عبدالسلام عاصم: اے فنا انجام انساں کب تجھے ہوش آئے گا

0
عبدالسلام عاصم: اے فنا انجام انساں کب تجھے ہوش آئے گا
عبدالسلام عاصم: اے فنا انجام انساں کب تجھے ہوش آئے گا

عبدالسلام عاصم

عصری دنیا میں ہم ایک ایسی سیاسی صورتحال سے گزر رہے ہیں جس میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ یا منتشر سوویت یونین کی نمائندگی کرنے والے روس کی تائید و حمایت میں بیشتر اقوامِ عالم پہلے کی طرح منقسم نہیں۔جی 20 کے وجود میں آجانے سے زیادہ تر ممالک راست یا بالواسطہ بین الاقوامی مسائل کے حل کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ رنگ اور نسل، ذات اور مذہب کی باقی ماندہ اقدار نے آج بھی بہت سارے ملکوں کو گمراہ کر رکھا ہے۔ ان میں ایک ہمارا ہمسایہ پاکستان بھی شامل ہے۔ ایسا نہیں کہ اسے جی 20 سے دلچسپی نہیں لیکن یہ دلچسپی مثبت کم ہے اور اب تو منفی زیادہ ہوگی کیونکہ اس گروپ کی صدارت ہندوستان کررہا ہے۔
دو عالمی جنگوں، سوویت شیرازے کے بکھراؤ، سانحہ 9/11 اور پھر کمیونزم کی خوفناک شکل چین تک محدود رہ جانے کے بعد عالمی وبا کووڈ-19 اب دنیا کی بدلتی جغرافیائی سیاست کو ایک نئی شکل دے رہی ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے جو فوری اثرات مرتب ہورہے ہیں، اُن سے نمٹنے میں ہندوستان سمیت کئی استحکام رُخی ترقی پذیر ممالک کو زائد از ایک محاذ پردشواریوں کا سامنا ہے۔ یہ ممالک بہر حال کسی ایسی ناکامی یا خطرے سے نہیں گزر رہے ہیں کہ وہ ایک بار پھر جانبداری یا غیر جانبداری کی راہیں چُننے میں لگ جائیں۔ باوجودیکہ اس کے طویل مدتی اثرات کیا مرتب ہوں گے، اس بابت سردست قطعیت سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
ابھی گزشتہ دنوں سی ایس آئی ایس رسک اینڈ فارسائٹ گروپ کے ڈائریکٹر سیم برنن نے اپنے چار بین الاقوامی سیکورٹی پروگرام کے ساتھیوں سے کہا تھا کہ ایک سے زیادہ علاقائی تنازعات کے پس منظر میں اس بات پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ 2025 سے 2030 تک اور اس کے بعد کووڈ-19 کے کیا جغرافیائی اور سیاسی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہر چند کی ذو قطبی دنیا اب یک قطبی بھی نہیں رہی۔ فرانس، جرمنی، ہندوستان اور جاپان اپنے اپنے طور پر ایک تسلیم شدہ طاقت ہیں۔ اس تبدیلی کی وجہ سے امریکہ کو جہاں اپنی اوقات کا پتہ چل چکا ہے وہیں یوکرین کا جوکھم روس کی معیشت کو بُری طرح تباہ کر رہا ہے۔ چین درون ملک اقتصادی پریشانیوں کی پردہ پوشی کے لیے اپنے جارحانہ خارجی عمل کا سہارا اس لیے لے رہا ہے کہ اُسے پتہ ہے کہ کمزور عالمی معیشت میں اس کی دھونس کا اب امریکہ منھ توڑ جواب دینے کی اہلیت نہیں رکھتا۔
یہ چیزیں یا صورتحال متعدد قطبی اختلاف اور تعاون دونوں کا ماحول تیار کر رہی ہے۔ وارسا پیکٹ کے بے اثر ہوجانے کے بعد اب ناٹو کسی مد مقابل کی عدم موجودگی میں اپنی طاقت اور کمزوری کا بے نقص اندازہ لگانے سے قاصر ہے۔ کسی اعلان کے بغیر وہ افغانستان میں اس کا سامنا کرچکا ہے اور مشرقی یوروپ میں کسی بھی طرح کی یکطرفہ کارروائی سے گریزاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑھتی ہوئی کثیر قطبی دنیا میں اتحاد اور اقتصادی شراکت داری بہت اہم ہوگئی ہے۔ ہر چندکہ ابھی بھی امریکی اتحاد کی ایک شکل موجود ہے۔ اس میں ہر اتحادی بہرحال اب اس بات کی زیادہ استعداد رکھتا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنی راہیں چننے کے مقابلے میں کہاں تک آزاد ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو امریکہ، چین اور روس کے درمیان فوجی اور اقتصادی اتفاق و اختلاف جغرافیائی سیاست کے لیے اب بھی اہم ہے۔
عالمی تغیرات پر گہری نظر رکھنے والے اب اس بات پر تقریباً متفق ہیں کہ عصری کثیر قطبی دنیا مستقبل قریب میں دوبارہ ذوقطبی ہونے سے رہی۔ 2025 کے بعد کچھ تبدیلیاں تیزی سے ضرور رونما ہوں گی۔ اس کے باوجود کوئی ایک دہائی مختلف ملکوں کے درمیان کثیر قطبیت پر ہی مشتمل گزرے گی۔ اس میں مختلف قطبوں کی نمائندگی ہندوستان امریکہ، چین، روس اور یوروپی یونین والے کریں گے۔ برطانیہ اس کا حصہ ضرور ہوگا لیکن وہ کوئی سرگرم کردار نہیں ادا کر پائے گا کیونکہ اُس کی معیشت اس کی اجازت نہیں دے گی۔ یہ پانچوں حلقے اپنے رسوخ کو بڑھانے میں فطری طور پر احتیاط کے نام پر جو خفیہ چالیں چلیں گے، ان میں بظاہر سب سے پہلے امریکہ اور یوروپ روس اور چین کے خلاف صف آراء ہو سکتے ہیں۔ ابتدائی مرحلے میں ہندوستان امریکہ اور یوروپ سے اپنے تعلقات کو بہتر رکھتے ہوئے روس کے ساتھ کسی بگاڑ کا متحمل نہیں ہوگا۔ اگرچہ بالی میں ختم ہونے والی جی 20 چوٹی کانفرنس میں زیادہ تر اراکین نے یوکرین جنگ کی سخت مذمت کی ہے۔ لیکن ہندوستان کے اِس استدلال کی باز گشت بالی میں جی 20 کی چوٹی کانفرنس کے اختتام پر جاری اعلامیہ میں نمایاں رہی کہ یہ جنگ کا زمانہ نہیں ہے۔
رہ گئی بات چین کی تو آنے والی دہائیوں میں درونِ چین داخلی انتشار اتنا بڑھ چکا ہوگا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ محاذ آرائی میں اپنی توانائی ضائع نہیں کرنا چاہے گا۔ یہ توانائی اُسے امریکہ اور یوروپ کے محاذ پر درکار ہو گی۔ چین کے اس طرز عمل سے سب سے زیادہ مایوسی پاکستان کو ہوگی جس نے ہندوستان کو دوست کے بجائے دشمن سمجھ کر مسلسل خسارے کا ہی سودا کیا ہے۔ بصورت دیگر افغانستان اور ایران تک اس خطے کے تعلقات امریکہ، یوروپ اور چین تینوں کو جیو اور جینے دو کی وہ راہ دکھا چکے ہوتے جس کی دنیا کو آج سخت ضرورت ہے۔
روس کی معیشت آبادی کے لحاظ سے نسبتاً اپنی طاقت کھورہی ہے۔ وہ اب بباطن ایک غریب، ٹوٹ پھوٹ کا شکار ملک ہے جس کے پاس بس دو چیزیں باقی رہ گئی ہیں۔ ایک محدود انتظامی صلاحیت، دوم نیوکلیائی ہتھیاروں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ۔ ان حالات نے دنیا کو چونکانے کیلئے اس کے پاس وسائل انتہائی محدود کر دیے ہیں۔ یوکرین کی مثال سامنے ہے۔ رہ گئی بات چین کی تو اُس کی اقتصادی رفتار میں سر دست کسی تیزی کا امکان نہیں۔ باوجودیکہ اُس نے نیوکلیائی طاقت کی ترقی نمایاں طور پر جاری رکھی ہوئی ہے۔ بیرونی دنیا پر اِس کا کیا اثر پڑتا ہے یہ تو واقعات و سانحات مرتب کریں گے، درونِ ملک شی جن پنگ کو سیاسی استحکام کیلئے چینی کمیونسٹ پارٹی کے اندر ایک مسلسل چیلنج کا سامنا ہے۔ حالیہ کانگریس سے چھن کر آنے والی خبریں اس رُخ پر واضح اشارہ کرتی ہیں۔
دنیا کی منظم اور ابھرتی ہوئی طاقتوں کی اقتصادی، تعلیمی، فوجی اور اسلحہ جاتی طاقت کے اس اجمالی جائزے سے ایک طرف سرحدی جنگوں کا خطرہ کم نہیں تو انتہائی محدود ہوتا ضرور نظر آتا ہے لیکن دوسری جانب فضائی اور خلائی بالا دستی کی دوڑ بھی اتنی ہی خطرناک نظر آرہی ہے۔ جاری دہائی اور اس کے بعد گزرنے والے برسوں میں طاقت کا کوئی بھی بڑا تنازعہ ممکنہ طور پر سب سے پہلے خلا میں مظہر ہو گا۔ دنیا بھر میں روبوٹک ہتھیاروں کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ خبروں کے مطابق یو کرین سے ایتھوپیا تک مہلک ہتھیاروں والے ڈرونزکا استعمال بھی اضافہ پذیر ہے۔ ایسے تنا زعے جیمنگ، لیزنگ، اور سائبر پر مبنی ہتھیاروں پرمشتمل ہوں گے۔ گلی محلوں میں عوامی جوش و جذبے کیلئے تو یہ کم متحرک ہوں گے لیکن سنجیدہ قارئین، سامعین اور چینلوں کے ناظرین کے علاوہ ایک دوسرے کے عزائم کے خلاف سرگرم سائنس دانوں کو صاف اشارہ مل جائے گا کہ اگلے لمحے کیا ہونے جا رہا ہے! ایسے میں ایک دوسرے کے خلائی اثاثے بھی خطرے میں پڑنے لگیں گے۔ ایسی جنگیں تو درکنار اِن کی تیاریوں اور علامتی مظاہروں پر ہی جو لاگت آئے گی وہ مضبوط سے مضبوط ملک کی معیشت کو ہلا کر رکھ دے گی۔ تو کیا فنا انجام دنیا اِسی طرح اپنے حتمی سفر کی طرف بڑھے گی! اس کا علم صرف فطرت کو ہے جس کے ساتھ اب ہمیں کھلواڑ کم اور اس کے انسان دوست تقاضوں پر عمل کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS