کوچی (ایجنسیاں)کیرالہ ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ مسلم پرسنل لاکے تحت نابالغوں کی شادی جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ (پاکسو) ایکٹ کے دائرے سے باہر نہیں ہے۔ اگر دولہا یا دلہن نابالغ ہیں ، بھلے ہی شادی صحیح ہومگر پاکسو ایکٹ کے تحت جرائم لاگو ہوں گے۔ نابالغ بیوی کے ساتھ تعلقات بنانا جرم ہے۔جسٹس بیچو کورین تھامس کی سنگل بنچ نے کہاکہ پاکسو ایکٹ خاص طور پر بچوں کو جنسی جرائم سے بچانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ ایک مخصوص قانون بنایا گیا ہے۔بچوں کے خلاف ہر طرح کے جنسی استحصال کو جرم مانا جاتا ہے۔ شادی کو اس سے باہرنہیں رکھا گیا۔انہوں نے کہ پاکسو ایکٹ ایک مخصوص قانون ہے۔ قانون سماجی سوچ میں ترقی اور پیش رفت کے نتیجے میں بناہے۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کا قانون کمزور، سادہ لوح اور معصوم بچے کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ شادی سمیت مختلف طریقوں کے تحت بچے کو جنسی شکاریوں سے بچانے کا قانون سازی کا ارادہ قانونی دفعات سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ بچوں کی شادی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے۔ کم عمری کی شادی کی وجہ سے بچے کی نشوونما صحیح طور پر نہیں ہو پاتی۔ یہ معاشرے کی برائی ہے۔ پاکسو ایکٹ لوگوں کو شادی کی آڑ میں بھی بچوں کے ساتھ جسمانی تعلقات رکھنے سے روکتا ہے۔ سماج کی منشا بھی یہی ہے۔ جیسا کہ اکثر کہا جاتا ہے، قانون لوگوں کی مرضی کا اظہار یا عکاس ہوتا ہے۔ اس ارادے کی تکمیل میں، پاکسو ایکٹ نے سیکشن 2(ڈی) میں لفظ ‘بچہ’ کی تعریف ’18 سال سے کم عمر کے کسی بھی فرد’ کے طور پر کی ہے۔ عدالت نے کہاکہ پرسنل لااور روایتی قانون دونوں ہیں۔حالانکہ، دفعہ 42اے ایسے قوانین کو روکنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اس لیے شادی کے بعد بچے سے جنسی تعلق بھی جرم ہے۔ عدالت نے یہ باتیں 31 سالہ مسلم شخص کی درخواست ضمانت پر سماعت کے دوران کہیں۔ اس شخص کے خلاف نابالغ لڑکی کے اغوا اور عصمت دری کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ درخواست ضمانت میں اس نے دلیل دی تھی کہ اس نے مسلم پرسنل لاکے تحت مارچ 2021 میں نابالغ لڑکی سے قانونی طور پر شادی کی تھی۔
مسلم پرسنل لاپاکسوایکٹ سے باہرنہیں : کیرالہ ہائیکورٹ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS