ریزرویشن سے بہتر ہوں گے مسلمانوں کے معاشی حالات؟

0

گزشتہ برس 22 دسمبر کو سماج وادی پارٹی لیڈر ابو عاصم اعظمی نے ایوان اسمبلی میں کہا تھا کہ مہاراشٹر سرکار شیواجی کے اصولوں پر چلتی ہے۔ ہم نے مہا وکاس اگھاڑی سرکار کو بلا شرط حمایت دی لیکن حکومت مسلمانوں کے مسائل کے تئیں سنجیدہ نہیں ہے۔ ہائی کورٹ نے تعلیمی میدان میں 5 فیصد ریزرویشن کو منظوری دی تھی لیکن حکومت نے اسے بحال نہیں کیا۔ تلنگانہ کانگریس نے وزیراعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ اور آندھرا پردیش کے ان کے ہم منصب وائی ایس جگموہن ریڈی پر زور دیا کہ وہ سپریم کورٹ میں مسلمانوں کے لیے سرکاری ملازمتوں اور تعلیم میں 4 فیصد ریزرویشن کا دفاع کرنے کے لیے وزیراعظم نریندر مودی سے بات چیت کریں مگر اگلے سال اسمبلی انتخابات سے پہلے حکمراں تلنگانہ راشٹر سمیتی اس خوف سے مسلم ریزرویشن پر بات کرنے میں احتیاط برت رہی ہے کہ بی جے پی پولرائزیشن کے لیے اس کا استعمال کر سکتی ہے۔
آندھرا پردیش میں حکمراں وائی ایس آر کانگریس پارٹی کی زیر قیادت حکومت مسلم کوٹے کے معاملے کو اٹھانے سے بھی محتاط نظر آتی ہے۔ ریزرویشن کا اعلان غیر منقسم آندھرا پردیش میں اس وقت کی کانگریس حکومت نے 2004 میں کیا تھا۔ وائی ایس راج شیکھرریڈی کی سربراہی میں یہ اعلان 5 فیصد ریزرویشن کا تھا لیکن ہائی کورٹ کے حکم پر تحفظات کو کم کرکے چار فیصد کردیا گیا۔ اس کے بعد کئی افراد نے اسے عدالتوں میں چیلنج کیا۔ 25 مارچ، 2010 کو عدالت عظمیٰ نے اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے 4 فیصد مسلم ریزرویشن کے نفاذ کے علاوہ بی سے ای گروپ کے تحت درج 14 زمروں کے لیے کوٹا جاری رکھنے کا حکم دیا۔ تب اس معاملے پر آئینی بنچ نے اگلے حکم کا حوالہ دیا تھا۔ 12 برس بعد چیف جسٹس آف انڈیا، یو یو للت کی سربراہی میں جسٹس دنیش ماہیشوری، ایس رویندر بھٹ، جسٹس بیلا ایم تریویدی اور جسٹس جے بی پاردی والاپر مشتمل پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے13 ستمبر کو مسلم ریزرویشن کی آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کی۔
عدالت عظمیٰ کے ذریعے متحدہ آندھراپردیش میں تعلیم اور ملازمتوں میں 4 فیصد مسلم کوٹا برقرار رکھنے کی اجازت دینے کے 12 برس مکمل ہونے پر کانگریس کے سینئر رہنما شبیر علی نے 25 مارچ، 2010 کے دن کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر وزیر اعلیٰ کے ذریعہ 12 فیصد ریزرویشن پر عمل کیا گیا ہوتا تو مسلمانوں کی ترقی میں تین گناہ اضافہ ہو جاتا۔ اگر ایسا ہوتا تو ایم بی بی ایس کی 250 سیٹیں بڑھ کر 750 ہو جاتیں۔ 1073 غریب مسلمان ایم بی بی ایس میں داخلہ لے رہے ہیں۔16000 ڈاکٹر بن گئے۔ٹی آر ایس حکومت نے مختلف محکموں میں 80039 ملازمتوں پر تقرری کا اعلان کیا ہے۔ اس کے تحت مسلمانوں کو3201 نوکریاں مل جائیں گی۔ اگر کوٹا 12 فیصد ہوتا تو یہ نوکریاں9604 ہو جاتیں۔ مسلمان اسی ملک کے باشندے ہیں اور ملک کی ترقی و بہبود کے لیے کوشاں ہیں لیکن ایک بڑے طبقے کی معاشی اور اقتصادی حالات بہت خستہ ہے۔ اگر حکومت دیگر غیر مسلموں کی طرح ان کے لیے تعلیم و دیگر سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں کم سے کم 5 فیصد ریزرویشن کردے تو ان کی حالت بہتر ہو جائے گی۔ ان میں ڈاکٹر،انجینئر، ٹیکنیشین اور دیگر زمروں میں ماہرین پیدا ہوں گے جو دیش کی ترقی میں معاون ثابت ہوں گے۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS