محمد عباس دھالیوال
15 اگست 2021 کو افغانستان میں اقتدار کی تبدیلی ہوئی تھی اس سے قبل امریکی فوج نے افغانستان سے انخلاء شروع کر دیا تھا۔ اپنے مکمل انخلاء کے بعد امریکہ نے افغانستان کے تمام بینک کھاتوں کو منجمد کر دیا تھا۔اس سلسلے میں امریکہ و اس کے حامی ممالک نے افغانستان کے مرکزی بینک کے لگ بھگ نو ارب ڈالر منجمد کررکھے ہیں۔ ان کے نزدیک طالبان ممکنہ طور پر یہ وسائل دہشت گردی کی معاونت کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ امریکہ نے انخلاء کے بعد عملی طور پر قائم ہونے والی طالبان حکومت پر مختلف قسم کی بین لاقوامی پابندیاں بھی عائد کروا دیں تھیں۔
جس سے افغانستان میں بر سر اقتدار آنے والی طالبان حکومت کے ساتھ ساتھ اس ملک کے عوام کو اقتصادی بحران کا اب تک سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ایک رپورٹ میں اقوامِ متحدہ نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان کی پوری آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے۔ شاید اسی کے چلتے اقوامِ متحدہ نے افغانستان میں انسانی بنیادوں پر امداد کے لیے قریب دس ماہ قبل عطیات جمع کرنے کی ایک پر زور اپیل کی تھی لیکن افسوس کہ اقوام متحدہ نے امدادی عطیات جو ایک اندازہ مقرر کیا تھا اب تک اس کا نصف بھی حاصل نہیں ہوسکا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ امداد دینے والے بڑے ملکوں میں کوئی مسلمان ملک شامل نہیں ہے۔
دریں اثناء افغانستان کے لیے یورپی یونین کے نمائندہ خصوصی ٹامس نکلاسن نے ٹوئٹر پر رواں ماہ کے آغاز میں اپنے دورے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ افغانستان کو سخت موسمِ سرما کا سامنا ہے۔
انہوں نے چین، روس اور اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی) پر زور دیا تھا کہ وہ برطانیہ، امریکہ اور یورپی یونین سمیت دیگر ممالک کی طرح انسانی امداد کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
یہاں قابل ذکر ہے کہ افغانستان کا شمار گزشتہ ایک مدت سے پہلے ہی دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا چلا آ رہا ہے۔ لیکن امریکہ کے زیر توسط طالبان حکومت پرعائد بین لاقوامی پابندیوں کی وجہ سے ملک کے حالات مزید سنگین ہوتے چلے گئے۔
افغانستان کی موجودہ صورتِ حال اس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اب تقریباً افغانستان کی پوری آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے۔
َاس سلسلہ میں افغانستان میں کام کرنے والی نارویجن ریفوجی کونسل کے ڈائریکٹر نیل ٹرنر کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس یوکرین کے لیے امداد کی اپیل کو مغربی ممالک کی جانب سے بہت توجہ ملی تھی اور ان میں باقاعدہ عطیات کے لیے مسابقت دیکھی گئی تھی۔ لیکن افغانستان سے متعلق خدشہ ہے کہ مستقبل میں یہاں جنم لینے والے بحران کو نظر انداز کردیا جائے گا۔
ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے سعودی عرب نے یوکرین کے لیے 40 کروڑ ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ امدادی اداروں نے اس اعلان کا خیر مقدم کیا تھا۔ دوسری جانب رواں برس تیل سے مالا مال اس مسلم ملک نے افغانستان کے لیے ایک کروڑ 10 لاکھ ڈالر کی امداد دینے کا وعدہ کیا تھا۔
اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات، قطر اور ترکی جیسے نسبتاً امیر مسلم ممالک بھی افغانستان کے لیے امداد فراہم کرنے والوں کی فہرست سے یا تو غائب ہیں یا بہت پیچھے ہیں۔
جبکہ اس سال متحدہ عرب امارات نے اقوام متحدہ کی جانب سے 23 ممالک کے لیے امداد کی اپیل میں مجموعی طور پر 30 کروڑ ڈالر سے زائد کا فنڈ دیا ہے۔ اس میں سے 17 کروڑ سے زائد افریقی ملک ایتھوپیا کو دیے گئے جبکہ افغانستان کے لیے صرف 19 لاکھ ڈالر جاری کیے تھے۔ اس کے علاوہ قطر جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ فی کس آمدنی والے ممالک میں شمار ہوتا ہے اس نے اقوام متحدہ کی اپیل کے جواب میں صرف دس 10 لاکھ ڈالر جاری کیے ہیں جس میں پانچ لاکھ کیمرون کے لیے تھے۔
جبکہ پچھلے سال دسمبر میں اسلام آباد میں ہونے والے او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے ایک اجلاس میں افغانستان کی امداد کے لیے اسلامی ترقیاتی بینک میں ایک فنڈ قائم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ چنانچہ اس سال اگست میں اسلامی ترقیاتی بینک نے ریڈ کراس اور ہلال احمر سوسائٹی کو افغانستان میں امدادی سرگرمیوں کے لیے سوا پانچ لاکھ ڈالر دینے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن وہیں او آئی سی اور اسلامی ترقیاتی بینک کے ترجمانوں نے اگست کے بعد مزید فنڈنگ سے متعلق پوچھے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا ہے۔
مذکورہ حوالے سے ایک رپورٹ میں جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے وابستہ بین الاقوامی امور کی ماہر مریم زیڈ ڈیلوفر کی طرف سے کہا گیا ہے کہ انسانی بنیادوں پر امداد کی اکثر اپیلوں میں بہت کم فنڈنگ ہورہی ہے۔
یوکرین کے لیے 4.29 ارب ڈالر کی اپیل کی گئی تھی جس کا 68 فی صد جمع ہوچکا ہے۔ جبکہ افغانستان کے لیے 20 کروڑ فنڈ کی اپیل کی گئی تھی جس میں سے صرف 55 فی صد فنڈز ہی مل سکے ہیں۔ لیکن اس فنڈنگ میں مسلم ممالک کا کوئی بڑا حصہ شامل نہیں ہے۔
مریم ڈٰیلوفر کا یہ بھی کہنا ہے کہ نائن الیون کے بعد سعودی عرب نے طالبان سے قطع تعلق کرلیا تھا اور ان پر اسلام کو بدنام کرنے اور دہشت گردی کو فروغ دینے جیسے الزامات بھی عائد کرچکا ہے۔ بقول ان کے اس کے علاوہ اقوامِ متحدہ اور امریکہ کی پابندیوں اور قوانین وغیرہ سے متعلق تحفظات بھی اس کے پیشِ نظر رہے ہیں۔
ادھر ورلڈ پیس فائونڈیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایلکس وال کا کہنا ہے اس وقت افغانستان میں امداد کا ایسا نظام کام کررہا ہے کہ مسجد کے باہر گدا گر قطار میں کھڑے ہوتے ہیں اور باہر آنے والے نمازی جسے بہتر سمجھتے ہیں اسے چند سکے دے دیتے ہیں۔
ادھر افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے نارویجن ریفوجی کونسل کے نیل ٹرنر یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یوکرین میں جاری جنگ اور دنیا کے دیگر خطوں میں پیدا ہونے والے بحرانوں کے باعث خدشہ ہے کہ مستقبل میں ڈونرز کی دلچسپی افغانستان میں کم ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ کئی ترقی یافتہ ممالک خود بھی معاشی بحران کا سامنا کررہے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی آبادی 1.8 ارب سے زائد ہے۔ ان میں افغانستان کے علاوہ یمن، شام اور صومالیہ سمیت کئی مسلم اکثریتی علاقوں میں تنازعات اور قدرتی آفات کے باعث کئی بحران ہیں جن میں فوری امداد کی ضرورت ہے۔
[email protected]
غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم۔۔۔!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS