خواجہ عبدالمنتقم: وحشیانہ جرائم کی بے رو و رعایت مذمت ناگزیر

0

خواجہ عبدالمنتقم

جب انسان حیوان ہوجائے اور ماہتاب شعلہ زن آفتاب بن جائے تو کسی نہ کسی غیر معمولی واقعہ کا رونما ہونا یقینی ہے اور ماضی قریب میں رونما ہونے والے کچھ واقعات نے اس مفروضہ کو صحیح ثابت کردیا ہے۔ تاریخ انسانی گواہ ہے کہ عورت ہمیشہ مرد کے ظلم و ستم کا شکار رہی ہے مگر کبھی کبھی یہ مفروضہ بھی اپنی رنگت بدل لیتا ہے اور کبھی کبھی ہمارے سامنے ایسے کچھ واقعات پیش آتے ہیں جب ان دونوں کا طرز عمل حیوانوں جیسا ہو جاتا ہے۔ آفتاب کا مبینہ طور پر کسی وقت اپنے دل و جان سے زیادہ عزیزاپنی محبوبہ اور رفیقۂ ہم زیست(live in partner) کے ساتھ وحشیانہ سلوک، ایک سبکدوش نیوی افسراجول چکرورتی کا اس کی بیوی اور بیٹے کے ذریعہ مبینہ طور پر مار کر جسم کے6ٹکڑے کرکے ساتھ کے تالاب اور گنجان جھاڑیوں میں ڈال دینا اور اترپردیش کے شہر غازی آباد میں سویتا کے مبینہ عاشق ارون کا مبینہ طورپر سویتا کے شوہر چندر ویر سنگھ کو گولی مار کر موت کے گھاٹ اتارنا، اس کے ہاتھ کو کاٹ کر ایک نالے میں پھینک دینااوربقیہ لاش کو گھر میں کھودے گئے 8فٹ کے گڑھے میں دبا کر اوپر سے پکا کھرنجہ بنا ناتا کہ کسی کو کسی بھی طرح کا شبہ نہ ہواور اس پوری کارروائی میں سویتا کا مبینہ طور پر شریک جرم رہنا اور اس پر طرہ یہ کہ اس مقام پر ایک کثیر منزلہ عمارت تعمیر ہوجانا مگر پھر بھی قانون کی گرفت میں آجا نا اس کی تازہ ترین مثالیں ہیں۔
بہت اچھا ہوا کہ مابعد مذکورہ درندگی کے 2 معالوں کی زیادہ تشہیر نہیں ہوئی چونکہ آج کے حساس ماحول میں غیرمعمولی تشہیر سے قارئین میں ہیجانی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے۔ نوجوان سیاسی رہنما سشیل شرما کا اپنی محبوبہ نینا کومار کر گرم تندور میں ڈال کر جلا نے اور بلقیس بانو اور نربھیاکے ساتھ ظالمانہ سلوک کے واقعات کو ہم آج تک نہیں بھلا پائے ہیں۔متذکرہ بالا جرائم کے مرتکبین کو دو درجات میں بانٹا جا سکتا ہے۔ ایک تو وہ جو جذ بات کی رو میں بہہ کر یا فوری اشتعال کی بنا پر ایسا کر بیٹھتے ہیں اور دوسرے وہ جن کی فطرت ہی مجرمانہ ہوتی ہے اور وہ ارتکاب جرم اور یہاں تک کہ سزابھگتنے کے بعد بھی اپنے مجرمانہ فعل پر فخر محسوس کرتے ہیں۔
اس طرح کے واقعات کب اور کیوں پیش آتے ہیں؟ یہ بڑا پیچیدہ سوال ہے۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں۔پہلی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تقریباً آدھے ملزمین کو سزا ہی نہیں ملتی۔ دوسری وجہ یہ کہ ہمارے ملک میں کچھ ایسی صورت حال پیدا ہو گئی ہے کہ کسی بھی معاملہ میں فل پروف شہادت ملنا انتہائی مشکل ہوگیا ہے اور انتظامی لغزشوں کی تعداد بھی بڑھتی ہی جا رہی ہے جس کے سبب ہمیشہ یہ خطرہ لاحق ہو جاتا ہے کہ کہیں کسی بے گناہ کو سزا نہ مل جائے۔حال ہی میں ہماری سپریم کورٹ کو ایک 19 سالہ لڑکی کے ساتھ اجتماعی زنا بالجبر کے معاملے میں تینوں ملزموں کو یہ مانتے ہوئے کہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس جرم کے ارتکاب میں شامل رہے ہوںتکنیکی بنیاد پر بشمول fair trial نہ ہونا، رہا کرنا پڑا۔ اسی طرح بہت سی ایسی سازشیں بھی ہوتی ہیں جن میں کسی شخص کے ملوث ہونے کے بارے میں محض قیاس آرائی کرلی جاتی ہے۔
انتظامیہ کی ناقص کارکردگی اور عدلیہ کے نرم رویہ کے سبب لوگوں کے دلوں میں سے عدلیہ اور انتظامیہ دونوں کا ڈر نکل گیا ہے اور وہ بہ آسانی مجرمانہ رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے سنگین معاملات میں عدالتیں ملزموں کو بہت جلد ضمانت دے دیتی ہیں اورمعاملات کے فیصلوں میں کئی کئی سال لگ جاتے ہیں اور یہ ملزمین ایک بار پھر سماج کا حصہ بن کر کبھی کبھی وہی حرکتیں کرنے لگتے ہیں جن کے لیے ان پر پہلے سے مقدمہ چل رہا ہوتا ہے۔اس کے بر عکس کچھ ایسے معاملات بھی سامنے آتے ہیں،جیسا کہ حال ہی میں چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا،ذیلی عدالتیں کسی خوف کے تحت ضمانت دینے کے معاملے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہیں اور ملزمین کے خلاف سالوں تک چارج شیٹ بھی داخل نہیں ہوتی اور وہ تکنیکی بنیادوں پر جیل سے باہر آجاتے ہیں تو دوسری جانب کبھی کبھی انتظامیہ اتنی مستعدی سے کام لیتی ہے کہ پوری قانونی کارروائی بشمول مکمل ٹرائل بہت کم عرصہ میں ہی پوری ہوجاتی ہے۔کبھی کبھی سنگین جرائم کے مرتکبین کی سزا معاف کردی جاتی ہے اور انہیں قبل از میعاد مدت رہا کر دیا جاتا ہے جیسا کہ بلقیس بانو والے میں کیا گیا،جس پر نہ صرف انسانی حقوق کے علمبرداروں بلکہ عام لوگوں نے اظہار افسوس کے ساتھ ساتھ اظہار حیرت بھی کیا اور ارباب حکومت کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔
جہاں تک آفتاب والے معاملے کی بات ہے تو صحیح اسٹوری تو بعد از ٹرائل ہی سامنے آئے گی۔ اس سے قبل کسی نتیجہ پر پہنچنا محض قیاس آرائی ہوگی۔بادی النظر میں تو یہ یقینی طور پر ایک شدید نوعیت کا مجرمانہ فعل ہے اور اس معاملے میںچونکہ چشم دید گواہ نہیں ہیں اس لیے اس معاملہ کا فیصلہ قرائنی شہادت(Circumstantial Evidence) کی بنیاد پر ہوگا۔ قرائنی شہادت بالواسطہ شہادت کے زمرے میں آتی ہے۔ یہ کسی ایک واقعہ یا دیگر واقعات کی ایسی شہادت ہوتی ہے جس سے کسی دیگر واقعہ کی بابت نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔کبھی کبھی ملزم کو مکسوبی شہادت(Derivative Evidence) کی بنیاد پر بھی سزا دلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس شہادت کا شمار کمزور شہادت کے زمرے میں ہوتا ہے۔اس شہادت کوThe Fruit of the Poisonous Tree doctrine سے منسوب کیا جاتا ہے۔کبھی کبھی پولیس ملزموںسے جبراً ایسی باتیں کہلوا لیتی ہے جن کی بنیاد سچائی پر نہیں ہوتی۔ عدالت ان بے بنیادباتوں کی بنیاد پر کسی بھی شخص کو مجرم نہیں ٹھہرا سکتی۔
اسی طرح بادی النظری شہادت (Prima Facie Evidence ) کی بنیاد پر بھی،جب تک اس کے برخلاف شہادت نہ پیش کردی جائے کسی کو مجرم ٹھہرانے کے لیے غور کیا جا سکتا ہے جیسے قتل کے معاملے میں قاتل کی مقتول کو جان سے مارنے کی دھمکی سے متعلق ٹیپ وغیرہ کیونکہ اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوجاتی ہے کہ اس کا ارادہ متوفی کو مارنے کا تھا۔مگر یا د رہے کہ اگر ملزم ایسے سوال کا جواب، نہیں دیتا ہے ،جو اس پر الزام جرم عائد کرتا ہو ، یا جھوٹ بولتا ہے تو سپریم کورٹ کی نظائر کے مطابق یہ واقعات کے تسلسل(chain of events) میں قطعی شہادت کی شکل میں ایک کڑی کا کام کرے گا۔
یاد رہے کہ از روئے قانون شہادت اقبال جرم کا آزادانہ اور رضاکارانہ ہونا ضروری ہے۔ کبھی کبھی عدالتیں اقبالیہ بیان قلم بند کرنے کے بعدبھی گواہان کے بیانات کی بنیاد پر اس نتیجہ پر پہنچتی ہیں کہ یہ بیان جبر، اکراہ یا مصلحت کے تحت دیا گیا تھا۔سوامی اسیما نند کے اقبالیہ بیان کے معاملے میں بھی یہ موضوع زیر بحث رہا تھا۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS