عبیداللّٰہ ناصر
کیا وطن سے محبت اور ملک کی سلامتی کا کوئی تعلق مذہب سے ہے؟ کیا مذہب بدلتے ہی کوئی شخص کم محب وطن ہو جاتا اور وہ ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بن جاتا ہے؟ کیا صرف کسی خاص مذہب کے ماننے والے ہی محب وطن اور ملک کی سلامتی کے لیے فکر مند رہتے ہیں، وہی ملک کی سلامتی کی گارنٹی ہیں۔کیا مذہب تبدیل کرتے ہی بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر اور ان کے لاکھوں مقلدین ملک دشمن اور ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ ہوگئے تھے۔کیا شہید بریگیڈیئر عثمان، شہید حولدار عبدالحمید، لیفٹیننٹ جنرل سمیع خان، لیفٹیننٹ جنرل ضمیر شاہ بریگیڈئر، ابرار خان(مسلمان)، فیلڈ مارشل مانک شاہ(پارسی)،جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ(سکھ)، جنرل جیکب(عیسائی)اور ان جیسے ہزاروں ہندوستانی فوجی اور افسر جو ہندو نہیں ہیں، ملک کی سلامتی کے لیے کوئی خطرہ ہیںاور فوجی ہی کیوں ملک کے نظام کے ہر شعبہ میں ہزاروں بلکہ لاکھوں غیر ہندو اپنی خدمات دے رہے ہیں۔ میزائل مین کے نام سے مشہور سابق صدر جمہوریہ مرحوم کلام صاحب کیا ملک کی سلامتی کے لیے کوئی خطرہ تھے۔کیا ہندو مذہب ترک کرکے مسلمان، سکھ، عیسائی، بودھ وغیرہ بنے افراد کم محب وطن ہو جاتے ہیں اور ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔ان سوالوں کا جواب تفصیل سے آنا چاہیے کیونکہ ہندوستان جیسے متنوع ملک میں جہاں درجنوں مذاہب کے ماننے والے لوگ آباد ہیں اور ایسے لوگوں کی بھی کثیر تعداد ہے جو کوئی مذہب نہیں مانتے، کیا ان سب کو کم محب وطن اور ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ مانا جا سکتا ہے اور اگر نہیں تو جو ایسی سوچ ابھر رہی ہے یہ خود ہی ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے کیونکہ یہ سوچ اپنے ہی ہم وطنوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کی ہے اور اس خطرناک نظریہ کو بھی مضبوط کرتی ہے کہ کوئی پوری کمیونٹی ملک دشمن ہے، مجرم ہے جبکہ جرم فرد واحد کرتا ہے، اس کا خاندان نہیں اور یہاں تو خاندان کیا پور ی کمیونٹی کو ہی شک کے دائرے میں لایا جا رہا ہے۔ملک کی ذہنی ہم آہنگی کے لیے اس طرح کے سوال اور وہ بھی سپریم کورٹ کی طرف سے اٹھایا جانا ایک خطرناک رجحان کو قانونی منظوری دیے جانے کے مترادف ہے۔
سپریم کورٹ نے جبری تبدیلی مذہب کے سلسلہ میں مفاد عامہ کی عرضی پر حکومت ہند کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جو سوال اٹھائے ہیں، ان سے یہ فکر فطری طور سے ابھرتی ہے۔جسٹس ایم آر شاہ اور جسٹس ہما کوہلی پر مشتمل بنچ نے بی جے پی کے لیڈر اور سپریم کورٹ کے وکیل اشونی اپدھیائے کی مفاد عامہ کی عرضی پر سماعت کرنے کے بعد مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی حکومت جبری تبدیلی مذہب کو روکنے کی سنجیدہ کوشش کرے کیونکہ یہ نہ صرف مذہبی آزادی کے خلاف ہے بلکہ ملک کی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہے اور اگر اسے نہ روکا گیا تو سنگین صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔عدالت نے حکومت کو22نومبر تک جواب دینے کو کہا ہے، اگلی سماعت28نومبر کو ہوگی۔سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ بہت سی ریاستی حکومتوں نے (زیادہ تر بی جے پی کی حکمرانی والی ہیں)نے جبری تبدیلی مذہب کے خلاف قانون بنائے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر آدی واسی علاقوں میں جبری مذہب تبدیل کرایا جارہا ہے جن میں گیہوں چاول دے کر مذہب تبدیل کرانے جیسے واقعات بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اکثر لوگوں کو یہ بھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ کسی غیرقانونی عمل میں شریک ہو ر ہے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس طرح مذہب تبدیل کرنے والوں کے پاس اپنی عقل، سوچ و فکر، وطن سے محبت کا جذبہ اور فہم نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی اور وہ مٹھی بھر اناج کے بدلے اپنا مذہب ترک کر دیتے ہیں۔
یہاں ایک اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا جبری تبدیلی مذہب قانون سبھی معاملوں میں یکساں طور سے لاگو ہوگا یا یہ صرف مخصوص معاملوں تک محدود رہے گا۔مثال کے طور پر اگر کوئی مسلمان یا عیسائی ہندو مذہب اختیار کرنا چاہے تو اس پر بھی یہ قانون اسی طرح لاگو ہوگا جیسا کسی ہندو کے اسلام یا عیسائی مذہب اختیار کرنے پر ہوتا ہے۔ بھلے ہی قانون الفاظ کی حد تک کہنے کو سب پر یکساں طور سے لاگو ہوتا ہے یا لاگو ہوگا مگر عملی طور پر ایسا ہوتا نہیں ہے اور کھلے عام تفریق برتی جاتی ہے۔آج تک ایسا سننے میں نہیں آیا کہ کوئی مسلمان یا عیسائی ہندو ہوا ہو اور اس کے خلاف ویسی ہی کارروائی ہوئی ہو یا ان ہی کارروائیوں سے گزرنے کا قانونی جواز رکھا گیا ہو جن سے مسلمان عیسائی بننے پر گزرنے کا قانونی جواز رکھا گیا ہے۔یہی نہیں اگر اسلام یا عیسائی مذہب اختیار کرنے کے علاوہ کوئی مثال کے طور پر بودھ، سکھ یا جین بنے تو بھی نہ قانون کی نظریں ترچھی ہوتی ہیں اور نہ ہی دھرمادھیکاریوں کی، ساری مصیبت اسلام، عیسائی مذہب اختیار کرنے پر ہی ہوتی ہے۔گزشتہ دنوں دہلی میں سیکڑوں دلتوں نے بودھ مذہب اختیار کیا لیکن کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ سوچئے ان لوگوں نے اگر اسلام قبول کیا ہوتا یا عیسائی بنے ہوتے تو کیا آسمان نہ پھٹ پڑتا۔ بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں تبدیلی مذہب کا قانون موجود ہے اور اس کی زد میں اگر کوئی مسلمان آ جاتا ہے تو نہ صرف اس کی بلکہ اس کے پورے خاندان کی زندگی اجیرن کر دی جاتی ہے، اس پر صرف تبدیلی مذہب قانون کی دفعات ہی نہیں لگتیں بلکہ منی لانڈرنگ، ٹیرر فنڈنگ، انسداد دہشت گردی یو اے پی اے جیسی دفعات لگا کر انہیں نہ صرف برسوں جیلوں میں سڑایا جاتا ہے بلکہ تھانوں سے لے کر جیلوں تک میں انہیں انسانیت سوز جسمانی اذیتیں دی جاتی ہیں۔ضمانت ملنے یا بری ہو جانے کے بعد بھی اس کی زندگی نارمل نہیں ہوپاتی کیونکہ میڈیا ٹرائل کے ذریعہ اسے پہلے ہی ولن بنا دیا گیا ہوتا ہے۔
در اصل بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں ایسے جتنے بھی قانون بنے ہیں، چاہے وہ تبدیلی مذہب سے متعلق ہو یا بین مذاہب شادیوں سے متعلق ہوں یا انسداد دہشت گردی اور غیرقانونی سرگرمیوں سے متعلق ہوں، سب کے سب تفریق پر مبنی ہیں اور انتظامیہ ان کے نفاذ میں کھلے عام فرقہ وارانہ تفریق برتتی ہے اور عدالتوں میں بھی بسا اوقات یہی رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔اگر کوئی مسلم لڑکی کسی ہندو لڑکے سے شادی کر لے تو یہ عناصر بھانگڑا ناچنے لگتے ہیں لیکن اگر کوئی ہندو لڑکی کسی مسلم لڑکے سے شادی کرنے کی خواہش مند ہو تو اسے اتنی قانونی کارروائیوں سے گزرنے کا جواز رکھا گیا ہے کہ وہ یا تو ہمت ہار جاتی ہے یا پھر لیو ان رلیشن یعنی بنا شادی کے ساتھ رہنے کا راستہ اختیار کر لیتی ہے، اگر وہ شادی کر بھی لے تو لڑکے کی ہی نہیں بلکہ لڑکے کے پورے خاندان کی زندگی تلخ کردی جاتی ہے حالانکہ ہمارا آئین دو بالغ لڑکے لڑکیوں کو اپنی مرضی سے شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے مگر آئین کو کب ان لوگوں نے دل سے قبول کیا ہے، آئین ہند تو ان کی مجبوری ہے اور اس کا استعمال صرف حلف برداری تک ہی محدود کر دیا گیا ہے۔
اس معاملہ کے عرضی گزار اشونی اپدھیائے جیسا کہ پہلے بتایا گیا، کہنے کو تو سپریم کورٹ کے وکیل ہیں مگر حقیقت میں آر ایس ایس کے پرچارک ہیں اور اپنے علم قانون کا استعمال آئین ہند سے ان تمام دفعات کو سپریم کورٹ سے خارج کرا نے میں کرتے ہیں جن کا تعلق ملک کے سیکولر کردار اور اقلیتوں خاص کر مسلمانوں اور عیسائیوں کے حقوق سے ہے۔ وہ آئین سے سیکولر سوشلسٹ لفظ نکلوانے، عبادت گاہ تحفظ قانون1991ختم کرانے جیسے معاملوں کے خلاف بھی مفاد عامہ کی عرضیاں دائر کرچکے ہیں۔حیرت تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ متعدد بار اپنے فیصلوں میں کہہ چکا ہے کہ سیکولرازم آئین ہند کا بنیادی پہلو ہے اور پارلیمنٹ بھی اسے خارج نہیں کر سکتی، اسی طرح عبادت گاہ تحفظ قانون کو بھی عدالت سیکولر ازم کا حصہ قرار دے چکی ہے اور یہ کہ عدالت بھی اشونی اپدھیائے کا ما فی الضمیر سمجھتی ہے کہ وہ آر ایس ایس کے نظریہ کا ہندوستان بنانے کے لیے یہ سب حرکتیں کر رہے ہیں پھر بھی ان کی مفاد عامہ کی عرضیوں کو قبول کر کے اپنا وقت اور وسائل ضائع کرتی ہے۔کم سے کم عدلیہ کو ملک کے سیکولر تانے بانے کے تحفظ اور عوام کے بنیادی آئینی اور انسانی حقوق سے متعلق معاملوں میں حساس ہونا چاہیے، ملک اشونی اپدھیائے جیسوں کی ایسی خرافات حرکتوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]