی اس تنازع کا آغاز ہوگیا۔ مارچ2022میں دونوں ریاستوں نے بھلے معاہدہ پر دستخط کیے ہوں، لیکن دونوں ریاستوں کے عوام کے درمیان ہم آہنگی قائم نہیںہوسکی اور نہ ریاستی حکومتوں کی جانب سے ہی اس کی کوشش کی گئی۔
دلچسپ بات تو یہ بھی ہے کہ دونوں ہی ریاستوںمیں بھارتیہ جنتاپارٹی حکومت میں ہے۔آسام میں براہ راست بھارتیہ جنتاپارٹی کی حکومت ہے تو میگھالیہ میں میگھالیہ ڈیموکریٹک الائنس کی حکومت میں بی جے پی اتحادی کے طور پر شامل ہے یعنی دونوں ہی ریاستوں میں ’ ڈبل انجن‘ کی سرکار بھی ہے۔بار بار اس دعویٰ کا بھی اعادہ کیاجاتا رہا ہے کہ 2014کے بعد سے وزیراعظم نریندر مودی نے شمال مشرق کی ریاستوں کی ترقی کیلئے بہت کچھ کیا ہے مگر زمینی حقیقت ہمیشہ اس کی نفی کرتی رہی ہے۔
سرحدی تنازع پر ایک ہی ملک میںدو ریاستوں کی پولیس کا آمنے سامنے آجانا اور شہریوں کی ہلاکت کوئی معمولی واقعہ نہیںہے، اس کا فی الفور ایسا حل تلاش کیاجانا چاہیے جو دیر پا اور طویل مدتی ہو لیکن بلند بانگ دعوئوں اور ’ تاریخ ساز‘ کام کے بوجھ تلے دبی مرکزی حکومت کی ایسی کوئی کوشش نظر نہیں آرہی ہے۔پوری مرکزی کابینہ گجرات اسمبلی انتخاب میں مصروف ہے تو آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسواسرما آسام -میگھالیہ سرحدی تنازع کی یکسوئی کے بجائے گجرات میں بھارتیہ جنتاپارٹی کے ’ اسٹار پرچارک‘ کے طور پرا پنی گل افشانی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS