نئی دہلی (ایجنسیاں) : سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا ہے کہ انگریزی بولنا میرٹ نہیں ہے۔ دہلی میں ہندوستان ٹائمز لیڈرشپ سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں میرٹ کی روایتی تعریف ہمارے ثقافتی دقیانوسی تصورات کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کچھ مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے لیے میرٹ کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ کون انگریزی بول سکتا ہے، کون صحیح کالج گیا، کسے کوچنگ کلاس ملی، کس نے پیانو یا وائلن سیکھا یا کون سوئمنگ کلب میں تیراکی سیکھنے گیا۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم جس چیز کو میرٹ کے طور پر دیکھتے ہیں، ضروری نہیں کہ میرٹ وہی ہو۔دراصل چیف جسٹس چندر چوڑ اعلیٰ عدلیہ میں خواتین اور کمزور طبقات سے ججوں کی کم تعداد پر اپنی تشویش کا اظہار کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج ہائی کورٹ اور بار سے آتے ہیں۔ ہائی کورٹ میں جج ڈسٹرکٹ اور بار سے بنائے جاتے ہیں۔ جہاں جج بننے کا گیٹ وے ہے وہاں خواتین کم ہیں۔ وکالت کے پیشے کا ڈھانچہ اب بھی جاگیردارانہ، پدرانہ اور خواتین کے لیے کھلے جذبات والا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر انٹری پوائنٹ جمہوری اور میرٹ پر مبنی نہیں ہوگی تو خواتین اور کمزور طبقات کے لوگ زیادہ نہیں آئیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ انصاف کے لیے کوئی بھی عدالت پہنچ سکتا ہے، یہ ہماری طاقت ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ سپریم کورٹ ہے جو چھوٹے موٹے جھگڑوں اور جھگڑوں کے معاملے سنتاہے، لیکن ہمارا رول ہے کہ اسقاط حمل کے مقدمات بھی سنیں، اگر طلاق دینے والے کو 5 ہزار روپے بھتہ نہیں مل رہا ہے تو اس کی فریاد سنیں، کسی کو ضمانت نہیں مل رہی ہو تو اس کی بات سنیں۔ معاملہ خبروں میں یا سوشل میڈیا میں بحث کے لائق ہو یا نہ ہو، ہمارا کام انصاف کرنا ہے۔ چندر چوڑ نے کہا کہ ہم نے نچلی سطح پر فیصلہ نہ لینے کا کلچر بنالیا ہے۔ بداعتمادی کی فضا ہے جس کی وجہ سے فیصلے نہیں ہوتے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ کل کو کیس ہوگیاتو کل کو تفتیش ہو گئی تو۔ اس لیے فیصلے نہیں ہوتے اور مقدمات عدالت میں آتے ہیں۔ سوال پنشن کا ہو، زیر کفالت کو نوکری دینے کا ہو، فیصلہ نہ ہونے پر عدالت پہنچ جاتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سوشل میڈیا نے عدالت کے سامنے نئی قسم کا چیلنج پیش کیا ہے۔ جج عدالت میں جو کچھ بھی کہتا ہے وہ فیصلہ سازی کے عمل کا مکالمہ ہوتاہے۔ لیکن سوشل میڈیا پر ریئل ٹائم چلتا ہے، آپ کیاکیا کہتے ہیں ۔ آپ کے ہر لفظ سے مسلسل اندازہ لگایاجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے اگر جج بحث میں خاموش ہو جائے گا تو عدالتی فیصلہ سازی کا عمل خطرے میں پڑ جائے گا۔ جسٹس چندرچوڑنے کہا کہ ہمیں اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے خود کو بدلنا ہوگا۔چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے عدلیہ کے سامنے موجودہ چیلنجوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہہندوستانی عدلیہ کے سامنے سب سے بڑا چیلنج زیر التوا مقدمات کی تعداد ہے۔ سی جے آئی نے کہا، ‘گزشتہ 70 سالوں میں ہم نے کنفیوژن کا کلچر بنایا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عدم اعتماد کا کلچر ہے جس کی وجہ سے ہمارے افسران فیصلے نہیں کر پا رہے ہیں۔ یہ ایک وجہ ہے کہ اتنے سارے مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ قانون انصاف کا ذریعہ بھی ہوسکتا ہے اور جبر کا بھی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس بات کو یقینی بنانے کی ذمہ داری کہ قانون جبر کا آلہ نہ بنے، نہ صرف ججوںبلکہ تمام فیصلہ سازوں کی بھی ذمہ داری ہے۔ جسٹس چندر چوڑ نے کہاکہ آج بھی ایسے قوانین قانون کی کتابوں میں موجود ہیں جنہیں جبر کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ قوانین نوآبادیاتی دور سے رائج ہیں۔ واضح رہے کہ ملک میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں میں ججوں کی بڑی تعداد کی آسامیاں خالی ہونے کی وجہ سے بے شمارمقدمات زیر التوا ہیں۔ 8 نومبر کو چیف جسٹس جسٹس یو للت کے ریٹائرمنٹ کے بعد سپریم کورٹ میں 34 میں سے 27 منظور شدہ جج کام کر رہے ہیں۔ 7 ججوں کی آسامیاں خالی ہیں۔ ہائی کورٹوں میں ججوں کی کل 1108 آسامیاں منظور ہیں جبکہ ججوںکی صرف 773 آسامیاں کام کر رہی ہیں اور 30 فیصد یعنی 335 آسامیاں خالی ہیں۔
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS