ڈاکٹر عبید الرحمان ندوی
اگر کسی کو بقائے دوام حاصل ہے تو وہ صرف اللہ کی ذات ہے۔ ارشاد خداوندی ہے، ترجمہ: (زمین پر جو بھی ہیں فنا ہونے والے ہیں اور صرف آپ کے پروردگار کی ذات وہ احسان والی ، باقی رہ جانے والی ہے)۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرح اس کے کلام یعنی قرآن کریم میں بھی ابدیت اور جامعیت ہے۔ لاریب قرآن ذی روح کلام ہے اور یہ واضح ہے کہ انسانی کلام کبھی بھی ذی روح نہیں ہوسکتاہے۔ جہاں تک کلام ِ الٰہی کے تاثیر کا تعلق ہے تو وہ بہت ہی سامعہ نواز ، حسین اور اس میں اس قدر مٹھاس ، حلاوت اور دلکشی ہے کہ جن کو سن کر خود اہلِ زبان کا صرف کہنا ہی نہیں بلکہ اعتراف بھی تھا اور آج بھی ہے کہ اس طرح کاپُرتاثیر کلام سُنا ہی نہیں اور یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ نہ تو یہ انسانوں کا کلام ہوسکتاہے اور نہ جنات کا۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جس طرح مقناطیس لوہے کو اپنی طرف کھینچتاہے ٹھیک اسی طرح قرآنِ کریم بھی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو اپنی طرف کھینچتاہے۔ ارشادِ خداوندی ہے، ترجمہ: (اور جب قرآن پڑھاجائے تو اس کو توجہ کے ساتھ سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحمتیں برسائی جائیں)۔ اسی طرح قرآن میں ہے،ترجمہ: (اور وہ (صحابہ کرام) جب اس کلام کو سنتے ہیں جو پیغمبر پر اتاراگیاہے توآپ ان کی آنکھیں دیکھیں گے کہ ان سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ اس لیے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم ایمان لے آئے سو تو ہم کو بھی تصدیق کرنے والوں میں لکھ لے‘‘۔
بلاشبہ قرآن کریم سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے دلوں کی تمام کدورتوں اور نفرتوں کو دور کریں اور کلامِ الٰہی کو تن من کے ساتھ پڑھیں اور سنیں اور رحمتِ الہٰی سے ہمکنار ہوں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اگر کوئی برتن الٹا پڑاہو تو چاہے کتنی ہی موسلا دھار بارش کیوں نہ ہو اس کے اندر ایک بوند پانی نہیں جائے گا۔ یہ بارش کا قصور نہیں ہے بلکہ برتن کا قصور ہے۔ لہذٰا ہمیںچاہیے کہ ہم اپنے دلوں کے برتن کو سیدھا رکھیں یعنی کلامِ الٰہی سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہمہ تن متوجہ ہوں۔ ارشادِ خداوندی ہے (اس قرآن میں نصیحت ہے اس کے لیے جس کے اندر دل ہوتاہے اور جس کے اندر دل کے بجائے سل ہو تو پھر کیا مزہ۔ ہمہ تن گوش ہوکر بیٹھیں)۔
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ دریا اپنا راستہ خود بنالیتاہے ۔ قرآن کریم بھی رحمت کا وہ دریا ہے جولوگوں کے سینوں میں اپنا راستہ خود بنالیتاہے۔ چنانچہ جو بھی کلامِ الٰہی کو غور سے پڑھتاہے یا سنتاہے تو قرآن بھی اس کے سینے میں اترتا چلاجاتاہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ قرآنِ کریم کو صرف سن کر بے شمار لوگوں نے اسلام قبول کیاہے ۔ اس میں سرِ فہرست خلیفہ دوم حضرت عمر بن الخطابؓ کو رکھاجاسکتاہے جنہوں نے قرآن کریم کے سورۂ طہ کی ابتدائی چند آیتوں کو سن کر اسلام قبول کیاتھا۔ نامور مخضرم شاعر لبید بن ربیعہ نے اسلام قبول کیا اور کلامِ الٰہی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ باوجود پیرانہ سالی کے پورے قرآن کریم کو حفظ کرلیا اور شعر وشاعری کو بالکل ہی ترک کردیا۔ روایت میں آتا ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے صرف ایک شعر کہاتھا۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ قرآن کریم کے بعد شعر و شاعری کی مجھے قطعًا ضرورت نہیں ہے۔
’’اسی طرح معلقات کے مشہور شاعر اعشی قیس (م ۶۲۹ء مطابق ۷ھ) کے متعلق روایت ہے کہ فتح مکہ سے پہلے جب وہ رسول اللہؐ کی شان میں مدحیہ قصیدہ لکھ کر، آپ سے ملنے کے لئے حجاز روانہ ہوا تو قریش کے بعض سردار اس سے راستے میں ملے، اور اس ڈر سے کہ کہیں وہ قرآن کی سحر آفرینی سے متاثر ہوکر مسلمان نہ ہوجائے انہوں نے اسے ایک سواونٹ دے کر اس کے وطن یمامہ میں واپس بھیج دیا۔ اسی طرح مغیرہ بن شیبہ اپنے کان میں روئی ڈال کر کعبہ کے سامنے سے گزرتاتھا کہ مبادا اس کے کان میں قرآن کی آواز نہ پڑجائے اور وہ اس سے متاثر ہوکر مسلمان نہ ہوجائے‘‘۔
’’ہم سے پہلے والوں کو بھی اسی قرآن کی وجہ سے عزتیں نصیب ہوئیں۔ نبی اکرم ؐ غار حرا سے یہی تو لے کرآئے تھے۔ کسی کہنے والے نے کہا:
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی
وہ نسخۂ کیمیا قرآن ہی تو تھا جس نے عرب کی زمین ہلاکر رکھ دی تھی ‘‘۔
صحابہ کرامؓ اسی قرآن کو سینے سے لگاکر نکلے تھے اور جدھر بھی ان کے قدم پڑتے تھے کامیابی ان کے قدم چومتی تھی۔ یہ قرآن ہی کی برکت ہے کہ افریقہ کے جنگلوں میں رہنے والے درندوں نے صحابہ کرامؓ کے لئے جنگل خالی کردئیے، یہ قرآن ہی کی برکت ہے کہ دشت وصحرا بھی صحابہ کرامؓ کے لئے ان کے مشن کی تکمیل میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ کہنے والے نے کہا:
بات کیا تھی کہ نہ قیصر وکسریٰ سے دبے
چند وہ لوگ کہ اونٹوں کے چرانے والے
جن کو کافور پہ ہوتا تھا نمک کا دھوکا
بن گئے دنیا کی تقدیر بدلنے والے
دنیا کی تقدیر کو بدل کر رکھ دیاتھا۔ وہ قرآن پڑھتے تھے تو اس پر عمل بھی کرتے تھے۔ ادھر قرآن مکمل ہوتاتھا اور ادھر ان کا عمل قرآن کے مطابق ہوجایاکرتاتھا۔ وہ صرف حافظ قرآن نہ تھے ، وہ صرف قاری قرآن نہ تھے بلکہ وہ عاملِ قرآن ہواکرتے تھے، وہ ناشرِ قرآن ہواکرتے تھے ، وہ عاشقِ قرآن ہواکرتے تھے‘‘۔
(قرآن عظیم الشان ، صفحہ ۸۴-۸۳)
مولانا شبیر احمد عثمانی اپنی کتاب ’’اعجاز القرآن ‘‘میں تحریر فرماتے ہیں:’’ کیا کوئی ایسا لکچرار آپ کی نظر میں ہے جو ہر ایک مضمون پر یکساں بولنے کی قدرت رکھ سکتاہو۔ کوئی آدمی ہرمضمون کے بیان پر یکساں قدرت نہیں رکھ سکتا، بلکہ بڑے بڑے قصیدوں میں دوہی چار اشعار منتخب ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ کسی متکلم کو ہرمضمون پر پوری قدرت نہیں ہوتی۔
چنانچہ علمائے ادب کا اعتراف ہے کہ امر ؤ القیس گھوڑوں کی تعریف اچھی کرتاہے۔ نابغہ خوف وخشیت میں، اعشی شراب کی طلب اور تعریف میں، زہیر رغبت ورجاء میں اچھالکھتاہے جیسے نظامی وفردوسی رزم وبزم میں، سعدی وعظ وپند میں تفوق رکھتاہے۔ لیکن دوسرے فن میں جاکر ان کی ساری جولانیاں ختم ہوجاتی ہے۔
بوستاں میں ایک جگہ جنگ کی کہانی آگئی۔ وہیں سعدی کی زبان سُست پڑگئی۔ بوستاں کے پانچویں باب میں اُس حکایت کو دیکھ لوکہ نظامی اور فردوسی کے مقابلہ میں سعدی کاکلام کس قدر پھسپھساہے کیونکہ رزمیہ کلام کہنا سعدی کا فن نہیں تھا۔
کسی مشہور سے مشہور شاعر کا دیوان یا کسی مسلّم سے مسلّم عالم اور حکیم کی کتاب کیف ما اتفق اٹھاکر پڑھ جاؤ، اول سے آخرتک یکساں زور قائم نہیںرہ سکتا۔ قرآن کو اول سے آخرتک دیکھ لو کس قدر مضامین مختلفہ کی روہے، جوکہ نہایت روانی، سلاست، آب وتاب اور شان وشوکت سے بہ رہی ہے اور ہرمضمون کو کس قدر قوت اور جزالت وفصاحت کے ساتھ بیان کیاجاتاہے۔ کہیں معاش کا بیان ہے، نکاح وطلاق کے قواعد کی تعلیم ہے، کہیں فرائض میّت تقسیم کی جاتی ہے ، کبھی نماز روزہ کا وعظ ہے ۔
کبھی جہاد کا بیان ہے ، لڑائی کے نقشے کھینچے جاتے ہیں، کہیں سنین ماضیہ کے تاریخی واقعات ہیں، کبھی دلوں کو رُلا نے والی پند و نصائح بیان کی جاتی ہے، کبھی بہشت کا تنعم سامنے ہے ، کبھی دوزخ کا عذاب ۔یہ سب کچھ ہے مگر طرز بیان میں کوئی سستی نہیں، کمزوری نہیں، انحطاط نہیں، ہرموقع پر اقرار کرنا پڑتاہے کہ اس کے مقابلہ سے تمام جن وبشر عاجز ہیں اور ہرجگہ زبان پر آتاہے ؎
کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جاایں جا ست
اول سے آخر تک ایک ہی اسلوب اور ایک ہی طرح کا زور اور ایک ہی رنگ ڈھنگ اور سارے کلام کی یہ یکسانیت ہی پتہ دے رہی ہے کہ یہ کسی مخلوق کا بیان یا کسی کمیٹی کاکلام نہیں، بلکہ یہ اس کا کلام ہے جس کی صفات سب کی سب کامِل غیر متبدل ، لازوال اور نقص وفتور سے منزّہ ہیں۔
’’اور اگر (قرآن) خدا کے سوا (کسی اور) کے پاس سے (آیا) ہوتا تو ضرور اس میں بہت سا اختلاف پاتے‘‘۔
مختصراً قرآن کریم وہ نسخۂ کیمیا ہے جس میں بنی نوع انسان کے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ یہ انسانیت کے لیے منشورِ حیات بھی ہے ، دستورِ حیات بھی ہے، ضابطۂ حیات بھی ہے بلکہ پوری انسانیت کے لیے آبِ حیات ہے۔حضور پاک ؐ نے کیا ہی خوبصورت انداز میں فرمایا، ترجمہ: (اس قرآن میں تم سے قبل کے واقعات ، تمہارے بعد کی خبریں اور تمہارے موجودہ فیصلے بیان ہوئے ہیں)۔ الغرض ہماری کامیابی وکامرانی ، فوز وفلاح اسی قرآن کریم کے اوامرکی اتباع ونواھی سے باز رہنے میں پنہاں ہیں۔
آخر میں راقم اپنی بات اس شعر پر ختم کرنا چاہتاہے۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر